• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کراچی فلم سوسائٹی کے تحت، تقریب کا آنکھوں دیکھا احوال

کراچی فلم سوسائٹی کے تحت، تقریب کا آنکھوں دیکھا احوال

اختر علی اختر،کراچی

پاکستان فلم انڈسٹری آہستہ آہستہ اپنے سنہری دور میں داخل ہو رہی ہے۔ باوجود اس کےفلمیں ناکام ہو رہی ہیں، کچھ زبردست بزنس کر رہی ہیں، لیکن کام یابی کا یہ سفر اب شروع ہو چکا ہے۔ فن کار انڈسٹری کو چار چاند لگانے کے لیے میدان عمل میں آ گئے ہیں۔

 اس سلسلے میں پچھلے برس چند پڑھے لکھے اور ذہین شخصیات پر مبنی ایک گروپ نے کراچی فلم سوسائٹی بنائی۔ ملک بھر میں پذیرائی کے ساتھ ساتھ تنقید کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ 

ریما، زیبا بختیار، ثمینہ پیرزادہ، آصف رضا میر، حسینہ معین، ثروت گیلانی،فضا علی مرزا، حریم فاروق، ثانیہ سعید اور صبیحہ سومار محفل میں چھائی رہیں

 لاہور کے فلم سازوں اور ڈائریکٹرز نے کراچی فلم سوسائٹی کے قیام پر کئی سوال اٹھائے تھے۔ اس بارے میں ’’کے ایف ایس‘‘ کے ممبران کا کہنا ہے کہ ہم پورے ملک کے فلم انڈسٹری کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنا کام تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔

 29مارچ سے پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول شروع ہو گا۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئےگزشتہ ہفتے عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر کراچی فلم سوسائٹی کے پلیٹ فارم تلے ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا، جسے The Celebration of Women in Filmکا نام دیا گیا۔

اس موقع پر پورے ملک سے ایسی خواتین فلم ساز، ڈائریکٹرز اور فن کارائوں کو مدعو کیا گیا تھا، جنہوں نے فلم انڈسٹری کی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہو۔ کراچی کے پانچ ستاروں والے ہوٹل کو دُلہن کی طرح سجا دیا گیا۔

 عالی شان ریڈ کارپٹ کا اہتمام کیا گیا، جس پر شوبزنس کے ستارے جگمگا رہے تھے۔ اپنے دلی جذبات کا کھل کر اظہار کر رہے تھے۔ ایک جانب سیکڑوں فلموں میں کام کرنے والی نامور اداکارہ ریما خان جلوہ افروز تھیں، تو دوسری جانب شہرت یافتہ فن کاروں کی کہکشاں سجی ہوئی تھی۔ نامور اداکارہ ثمینہ پیرزادہ، زیبا بختیار، آصف رضا میر، روبینہ اشرف، بشریٰ انصاری، عمران عباس، حسینہ معین، عدنان صدیقی، دانش نواز، ثانیہ سعید، صنم جنگ اور انجلین ملک فلم انڈسٹری کے بارے میں گفتگو کر رہی تھیں۔

 اس موقع پر نامور فلم ساز ستیش آنند، سعدیہ جبار، وجاہت رئوف، مہرین جبار، جاوید جبار، مہتاب اکبر راشدی، رافع راشدی، مصباح خالد اور حسن ضیاء بھی سرگرم دکھائی دے رہے تھے۔ ٹیلی ویژن انڈسٹری کی نامور اداکارہ مرینہ خان، احسن رحیم، کاظم پاشا، سیف حسن، اختیار بیگ، اشتیاق بیگ، حمید ہارون، فضا علی مرزا، حریم فاروق، مومنہ درید، صبیحہ سومار، ثروت گیلانی، لیلیٰ زبیری اور دیگر نامور فن کاروں کی موجودگی نے تقریب میں چار چاند لگا دیے تھے۔ 

وزیر مملکت مریم اورنگزیب اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین کا نام خصوصی طور پر دعوت نامے میں دیا گیا تھا،مگر ان دونوں شخصیات نے شرکت نہیں کی۔’’خواتین کا فلم سازی میں کردار‘‘ کے موضوع پر سجائی گئی تقریب کا آغاز صدر کراچی فلم سوسائٹی سلطانہ صدیقی نے کیا۔ 

