سیکڑوں فلموں کا میوزک اور 500 سے زائد فلموں کا بیک گراؤنڈ میوزک دینے والے موسیقار، ایم ارشد کا شمار پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور موسیقاروں میں ہوتا ہے ۔ اِن کے والد ایم اشرف نے بھی پاکستان فلم انڈسٹری میں بے شمار کام کیا ۔ ایم ارشد نے اپنے والد کے ساتھ 1978ء میں فلم’’ میرا نام ہے محبت ‘‘میں بطور اسسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر کام کاآغاز کیا ، اُس وقت اِن کی عمر صرف 13 برس تھی۔ یہ آرڈی برمن کو روحانی استاد ،جبکہ موسیقار روبن گھوش کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ ایم ارشد 1983 ء میں بھارت گئے اور آرڈی برمن کے باقاعدہ شاگرد بنے۔
وہاں سے آنے کے بعد اپنے والد ایم اشرف کے ساتھ ’’اللہ رکھا ‘‘، ’’وڈیرا ‘‘،’’ ناچے جاگن ‘‘اور’’ برداشت ‘‘جیسی فلموں میں بطور میوزک اسسٹنٹ کے طورپر کام کیا،بعدازاں فلم ’’ پلے بوائے ‘‘ ، ’’ زندگی‘‘ ، ’’ نوکر ‘‘ ، ’’ شمع ‘‘ ، ’’ شبانہ ‘‘ میں بھی موسیقی دی۔ 1984ء سے1986 ء تک والد کے ساتھ میوزک ارینجر کے طور پر کام کیا،پھر فلموں کا بیک گراؤنڈ میوزک دینا شروع کردیا۔ اسی برس اِن کی شادی ہوگئی ، پھرتو اِن پر قسمت ایسی مہربان ہوئی کہ کامیابی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
٭سپورٹ نہ ہو تو آرٹسٹ مر جاتا ہے ، حکومت نے انڈسٹری کو یتیم بچہ سمجھا ، اکیڈمیز کے فقدان سے میوزک کا بیڑہ غرق ہوا۔
٭روبن گھوش آئیڈیل ، آرڈی برمن روحانی استاد تھے ،آج کے گلوکار ریاض نہیں کرتے ، تجرباتی گلوکاروں کا حامی ہوں۔
٭’’ اکھیاں اڈیک دیا ں ‘‘ ، ’’ سانوں اک پل چین نہ آوے ‘‘ ، ’’ دم مست قلندر مست مست ‘‘ ، ’’ خنجر ہیں تیری آنکھیں تلوار تیری آنکھیں ‘ ‘ اور ’’ نا جاوی ڈھولنا ‘‘ کے البم نے ریکارڈ قائم کیے، نصرت فتح علی خان نے آخر تک مجھ سے کام لیا۔
اس دور میں ایم ارشد نے مختلف گلوکاروں کی میوزک البمز بنائیں ،یوں وہ پاکستان میں میوزک البم کی روایت شروع کرنے والے پہلے موسیقار بن گئے۔ اِنہوں نے پہلے اے نیئر ، تحسین جاوید ، شوکت علی کی آڈیو البم کیں، اس کے ساتھ 12 گلوکاروں پر مشتمل ایک نجی کمپنی سے مل کر البم تیار کی، جس میں ملکہ ترنم نور جہاں ، گلوکارمہدی حسن ، ناہید اختر ، مہناز ، رجب علی ، شوکت علی ، غلام عباس نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔
1990ء میں استاد نصرت فتح علی خان سے پہلی ملاقات ہوئی، جس کے بعد دونوں نے6 گانوں پر مشتمل میوزک البم تیار کیا، جس میں اکھیاں اڈیک دیاں ، سانوں اک پل چین نہ آوے، کسے دا یار نا وچھڑے، دم مست قلندر مست مست، خنجر ہیں تیری آنکھیں تلوار تیری آنکھیں اور نا جاوی ڈھولنا شامل ہیں۔ اس البم نے یکایک دُنیا بھر میں تہلکہ مچا کر ایک منفرد ریکارڈ قائم کردیا۔ اس کامیابی کے بعد استاد نصرت فتح علی خان نے اپنے آخری وقت تک اِن ہی سے کام کرایا۔