انہوں نے اس موقع پر فلم انڈسٹری کے70برس پر تفصیلی روشنی ڈالی اور خواتین کی فلم انڈسٹری کے حوالے سے کارکردگی بیان کی۔ انہوں نے شکوہ بھی کیا کہ میڈیا ہمارے ایونٹس کو مناسب کوریج نہیں دے رہا ہے، یہ میرا ذاتی پروجیکٹ نہیں ہے، ایک غیر سرکاری ادارہ ہے، ہم فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیےکچھ کام کرنا چاہتے ہیں۔

 سلطانہ صدیقی کے بعد معروف صحافی حمید ہارون نے تفصیل سے انگریزی میں گفتگو کی۔ اس موقع پر پنڈال میں طویل خاموشی چھائی رہی۔ بعدازاں ٹیلی ویژن کی نامور اداکارہ ثانیہ سعید نے تقریب کے پہلے پینل کو اسٹیج پر مدعو کیا۔

کراچی فلم سوسائٹی کے تحت، تقریب کا آنکھوں دیکھا احوال
فضاء علی مرزا، ثروت گیلانی،حریم فاروق

 نامور اداکارہ اور ڈائریکٹر ریما خان، حسینہ معین، آصف رضا میر، نبیلا اور ثمینہ پیرزادہ نے فلم انڈسٹری کے مسائل اور خواتین کی کارکردگی پر بات کی۔ ثمینہ پیرزادہ کا کہنا تھا کہ میں نے پہلی فلم ’’انتہا‘‘ بنائی تھی۔ اس کے بعد تین فلمیں اور بھی بنائیں۔

 فلم ’’انتہا‘‘ بنانا میرے لیے بہت مشکل کام تھا۔ خواتین پر ظلم و ستم کو موٗضوع بنا کر فلم بنائی تو اس وقت میڈیا نے مجھ پر شدید تنقید کی۔ اس کے باوجود بھی فلم نے کام یابی حاصل کی۔ ہم معاشرے کی سچائی کا عکس نہیں دکھائیں گے تو فلم کام یاب نہیں ہو گی۔ آج کل تو جسے دیکھو پروڈیوسر بن گیا ہے۔

 میرے خیال میں جب تک پروڈیوسر اور ڈائریکٹر دنیابھر کے ادب کا مطالعہ نہیں کرے گا، کوئی اچھی اور معیاری فلم نہیں بنا سکتا۔ خوشی کی بات ہے کہ اب فلمیں بننا شروع ہو گئی ہیں۔ اب ان کا معیار بھی بہتر ہو جائے گا۔

کئی سپرہٹ ڈرامے لکھنے والی نامور شخصیت حسینہ معین نے اپنی گفتگو میں انکشاف کیا کہ جب میں نے راج کپور کی فلم ’’حنا‘‘ لکھی تو مجھے بھارت میں شہریت کی پیش کش کی گئی، کیوں کہ وہاں اس وقت فلم لکھنے والوں کا فقدان تھا۔ حسینہ معین کا مزید کہنا تھا کہ راج کپور کئی برس سے میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے، ایک فلم لکھ کر دو۔ ان کے کہنے پر فلم حنا لکھی، مجھے آج تک فلم ’’حنا‘‘ کا معاوضہ نہیں ملا، اس کی وجہ شاید بھارت کے حالات تھے۔ بابری مسجد کے حوالے سے جھگڑے شروع ہو گئے تھے۔

 میں نے پروڈیوسر سے درخواست کی کہ فلم میں سے میرا نام نکال دیا جائے۔ ’’حنا‘‘ کے لیے راج کپور کو ایک پاکستانی اداکارہ کی تلاش تھی۔ انہوں نے مجھے کہا تو میں نے زیبا بختیار سے بات کی۔ ان دنوں زیبا بختیار میرے ایک ٹی وی ڈرامے میں کام کر رہی تھیں۔ میں نے راج کپور کے حوالے سے زیبا کو بتایا تو وہ بھارتی فلم میں کام کرنے کے لیے راضی ہو گئی۔ اس طرح میرے کہنے پر زیبا کو فلم ’’حنا‘‘ میں کام ملا۔ میں آج بھی اچھی فلمیں خوشی سے دیکھتی ہوں۔

 گزشتہ دنوں PNCAنے مجھے اور سیکڑوں فن کاروں کو فلم پالیسی کی تقریب میں مدعو کیا تھا، وہاں بہت کام کی باتیں ہوئیں، اگر ان پر عمل ہو جائے تو بہت اچھا ہو جائے گا۔‘‘ نامور اداکار آصف رضا میر نے کہا کہ ہم نے ادارے بنانے کے بجائے جو ادارے موجود تھے، ان کو بھی تباہ کر دیا۔ میرے والد نے فلم انڈسٹری کے لیے بہت کام کیا اور میں نے کئی فلموں میں اداکاری کی۔ 

آج کی تقریب میں شریک ہو کر اچھا لگ رہا ہے۔ فلم کے موضوع پر جتنی گفتگو ہو گی، انڈسٹری کو اتنا ہی فائدہ پہنچے گا۔‘‘ اداکارہ ریما خان خصوصی طور پر امریکا سے تقریب میں شرکت کے لیے آئی تھیں۔ ریما خان نے سیرحاصل گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کا موضوع بہت اہم ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں فلم سازی کا عمل1913ء میں شروع ہوا، پہلے ہدایت کار دادا صاحب پالکے تھے، ان کے نام سے بھارت میں ایوارڈز بھی دیے جاتے ہیں۔

 برصغیر کی پہلی خاتون ہدایت کارہ فاطمہ بیگم تھیں، انہوں نے تقریباً سات فلمیں بنائیں۔ مسلمان خواتین کا فلم سازی کے عمل میں نمایاں کردار رہا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد ملکہ ترنم نورجہاں نے پہلی فلم ڈائریکٹ کی، جس کا نام ’’چن وے‘‘ تھا۔ اس فلم میں فیض احمد فیض کا لکھا ہوا گانا ’’تیرے مکھڑے تے کالا کالا تل وے‘‘ بہت مقبول ہوا تھا۔ 

کراچی فلم سوسائٹی کے تحت، تقریب کا آنکھوں دیکھا احوال
 معروف اداکارآصف رضا میر، حسینہ معین،ثانیہ سعید،ثمینہ پیرزادہ، نبیلہ، اور ریما تقریب میں اظہار خیال کررہی ہیں 

اس زمانے میں میڈم ملکہ ترنم نورجہاں نے خاتون ڈائریکٹر کی حیثیت سے فلم بنائی، بلکہ فلم کے دیگر شعبوں میں بھی نمایاں کارکردگی دکھائی۔ گلوکاری اور اداکاری کے شعبے میں عمدہ کام کیا۔ اس دور میں خواتین کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی، خواتین کا شوبزنس میں کام کرنا بہت مشکل تھا۔ اس زمانے میں ایک خاتون کا شوبزنس میں آنا اور کام یابی حاصل کر کے رول ماڈل بننا غیرمعمولی بات تھی۔

 میڈم کے بعد زینت بیگم، میڈم شمیم آرا، سنگیتا بیگم، ثمینہ پیرزادہ، زیبا بختیار، نور بخاری اور خود میں نے فلمیں ڈائریکٹ کیں۔ میں فلم انڈسٹری کا حصہ اس وقت بنی تھی، جب سینئرز کم رہ گئے تھے اور جونیئرز نام پیدا کر رہے تھے، میں نے دونوں کے ساتھ کام کیا۔

محمدعلی، زیبا بیگم، ندیم، شمیم آرا، سنگیتا وغیرہ کے ساتھ کام کر کے بہت کچھ بولنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ ایک بات بہت ضروری ہے، میں پنجابی فلموں کو غلط نہیں سمجھتی، کچھ لوگ ان فلموں کا مذاق اڑاٹے ہیں، ہر دور میں مختلف گریڈ کی فلمیں بنتی ہیں، ایک زمانے میں پنجابی فلموں کی زبردست پسندیدگی کے بعد ہر پروڈیوسر، ڈائریکٹر پنجابی فلم بنانے لگا، ندیم اور شبنم سے بھی پنجابی فلموں میں کام کروایا گیا اور دوسری جانب سلطان راہی سے اردو فلموں میں اداکاری کروائی گئی، تو اس عمل سے فلم انڈسٹری کو بہت نقصان پہنچا۔

 اس دور میں ایسے لوگ بھی سامنے آئے جو ادب و آداب سے دور تھے۔ انڈسٹری کے پُرانے فن کاروں نے جب بگڑی ہوئی صورت حال دیکھی تو انہوں نے فلم انڈسٹری سے کنارہ کشی اختیار کرنا شروع کر دی اور کچھ ٹیلی ویژن کی جانب چلے گئے۔ اس طرح لاہور فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہونے لگی۔ 

کراچی فلم سوسائٹی کے تحت، تقریب کا آنکھوں دیکھا احوال
زیبا بختیار،صبیحہ سومار، مومنہ درید