1995 ء میں فلم ’’ جیوا ‘ ‘ میں انور رفیع سے ’’ جانوسن ذرا نظریں تو ملا‘‘ گانا گوایا اور یہ گیت بھی راتوں رات سپر ہٹ ہوگیا۔ چھو لے اگر تجھ کو ہوا ‘‘ بھی بہت مقبول ہوا اور پھر کامیابی کا سفر مزید تیز ہوگیا۔ ’’جیوا‘‘ کے بعد چور مچائے شور ، ڈاکو رانی، دل دیوانہ ہے سمیت سید نور کے ساتھ 30 فلمیں کیں۔ چوڑیاں، مجاجن ، مہندی والے ہاتھ سمیت کئی فلموں کے بیک گراؤنڈ میوزک بھی دیئے۔ ریما خان کی فلم ’’ لو میں گم ‘‘ میں راحت فتح علی خان ، شریا گھوشال ، کنال گانجے والا اور گلوکار ابرار الحق نے بھی گایا۔ ہدایت کار فیصل بخاری کی فلم ’’ بھائی لوگ ‘‘ ، ہدایت کار الطاف حسین کی فلم ’’ خاموش رہو ‘‘ سمیت ٹیلی ویژن انڈسٹری کےلیے 50 سے زائد سیریل میں بطور میوزیشن کام کیا۔
ایم ارشد اب تک 30 ہزار سے زائد مختلف گانے بنا چکے ہیں، جس میں فلم، ٹی وی، ریڈیو اور مختلف البمز شامل ہیں۔ فلم’’ بلندی ‘‘اِن کے کیئریئر کی مکمل میوزک ڈائریکٹر پہلی فلم تھی، جس میں اِنہیں پہلا نگار ایوارڈ ملابھی ملا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے ہر بڑے ہدایت کار کے ساتھ اِنہوں 40 سے 45 فلمیں کی ہیں۔ کراچی کی ایک پُر رونق محفل میں ایم ارشد سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اِس دوران ان سے ہونے والی یادگار گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
٭… سب سے پہلے تو یہ بتادیں روشنیوں کے شہر کراچی آکر کیسا لگا؟
ایم ارشد … میں کراچی اور لاہور کے درمیان کوئی تقسیم محسوس نہیں کرتا، سب پاکستان ہے، اگر اب کراچی میں فلم انڈسٹری بحال ہورہی ہے تو یہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی کہلائے گی۔ اکثر لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ لاہور کی فلم انڈسٹری کراچی چلی گئی ہے، بھئی یہ پاکستان کی فلم انڈسٹری ہے، مجھے تو بہت خوشی ہے کہ انڈسٹری اب دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہورہی ہے، حالانکہ کچھ لوگ یہ چاہتے تھے کہ یہ انڈسٹری دفن ہو جائے، لیکن دوبارہ اُبھر رہی ہے۔
٭… قوالی سے پلے بیک سنگر بننے تک کا سفر کیسا رہا؟
ایم ارشد … یہ تو طویل داستان ہے، لیکن اپنا ٹرننگ پوائنٹ مختصراً بیان کردیتا ہوں۔ ایک دِن میں صدی کے بہت بڑے گلوکار نصرت فتح علی خان صاحب کی محفل میں بیٹھا تھا۔ آج تک میں نے اُن جیسی لے کسی کی نہیں سنی۔ اُن کی گائیکی براہ راست دِل میں اُتر جاتی تھی۔ اُس وقت اُنہوں نے ’’دم مست قلندر مست مست، سجناں تیرے بنا‘‘ کے چھوٹے چھوٹے چنکس بنا رکھے تھے، اس کا میوزک بھی ٹکڑوں میں کچھ حد تک بنا ہوا تھا۔ بہرحال خان صاحب نے مجھے بلایا، اُنہیں علم ہوگیا تھا کہ یہ ایم اشرف کا بیٹا ہے ، کہا کہ بیٹا! میں نے آپ کا بڑا نام سنا ہے، ہمیں ایک میوزک البم تیار کرنا ہے۔ میں سوچ میں ڈوب گیا کہ اتنے بڑے گلوکار نے مجھ سے کہا ہے، میں منع کیسے کرسکتا ہوں؟
میں نے حامی بھر لی اور البم پر کام شروع کردیا۔ میں نے اُنہیں مشورہ دیا کہ آپ کی قوالیوں میں جو لڑکے پیچھے بیٹھ کر تالیاں بجاتے ہیں ،میں چاہتا ہوں اس البم میں لڑکیاں تالیاں بجائیں، اُس دور کی گانے والیاں بھی ایسی تھیں، جن کے سر کے بال بھی کسی کو نظر نہیں آتے تھے،ایسا ہی ہوا لڑکیوں کو اس میں شامل کرنے کا میرا تجربہ انتہائی کامیاب رہا، اسی البم میں، میں نے ایک جوابی ساز بھی متعارف کرایا تھا، جو پاکستان اور بھارت میں میرا پہلا تجربہ تھا، جسے بے حد پسند کیا گیا ۔
خدا کا کرم اور والدین کی دُعائیں تھیں کہ 6 گانوں پر مشتمل البم مارکیٹ میں آگیا۔ جس میں ’’دم مست قلندر، کسے دا یار نہ وچھڑے ، انکھیاں اڈیک دیاں‘‘ وغیرہ یہ تمام گانے شامل تھے۔ ایک نجی کمپنی نے اس البم کو ریلیز کیا ، لیکن وہ البم مارکیٹ میں آتے ہی فلاپ ہوگیا۔ اُس کمپنی نے جہاں وہ کیسٹس فروخت کی تھیں وہ تمام واپس آگئیں ، پھر نہ جانے ایک ہفتے بعد کیا ہوا کہ اس البم کی ایسی دھوم مچنا شروع ہوئی کہ جنہوں نے وہ کیسٹ واپس بھجوائی تھیں کہنے لگے کہ بھائی! آپ ہم سے 10 روپے اوپر لے لو اور یہ کیسٹس ہمیں واپس بھیج دو ، ہم نے 3 روپے کی کیسٹ 10 روپے میں واپس دیں۔
٭… 6 دِن کی خاموشی کے بعد اچانک اُس البم کا تہلکہ کیسے مچ گیا، کیا آپ لوگوں نے پروموشن شروع کی تھی؟
ایم ارشد … اس وقت پروموشن کا تو تصور بھی ذہنوں میں نہیں تھا، نہ ہی گانوں کی ویڈیوز بنتی تھیں، نہ چینلز تھے، نہ یو ٹیوب۔ بس! خدا کاکرنا ایسا ہوا کہ کسی نے وہ البم سنا اُس نے دوسرے کو، دوسرے نے تیسرے کو سننے کا مشورہ دیا اور پھر اُس کی طلب بڑھتی گئی اور ریکارڈ قائم ہوگیا۔
٭… آپ استادوں کے استاد ہیں ، اپنا اُستاد کسے سمجھتے ہیں؟
ایم ارشد … موسیقار روبن گھوش میرے آئیڈیل ہیں، جبکہ آرڈی برمن شروع سے ہی میرے روحانی استاد تھے ، بھارت میں آرڈی برمن سے ملاقات میری زندگی کا حسین ترین لمحہ تھا۔ جب میں اُن سے ملنےگیا تو وہ آگے کی طرف منہ کرکے بیٹھے تھے، میں اسٹوڈیو پہنچا تو اُنہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، میں اپنے استاد کو دیکھتے ہی جذباتی ہوگیا کہ یہ وہی بندہ ہے، جو گاتا ہے ’’چرا لیا ہے تم نے جو دِل کو‘‘ ۔ میں اُن کےلیے لاہور سے پشاوری چپلیں خرید کر لے گیا تھا، جو ہندوستان میں نہیں ملتیں۔ میں نے اُن کے پائوں کو ہاتھ لگایا اور وہ چپلیں تحفتاً اُنہیں پیش کیںاور کہا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں اور یہ چھوٹا ساتحفہ لایا ہوں ،میں آپ کا بہت بڑا دیوانہ ہوں۔
اُنہوں نے مجھے گلے لگایا ، چائے منگوائی بہت عزت دی۔ اب میں اور کیا کہوں وہ سُر سے بھیگے ہوئے لوگ ہیں اُن کی بھر پور تعریف چاہ کر بھی نہیں کرسکتا۔ اُس دور میں جدید ٹیکنالوجی تو نہیں تھی، البتہ میرے پاس ایک تھکا ہوا کیمرہ تھا، بدقسمتی ہے کہ اُن کے ساتھ تصاویر بھی صحیح طرح نہیں اُتر سکیں۔
٭… آپ نے کئی گلوکاروں سے گیت گوائے ، خود بھی چند گیت گائے ہیں، اس بارے میں کچھ بتائیں؟
ایم ارشد … میوزک انڈسٹری پر موسیقار ہمیشہ سے حاوی رہے ہیں، میرے ڈیڈی میرے دوست بھی تھےاور میرے اُستاد بھی ، ایسا عظیم باپ میں نے کسی کا نہیں دیکھا، میں نے گیت گوائے یا گائے جو عزت ہے آج اُن ہی کی بدولت ہے۔
٭… والدین اگر بڑی شخصیت ہوں تو پھر اُن کے درمیان سے نکل کر اپنا رنگ پیش کرنا مشکل ہوجاتا ہے،کیاخیال ہے؟
ایم ارشد … جی ہاں! میرے لیے بھی بہت مشکل تھا۔ میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں۔ ڈیڈی گھر میں مجھے سبق دےکر جاتے تھے کہ اس کی پریکٹس کرو۔ جب وہ چلے جاتے تو میں کبھی پریکٹس کرتا اور کبھی نہیں، میری والدہ بھی میری دوست تھیں، اکثر میں اُنہیں کہہ دیا کرتا تھا کہ اگر ڈیڈی واپس آکر پوچھیں تو کہہ دینا کہ میں نے پریکٹس کی تھی۔ والدہ کہتیں ٹھیک ہے بیٹا! کہہ دوں گی۔ والد جب گھر آتے تو والدہ سے پوچھتے کہ اس نے پریکٹس کی تھی؟
والدہ صاف کہہ دیتیں، نہیں، اس نے پریکٹس نہیں کی۔ میں اپنی ماں کی شکل دیکھتا کہ صبح سے شام تک تو یہ مجھے دلاسے دیتی رہیں کہ تم فکر نہ کرو، میں کہہ دوں گی کہ پریکٹس کی ہے اور ابو کے آتے ہی بدل گئیں۔
کبھی کبھی غصے میں تو میں یہ سوچتا تھا کہ شاید یہ میرے والدین ہی نہیں ہیں۔ بہرحال وقت گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ والدہ چاہتی تھیں کہ میں دوسرا ایم اشرف بن جائوں۔ آپ پاک و ہند میں دیکھ لیں جتنے بھی بڑے موسیقار ہیں ،اُن کے بیٹے اس فیلڈ میں نہیں آئے، اگر آئے ہیں تو آرڈی برمن، پاکستان میں رشید عطرےکے بیٹے وغیرہ ہیں۔ وہ 1965ء کا دور تھا جب لوگ بہت محنت کرتے تھے، ایک گانے کےلیے 10-10 دِن ریہرسلز ہوتی تھیں، موسیقی تیار کرنے والے ہر بندے کو 50 یا 75 روپے ملتے تھے، جب گانا فائنل ہوجاتا تھا تو علیحدہ سے 200 روپے ادائیگی ہوتی تھی، لہٰذا یہ موسیقار اُس قیمتی دور سے نکل کر سامنے آئے ہیں ۔
آج اِن کا حال دیکھ لیں ، اب تو یہ ڈوب رہے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے اس دور کے موسیقار بیک وقت منہ سے الگ اور ہاتھ سے الگ موسیقی بجاتے تھے، آج کے موسیقار کو تو یہ علم بھی نہیں ہے کہ اپنے گلوکار کو کس رائٹ پر رکھ کر گیت گوانا ہے، کونسا سُر اوپر رکھنا ہے اور کون سا نہیں۔
٭… کیا آج کا موسیقار گلوکار کی رینج سے بھی ناواقف ہے؟
ایم ارشد … میں سید نور کے 19 گانے ہندوستان لےکر گیا، وہاں ایک کویتا کرشنا مورتی ہیں، وہ پوچھنے لگیں کہ یہ گانے آپ نے ممبئی میں ریکارڈ کئے ہیں؟ میں نے کہا نہیں ’’آپا‘‘۔ پھر وہ پوچھنے لگیں آپا کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ میں نے کہا بڑی بہن کو ہم آپا کہتے ہیں۔ میں نے کہا ’’آپا‘‘ یہ گانے میں لاہور سے بنا کر لایا ہوں، پھر وہ کہنے لگیں آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میری رینج کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ میں نے آپ کو سُنا ہوا ہے۔ وہ میری بات سن کر حیران ہو گئیں کہ آپ میرے گیتوں کو اتنی باریکی سے سنتے ہیں؟
میں نے کہا جی بالکل،اگر میں آپ کے گیت سن کر آپ کی رینج کا اندازہ نہ لگا سکوں تو پھر میں میوزک ڈائریکٹر کس بات کا ہوں، لہٰذا گلوکاری میں سُر اور فی میل سنگرز کی رینج کا الگ حساب ہوتا ہے، پاکستان میں فی میل سنگر کم ہیں۔ میڈم نور جہاں واحد گلوکارہ تھیں جن کی رینج کمال کی تھی ، اُن کے علاوہ بھی چند گلوکارائیں ہیں جن کی رینج بہت اچھی رہی ہے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
٭… آج کے گلوکاروں میں رینج کی قلت کیوں ہوگئی ہے؟
ایم ارشد … مجھے بتائیں آج کون سا گلوکار ہے، جو صبح 4-5 بجے اُٹھ کر ریاض کرتا ہے؟ ہمارے دور میں صبح تہجد کے وقت اُٹھ کر بزرگ ریاض کرتے تھے کہ اے خدا میرے گلے کو اچھا اور سریلا کردے۔ آج کل کے دور میں تو گلوکار وقت ہی نہیں نکالتے۔
اس کے علاوہ ایک اور پوائنٹ بتادوں کہ جب آپ کے گانے کی رینج چھوٹی ہوگی تو گانے کا اسکیل بھی چھوٹا ہوجائے گا اور جب اسکیل چھوٹا ہوگا تو پھر میوزک کو بھی آپ کی گائیکی کے حساب سے چھوٹا کرنا پڑے گا، اس طرح پورے سُر نہیں لگیں گے اور گانے کا لطف ہی ختم ہو جائے گا۔ یہ تکنیکی باتیں ہیں ،جو لوگ نہیں سمجھتے۔
٭… آخر گلوکاروں نے ریاضت کیوں ختم کردی ہے؟
ایم ارشد … دیکھیں، ریاضت اس لیے ختم ہو گئی ہے، کیونکہ ہم نے اچھے موبائل اور اچھی گاڑیاں خرید لی ہیں۔ راحت فتح علی خان، اگر آج ایک کنسرٹ کے 50 لاکھ روپے مانگتے ہیں تو بالکل صحیح مانگتے ہیں ،کیونکہ اِس کے پیچھے اُن کی بے انتہا محنت اور ریاضت شامل ہے۔
٭… وہ تو پلے بیک سنگر ہیں اور اب تو اُنہوں نے قوالیاں بھی کم کردی ہیں؟
ایم ارشد … اگر وہ پلے بیک سنگر ہیں تو کیا ہوا، جہاں تک قوالی کی بات ہے وہ تو اُسے کبھی نہیں چھوڑیں گے، کیونکہ جہاں قوالی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ قوالی گاتے ہیں، جہاں بالی ووڈ کی فرمائش ہوتی ہے، وہ بالی ووڈ گاتے ہیں، جہاں نصرت فتح علی خان کی گائیکی سننے والے ہوں تو وہاں وہ اُن کی موسیقی پیش کرتے ہیں ، یہ سب اُن کے مسالے ہیں۔
اُن کے پاس کئی ویری ایشنز ہیں، اور یہ سب خدا کی دین ہے، میں سمجھتا ہوں اگر آپ کو خدا نے اتنی صلاحیتیں دی ہیں تو آپ کو اُن کا بھر پور استعمال کرنا چاہئے۔ ویسے تو ہمارے ہاں اتنی ویری ایشن والا گلوکار نہیں ہے، اب ایک ہے اور اُس کی ٹون پورا پاکستان گاتا ہے تو ہمیں بھی اُس کی عزت کرنی چاہئے۔
٭… لاہور میں رفاقت علی خان ہیں، شفقت امانت علی ہیں اِن کا بھی تو اپنا منفرد انداز ہے، اُن کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ایم ارشد … بات یہ ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ گلوکاروں میں ایک مسئلہ درپیش ہوگیا تھا کیونکہ پیچھے سے کہا جارہا تھا کہ بس یہی گیت گانے ہیں اور کچھ نہیں لیکن راحت فتح خان کے گرد جو بیریئر لگا تھا وہ اس نے خود توڑا اور وہ اپنے اندر کئی ویری ایشن لایا اور پھر سرحد سے باہر نکل گیا۔ میں تو تجربات کا حامی ہوں، ہر گلوکار کو تجربات کرنے چاہئیں، اُس میں ہر رنگ نظر آنا چاہئے۔
٭… آپ نے کتنے گلوکاروں کو متعارف کرایا؟
ایم ارشد … میں نے کم از کم 100 گلوکاروں کو اپنی موسیقی کے ذریعے متعارف کرایا ہے، جس میں رجب علی، ناحید اختر، نیرہ ا نور، مہناز، تحسین جاوید، محمد علی شیکی، اسد امانت علی، سائرہ نسیم، شوکت علی اور ایسے ہی بہت سے نام ہیں جنہوں نے ایک ہی گانا گایا اور راتوں رات سپراسٹار بن گئے۔
٭… جن گلوکاروں کے آپ نے نام لیے اِن سب نے موسیقی کے الگ الگ رنگ جمائے ہیں، آپ کے والد بھی یہی کہا کرتے تھے کہ جو گلوکار جہاں کا ہے اُسے وہیں رکھنا چاہئے…
ایم ارشد … میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ طاہرہ سید کی والدہ ملکہ پکھراج سے جب کہا گیا کہ ہم آپ کی بیٹی سے فلم کےلیے گانا گنوانا چاہتے ہیں تو اُنہوں نے کہا کہ میری بیٹی فلم کا گانا کیسے گاسکتی ہے؟ یہ تو سیدہ ہے۔ میں نے کہا پہلے آپ گانا سن لیں اگر پسند آئے تو کرلیں نہ پسند آئے تو ہم چھوڑ دیں گے۔
پھر اُن کے گلے کی آواز کے مطابق ہم نے گانا بنا دیا۔ ایک گلوکارہ تھیں شاہدہ اُن کی ڈنڈے کی طرح آواز تھی، یعنی اُن کے گلے میں کوئی جگہ ہی نہیں تھی جس سے سُر سامنے آئے لیکن تخلیق کاروں نے اُس کی آواز کو بھی سُروں میں اس طرح بھگویا کہ اُن کا گیت سپر ڈوپر ہٹ ہوا۔ پہلے زمانے کے جوہری تو ایسے آرٹسٹوں کو تراشتے تھے اور اصل آرٹسٹ بھی وہی بناتے تھے۔
٭… میڈم نور جہاں کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ناہید اختر جیسی آوازوں کو آگے آنے نہیں دیتی تھیں اور موسیقاروں کا اثر و رسوخ استعمال کرتی تھیں، اس بات میں کتنی صداقت ہے؟
ایم ارشد … دیکھیں! اجارہ داری اور حکمرانی تو لتا جی کی آج بھی ہندوستان میں برقرار ہے۔ اُنہوں نے رونا لیلیٰ کو آگے آنے نہیں دیا تھا لیکن جب وہ پاکستان آئیں تو پاکستانیوں نے اُنہیں بہت پیار دیا۔ بزمی صاحب نے اُنہیں سَر آنکھوں پر بٹھایا۔
میرے ڈیڈی کا گانا ’’او میرا بابو چھیل چھبیلا میں تو ناچوں گی‘‘ وہ آج پورا ہندوستان گاتا ہے حالانکہ اس گیت پر بپی لہری اپنا نام لگارہا تھا، میں نے کہا (ہنستے ہوئے) تو اپنے سونے کی دو چینیں مجھے دے دے پھر اپنا نام لگا لے۔
٭… 90ء کی انڈسٹری میں آپ کا طوطی بولتا تھا، اس دور میں ایم اشرف نے اپنے لیول کا کام کیوں نہیں کیا ، آخر کیا وجہ تھی؟
ایم ارشد … ایک وجہ تو یہ ہے کہ اُس دور میں میری ماں بہت بیمار تھیں، اُن کا علاج چل رہا تھا اور پیسے کی اشد ضرورت تھی۔ شوگر کی وجہ سے اُن کے گردے ناکارہ ہوگئے تھے، اس دور میں ہم نے بہت پریشانیاں دیکھی ہیں، میرے ڈیڈی نے میری ماں کی بہت خدمت کی۔
اب ہمیں گھر کی دال روٹی بھی دیکھنا تھی، بیماری پر بھی پیسہ لگانا تھا، والدہ کے پاس بھی کسی کو ہونا تھا، خرچہ بھی بہت درکار تھا، سب کچھ کرنے کے باوجود صرف اتنا ہو پاتا تھا کہ گزارا ہوجائے ، ہمارا 10 مرلے کا انتہائی خوبصورت گھر تھا جس کی قیمت 5-6 کروڑ تھی ، اُسے ہمیں صرف 5-6 لاکھ روپے میں فروخت کرنا پڑا۔
٭… کیا حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملتی؟
ایم ارشد … میں سمجھتا ہوں آرٹسٹ اس وقت مر جاتا ہے، جب اس کی سپورٹ ختم ہو جائے۔ پاکستان کی حکومت آج بھی فلم انڈسٹری کو یتیم بچہ سمجھتی ہے، میں معذرت چاہتا ہوں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ آپ پاکستان میں رہتے ہوئے کچھ نہیں کرسکتے ، یہاں تو آرٹسٹوں کی قدر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور یہ صرف میرا مسئلہ نہیں ہے ، یہ تمام گلوکاروں کا، آرٹسٹوں کا، شعرا کا، یہ میری پوری انڈسٹری کا مسئلہ ہے جو میں بتارہا اور سچ بتا رہا ہوں، اگر آج آپ کو بہترین میوزیشن درکار ہوں تو پورے پاکستان میں نہیں ملیں گے۔ یہاں میں ایک بندے سے 8 ٹریک بجوا رہا ہوں ، 8 لوگوں کا کام ایک سے لے رہا ہوں، میں نے ایسے کئی تجربات کئے ہیں، کام تو نکل جاتا ہے لیکن گانوں کا ستیا ناس ہوتا ہے…
٭… لیکن اچھے میوزیشنز تو اکیڈمیز سے نکلتے ہیں؟
ایم ارشد … مگر یہاں تو کوئی اکیڈمی نہیں ہے، میں نے تو وہ ساز بجائے ہیں جن کے نام تک لوگوں نے نہیں سنے ہوں گے لیکن ہندوستان میں ایسے ساز بجانے والے آج بھی موجود ہیں، کیونکہ وہاں اکیڈمیز ہیں،وہاں ایک کلاس میں 100 لڑکیاں ایک ساز بجا کر مہارت حاصل کرتی ہیں، پھر کئی میوزیشن نکلتے ہیں یہاں تو آج کے دور میں میوزک کا بیڑہ غرق ہورہا ہے ، اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو مستقبل میں مزید خرابی ہوگی۔
٭… نیشنل اکیڈمی پرفارمنگ آرٹس کراچی کو 12 سال ہوگئے، اسلام آباد میں پی ایچ سی اے ہے، لاہور میں الحمرا ہے، کیا یہ سب اس قابل نہیں ہوئے کہ اچھا میوزک بنا سکیں؟
ایم ارشد … بات یہ ہے کہ یہاں گورنمنٹ اداروں میں ایک ایک فرعون بٹھا رکھا ہے جو لوگوں کو آگے آنے نہیں دیتا۔ یہ میڈیا کا دور ہے یہی میڈیا بتائے گا کہ بھئی، اصل لوگ تو یہ ہیں جو فن منتقل کرسکتے ہیں۔ وہاں بیٹھے فرعون 3-3 لاکھ روپے ماہانہ لے رہے ہیں اور جو اصل بندے ہیں وہ بھوکے مررہے ہیں۔ اگر باصلاحیت لوگوں کے بجائے سفارشی لوگ ادارے چلائیں گے تو پھر کام تو خراب ہوگا۔
٭… یہ تو ریڈیو پاکستان سے چلے آرہے ہیں، جو بعد میں اداروں کی شکل میں تبدیل ہوئے، کیا پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے دور میں آپ کا اِن سے واسطہ پڑا ہے؟
ایم ارشد … نہیں! وہاں میرا براہ راست واسطہ نہیں پڑا، کیونکہ میرا تعلق تو زیادہ تر فلم انڈسٹری سے تھا ،حالانکہ پی ٹی وی میں بھی میں نے بہت کام کیا ہے، اس دور میں تو سب کچھ لائیو ہوتا تھا اور لائیو بیک گرائونڈ میوزک دیا جاتا تھا، پھر وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی گئیں اور آج کے دور میں تو سب کچھ ہی بدل گیا ہے۔
٭… ایک وقت ایسا بھی تھا جب فلم انڈسٹری میں گجر ایلمنٹ آیا اور تباہی شروع ہوگئی، اس دور میں عجیب سا میوزک تھا، لیکن آپ نے انڈسٹری میں حیران کن کام شروع کیا اور نرم میوزک دینا شروع کیا۔ یہ کیسے ہوا؟
ایم ارشد … ویسے تو میں گجروں کا مخالف بالکل نہیں ہوں گجروں نے تو فلم انڈسٹری پر احسان کیا ہے اگر وہ فلمیں نہ بناتے تو پاکستان فلم انڈسٹری میں کون فلم بناتا۔ میں تو کہوں گا کہ گجروں نے پاکستان فلم انڈسٹری کو بچایا ہے اور آج جتنی بھی فلمیں بن رہیں ہیں، یہ ان کی ہی مرہون منت ہیں۔
فلم انڈسٹری کو ان کا احسان مند ہونا چاہیے۔ انہوں نے ٹیکنیشنز کو مرنے نہیں دیا، اس انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے نہیں ہونے دیئے۔ رہی بات میوزک کی تو خراب گانے بنانے میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ جہاں تک بات ہے اس مار دھاڑ دوڑ میں نرم میوزک کو سامنے لانے کی تو میں سید نور صاحب کے اسٹوڈیوز میں تھا جہاں اے سی بھی دستیاب نہیں تھا، ہوا کھانے کےلیے میں اُن کے اسٹوڈیوز کے کارپٹ پر لیٹ گیا اور خدا سے دُعا کرنے لگا کہ آج مجھے کچھ اچھا سا عطا کردے۔
اچانک میرے ذہن میں ایک عجیب سا میوزک اُترنے لگا، میں اُٹھ کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا یہ کیا ہے؟ میں نے ہارمونیئم قریب کیا اور جیسے جیسے وہ میوزک ذہن پر اُترتا گیا ،میں بجاتا گیا، گانے کا مُکھڑا اُوپر سے بنتا ہے، لیکن میں نے نیچے سے اسٹارٹ کیا، میں نے فوراً رانا صاحب کو بلایا اور ذہن پر اُترنے والی دھن اُنہیں سنائی اور کہا کہ اس پر کچھ لکھیں۔ وہاں سے کوئی گزرنے لگا تو رانا صاحب نے اُس سے کہا ،جانوں بات سن، پھر میرے ذہن میں یہ لفظ کلک ہوگیا، میں نے کہا اب جانوں سن ذرا سے ہی شروع کریں اور کرتے کرتے یہ گیت مکمل ہوگیا ’’جانوں سن ذرا ، نظریں تو ملا‘‘۔
٭… جب فلم ’’بلندی‘‘ کا میوزک آیا توآپ نے اپنی مہارت سے لوگوں پر سکتہ طاری کردیا تھا؟
ایم ارشد … اِس فلم میں بھی خدا نے مجھے بہت عزت دی۔ میں سمجھتا ہوں مجھے جتنی بھی عزت ملی وہ والد ہی کی وجہ سے ملی، دراصل میرے والد کے ہر ہدایت کار کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ میں نے ہر ڈائریکٹر کے ساتھ 40-45 فلمیں کی ہیں۔
٭… آپ کے گانوں میں انڈین میوزک کی جھلک بھی آتی تھی، مثال کے طور پر ایک فلم تھی ’’ڈاکو رانی‘‘ اس میں دلیر مہدی کا پورا گانا کاپی پیسٹ ہوگیا، آپ اتنے باصلاحیت موسیقار ہیں پھر آپ کو اس کام کی کیا ضرورت تھی؟
ایم ارشد … اگر سچ کہوں تو اس معاملے میں کچھ کمرشل مجبوریاں تھیں، کچھ فرمائشیں کی گئی تھیں لہٰذا مجبوراً ایسا کرنا پڑا۔
٭… آج کا استاد اپنا فن شاگردوں میں منتقل کیوں نہیں کرتا اور حکومت اس فن کو فروغ دینے کےلیے وعدے کرنے کے باوجود بھی اکیڈمیز کیوں نہیں بناتی؟
ایم ارشد … اکیڈمیز کیوں نہیں بنتیں اس کا جواب تو حکمراں ہی دے سکتے ہیں، اس کےلیے میڈیا کو آواز اُٹھانی چاہئے کیونکہ آپ میڈیا والوں کے گلوں سے نکلنے والی آواز میں بہت زیادہ طاقت ہے۔
٭… کیا 7 برس گزرنے کے بعد ہم میوزک کے اعتبار سے میچور ہوئے ہیں؟
ایم ارشد … ہم میچور ہوئے ہیں جب ہی تو ایک ساتھ بیٹھ کر آج گفتگو کررہے ہیں
٭… نئی نسل کو آپ کیا پیغام دیں گے کہ وہ کس طرح اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کریں؟
ایم ارشد … میں نے پاکستان میں نئی نسل کےلیے ایک پروگرام ’’پاکستان سپر آئیڈل‘‘ کے نام سے شروع کیا۔ اس حوالے سے میں نے اسلام آباد، گجرانوالہ، پنڈی اور فیصل آباد جاکر بچوں کو سنا۔ میں صدقے جائوں اپنے پاکستان پر ، آپ کو بتا نہیں سکتا یہاں کتنا ٹیلنٹ موجود ہے، مجھے بہت خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ پاکستان اتنا سُریلا ملک ہے۔
آپ یقین کریں بہت چھوٹی سی نابینا بچی نے میرے پاس آکر اتنا سریلا گیت گایا کہ میں رونے پر مجبور ہوگیا۔ ایک بچہ ویلڈر تھا، پوچھا تم گھر کا خرچ کیسے چلاتے ہو؟ وہ کہنے لگا، میری تین بہنیں اور والدین ہیں، میں روز 500 روپے کماتا ہوں اور اِن ہی پیسوں سے رات کو گھر والوں کےلیے روٹی لےکر جاتا ہوں۔ میں نے اپنے پروڈیوسر سے کہا کہ آپ نے اسٹوڈیوز آنے کےلیے اس بچے سے جو فیس لی ہے وہ اِسے واپس کردیں اور اب یہ جب بھی آئے گا آپ اِسے مفت آنے دینا کوئی پیسہ نہیں لینا۔ بات یہ ہے کہ اگر ہم اپنے بچوں کو خود آگے آنے کا موقع نہیں دیں گے تو یہ ختم ہوجائیں گے۔
اب میں اِن بچوں کو آگے لےکر آئوں گا اور اور اُنہیں تراش کر دُنیا کے سامنے لائوں گا۔ یہاں تو ویسے بھی کسی چینل پر میوزک کا پروگرام نہیں ہوتا، ہرجگہ نیوز ہی چل رہی ہے، کسی چینل پر انٹرٹینمنٹ کا پروگرام نہیں تو میں اِن بچوں کو بہترین گلوکار بنا کر سامنے لائوں گا۔
٭… مستقبل کے کیا ارادے ہیں؟
ایم ارشد … جمشید جان کی ایک فلم کررہا ہوں، کیونکہ اُن کے والد میرے استاد بھی ہیں۔ میں نے زندگی کا پہلا بیک گرائونڈ میوزک بھی کراچی ہی میں کیا تھا۔ یہی استاد تھے، جنہوں نے مجھے اپنی فلم کا پہلا بیک گرائونڈ میوزک کرنے کےلیے حوصلہ دیا تھا، وہ پہلا قدم تھا اور پھر کرتے کرتے 500 فلموں کا میوزک دے چکا ہوں۔