2000ء سے2010ء تک غیرمعیاری فلمیں بننا شروع ہوئیں تو اس کا حشر سب نے دیکھا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ فلم انڈسٹری بالکل ختم ہو گئی۔ میں نے ایک خاتون کی حیثیت سے ایسے بُرے حالات میں فلم بنانے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ مجھ پر ایک گلیمر آرٹسٹ کی چھاپ تھی، میں ڈائریکشن کے شعبے میں خود کو منوانا چاہتی تھی۔ میں تو کہتی ہوں کہ انسان کو غلطیاں کرنی چاہئیں، غلطیوں سے انسان سیکھتا ہے۔ فلم بنانا میرے لیے ایک چیلنج تھا۔ 

میں نے اپنی مدد آپ کے تحت فلم بنائی۔ فلم انڈسٹری سے جو کمایا تھا، وہ سب فلم پر لگا دیا۔ بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ مجھ میں کام کرنے کا شوق اور جنون شروع ہی سے تھا، اسی جذبے کے ساتھ فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنائی۔ اب ایک مرتبہ پھر فلم بنانے کا ارادہ کیا ہے، کیوں کہ اب فلم انڈسٹری کا اچھا دور شروع ہو گیا ہے۔‘‘

تقریب کے دوسرے حصے کی نظامت بھی ثانیہ سعید نے کی۔ انہوں نے بعض مواقع پر طویل گفتگو کر کے حاضرین کو بور بھی کیا۔ ان کو زیادہ موقع پینل کے اراکین کو دینا چاہیے تھا۔ دوسرے سیشن میں ابھرتی ہوئی کام یاب فلم ساز فضا علی مرزا، زیبا بختیار، صبیحہ سومار، ثروت گیلانی، مومنہ درید اور حریم فاروق کو شامل کیا گیا۔ 

نئی نسل کی نمائندہ فلم ساز اور اداکارائوں نے شان دار گفتگو کی۔ ’’پرچی‘‘ فلم کی پروڈیوسر اور ہیروئن حریم فاروق کا کہنا تھا کہ ہم ساری دنیا میں فلم کے ذریعے پاکستان کا سافٹ امیج لے کر جاتے ہیں۔ میں نے دو تین فلمیں کی ہیں۔

 ہماری خواتین میں بہت ٹیلنٹ ہے، وہ اچھی فلمیں بنانے کی بھرپور صلاحیتیں رکھتی ہیں۔ پاکستان کو اب دنیابھر میں فلموں کی مارکیٹ دستیاب ہو گئی ہے، اب وقت بدل گیا ہے، آنے والے دنوں میں مزید اچھی اور معیاری فلمیں پروڈیوس کریں گے۔ ’’نامعلوم افراد، ایکٹر ان لاء اور نامعلوم افراد2کی پروڈیوسر فضا علی مرزا نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہماری فلموں میں ایسی بات تھی جو فلم بینوں کے دلوں کو بھا گئی۔ 

جب تک مسائل پر فلمیں نہیں بنائیں گی، وہ مقبول ہونے میں وقت لگاتی ہیں۔ ہماری تینوں فلموں کو دنیابھر میں پسند کیا گیا۔ اب ہم نئی فلم بنانے جا رہے ہیں، جس کا نام ’’لوڈ ویڈنگ‘‘ ہے۔ بہ طور خاتون پروڈیوسر میں نے ملک کا نام بین الاقوامی سطح پر روشن کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی فلموں میں خواتین کے کردار کو جان دار دکھایا ہے۔

 اداکارہ ثروت گیلانی نے کہا کہ میں نے ڈراموں کے بعد چند فلموں میں کام کیا تو مجھے بہت اچھا لگا۔ زیبا بختیار کا کہنا تھا کہ اب میری توجہ میرے بیٹے اذان کو آگے لانے پر زیادہ ہے۔ میں نے فلمیں بنائیں، کچھ نے اچھا بزنس کیا تو کچھ باکس آفس پر رنگ نہیں جما سکیں۔ اس کے باوجود بھی ہمت نہیں ہاری، دو تین اچھی فلمیں مزید پروڈیوس کرنا چاہوں گی۔‘‘کراچی فلم سوسائٹی کی تقریب ایک بھرپور تاثر کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ بعد ازاں شرکاء نے اپنے پسندیدہ فن کاروں کے ساتھ سیلفیاں بھی بنوائیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین