سرفرازفرید نیہاش، کراچی
’’چمپا اور چنبیلی یہ کلیاں نئی نویلی‘‘ اپنے دور کا یہ سدابہار گیت آج بھی جب سماعتوں سے ٹکراتا ہے، تو ماضی کی اداکارہ آسیہ کا خوب صورت چہرہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ یہ گیت فلم دل اور دنیا کا تھا جو 1971ء میں کراچی کے نشاط سینما میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس پلاٹینم جوبلی فلم کے پروڈیوسر اور ہدایت کار رنگیلا تھے۔ اس میں آسیہ نے ایک غریب پھول بیچنے والی اندھی لڑکی کا کردار بڑی خوبی سے ادا کیا تھا۔
اداکارہ آسیہ جن کا اصل نام فردوس تھا ، وہ13نومبر1952ء کو پٹیالہ کے فن کار گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ 1953ء میں ان کا گھرانہ ہجرت کر کے کراچی آ گیا۔ فردوس جب آٹھ دس سال کی تھیں تو انہیں موسیقی کی تعلیم دی گئی۔
انہیں فن کارہ بنانے میں ان کے ماموں اکرم کا بڑا عمل دخل رہا۔ 1970ء میں فردوس نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے بہ طور گلوکارہ کیا۔ ابتدائی تعلیم نیوٹائون اسکول کراچی سے حاصل کی۔ کراچی میں ان دنوں اسٹیج کو بے حد فروغ حاصل تھا۔ ریڈیو کے ساتھ ساتھ فردوس نے کراچی اسٹیج پر گلوکاری اور اداکاری کا آغاز کر دیا۔
ایک اسٹیج ڈرامے میں ان کی اداکاری اور مکالموں کی ادائیگی سے معروف فوٹوگرافر نبی احمد بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے فردوس کو فلموں میں اداکاری کے لیے کہا۔ ہدایت کار رضا میر ان دنوں فلم ’’پرائی آگ‘‘ کے لیے کسی نئی لڑکی کی تلاش میں تھے۔ نبی احمد نے انہیں فردوس کے بارے میں بتایا۔
ان کے ماموں اکرم نے ہفت روزہ نگار کے مدیر الیاس رشیدی سے کہہ کر فردوس کو فلموں میں متعارف کروایا۔ ریاض شاہد اپنی تاریخی کاسٹیوم فلم ’’غرناطہ‘‘ کے لیے اداکارہ عالیہ کو کاسٹ کرنا چاہتے تھے، لیکن وہ پنجابی فلموں میں ان دنوں بے حد مصروف تھیں۔ ریاض شاہد نے الیاس رشیدی سے اپنی فلم ’’غرناطہ‘‘ کے لیے کسی نئی لڑکی کو متعارف کروانے کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فردوس کا نام انہیں بتایا۔ ریاض شاہد نے انہیں لاہور بلایا اور اپنی فلم میں آسیہ کا نام دے کر شامل کر لیا۔
1970ء میں نمائش ہونے والی فلم ’’غرناطہ‘‘ ان کی پہلی فلم تھی۔ آسیہ ان خوش نصیب اداکارائوں میں شمار ہوتی ہیں، جنہیں ریاض شاہد، شباب کیرانوی، رضا میر، حسن طارق، ایس سلیمان، اسلم ڈار، مسعود پرویز جیسے بڑے ہدایت کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ غرناطہ کے بعد وہ شباب کیرانوی کی گولڈن جوبلی فلم ’’انسان اور آدمی‘‘ میں آئیں۔ اس فلم میں محمدعلی اور زیبا نے اپنی زندگی کے ناقابل فراموش کردار ادا کیے تھے۔
معروف ٹی وی اداکار طلعت حسین نے اس فلم میں فاروق جلال کے نام سے اداکاری کی تھی۔ اس فلم میں زیبا نے ان کی ماں کا رول کیا تھا۔ آسیہ نے اس فلم میں طلعت حسین کی منگیتر کا کردار کیا تھا۔ ابتدائی چند فلموں میں یادیں، پرائی آگ، چراغ کہاں روشنی کہاں، میں وہ نئی ہونے کے باوجود فن اداکاری میں ایک منجھی ہوئی اداکارہ کے طور پر نظر آئیں۔
بہ طور ہیروئن پہلی فلم ’’دل اور دنیا‘‘ تھی جس میں انہوں نے ڈبل رول کیا تھا۔ 1972ء میں اسد بخاری کی ذاتی فلم ’’میں اکیلا‘‘ میں وہ اداکار شاہد کے مقابل ہیروئن آئیں۔ اسی سال ریلیز ہونے والی ہدایت کار ظفر شباب کی نغماتی فلم ’’میں بھی تو انسان ہوں‘‘ میں وہ ایک غریب خانہ بدوش لڑکی کے رول میں آئیں، جسے فلم کا ہیرو رنگیلا ایک بہت بڑی فلم اسٹار بنانے میں مدد کرتا ہے۔
بڑی ہیروئن بننے کے بعد اپنے محبوب اور محسن رنگیلا کو بھول کر فلموں میں کام کرنے والے ہیرو شاہد سے محبت کی پینگیں بڑھاتی ہے، پھر ایک روز ایک حادثے میں آسیہ لنگڑی ہو جاتی ہے۔ اس کا یہ روپ دیکھ کر شاہد اس سے رخ بدل لیتا ہے اور اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ آسیہ نے اپنے اس کردار میں بے حد عمدہ اداکاری کی تھی۔ اس فلم میں آسیہ اور شاہد پر فلمایا ہوا یہ دوگانا ’’جب بھی سُنوں گی تیری بانسریا‘‘ اور ایک سولو گیت ’’ناچوں گی سانوریا گائوں گی سانوریا‘‘ اس فلم کے مقبول ترین گیت تھے۔
اس سال رفیق علی خان (راکھن) کی ڈائریکشن میں بننے والی فلم ’’پازیب‘‘ میں اداکار ندیم کے مقابل ہیروئن آئیں، جب کہ اس سال ریلیز ہونے والی ہدایت کار حسن طارق کی ملبوساتی کلچرل نغماتی فلم ’’امرائو جان ادا‘‘ میں انہوں نے فلم کی ہیروئن رانی کی رازداں سہیلی کا کردار کیا، جو طوائف زادی کا تھا۔ اس فلم میں رانی، آسیہ اور زمرد پر ایک کلاسیکل رقص ’’مانے نہ بیری بلما او مورا من تڑپائے‘‘ میں تینوں اداکارائیں اپنی عمدہ پرفارمنس دیتی ہوئی نظر آئیں۔
1973ء میں اعجاز درانی کی پروڈکشن میں بننے والی پنجابی فلم ’’پنوں دی سسی‘‘ میں وہ پہلی بار ویمپ کے کردار میں آئیں۔ ’’دل اور دنیا‘‘ کے بعد ہر فن مولا فن کار رنگیلا نے انہیں اپنی فلم ’’دو رنگیلے‘‘ میں ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا۔ یہ فلم بھی بے حد کام یاب رہی۔ پازیب کے بعد رفیق علی خان نے اپنی خوب صورت رومانی نغماتی گھریلو فلم ’’سہرے کے پھول‘‘ میں ندیم کے مقابل انہیں ہیروئن کاسٹ کیا۔ اس فلم میں نشو، قوی، لہری، تمنا، نرالا اور عشرت چوہدری نے بھی اہم رول ادا کیے۔
آسیہ پر فلمایا ہوا گیت ’’آخری بار مل رہے ہیں آج کے بعد ملاقات نہ ہوگی شاید‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اس سال نمائش ہونے والی ہدایت کار ایس ٹی زیدی اور فلم ساز قوی خان کی کام یاب فلم ’’بے ایمان‘‘ میں وہ ڈبل رول میں عمدہ کردار نگاری کرتی ہوئی نظر آئیں۔ یہ دو بہنوں کی کہانی تھی، جن میں ایک کو تقدیر طوائف بنا دیتی ہے، رنگیلا اور قوی اس فلم کے ہیرو تھے۔
اس فلم میں آسیہ پر جو مقبول گانے فلمائے گئے۔ ان میں ’’جب پیار کسی سے ہوتا ہے تو ہوتا ہے یہ انجام، حسین تو سیکڑوں دیکھے ہوں گے، او جینے والے لے لے جان، وغیرہ شامل تھے۔ اس سال ریلیز ہونے والی دیگر فلموں میں مستانہ، ماں تے قانون، کہندے نے نیناں، خون دا دریا، شیرو، چار خون دے پیاسے بھی شامل تھیں۔
1974ء میں آسیہ نے اپنی ایک ذاتی فلم ’’پیاری پیار‘‘ بنائی، جس میں وحید مراد کو ہیرو لیا۔ اس کے ہدایت کار رفیق علی خان تھے۔اس فلم انہوں نے اپنی چھوٹی بہن شازیہ کو بھی متعارف کروایا۔ یہ نغماتی فلم کوئی رنگ نہ جما سکی۔ اس سال ریلیز ہونے والی ہدایت کار خلیفہ سعید احمد کی کام یاب پنجابی فلم ’’غلام‘‘ میں آسیہ نے عمدہ اور دل کش رقص پیش کر کے فلم بینوں سے خوب داد وصول کی۔
ان پر فلمائے گئے گیت ’’وقت گزرتا جائے، ونگاں میریاں جئے توں چھیڑیا‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ اس فلم میں اقبال حسن ان کے ہیرو تھے۔ عالیہ اور نئے اداکار اکبر نے فلم میں مرکزی کردار پلے کئے تھے۔ ہدایت کار افتخار خان کی پنجابی فلم ’’جیرا بلیڈ‘‘ میں وہ منور ظریف کی بہن کے کردار میں کام یاب رہیں۔
ہدایت کار ایم اے رشید کی مشہور نغماتی فلم ’’تم سلامت رہو‘‘ میں وہ محمدعلی اور وحید مراد جیسے سپراسٹار کے مقابل ہیروئن کے ڈبل کرداروں میں اپنی نہ بھلا دینے والی اداکاری کے نقش قائم کرنے میں کام یاب رہیں۔ شہری اور پہاڑی لڑکی کے دو مختلف کرداروں میں وہ عمدہ اور فطری اداکاری کے جوہر دکھاتی نظر آئیں۔
ہدایت کار علی سفیان آفاقی کی مزاحیہ فلم ’’نمک حرام‘‘ میں وہ منور ظریف کی ہیروئن بنیں۔ یہ فلم منور ظریف کی ایک عمدہ فلم تھی۔ ہدایت کار اقبال کشمیری کی اردو فلم ’’نیلام‘‘ میں آسیہ نے اپنے بہن بھائیوں سے بچھڑنے والی ایک مظلوم لڑکی کا کردار ادا کیا، جسے تقدیر طوائف بنا دیتی ہے۔ حیدر چوہدری کی بلاک بسٹر فلم ’’نوکر ووہٹی دا‘‘ میں ایک بار پھر منور ظریف کے ساتھ ہیروئن کے کردار میں نظر آئیں۔
اس فلم میں ممتاز نے بھی ایک اہم کردار پلے کیا تھا۔ اس سال نمائش ہونے والی ان کی دیگر فلموں میں ہاشو خان، دو تصویریں، یار مستانے، سکندرا، شیر تے دلیر، بھولا سجن، شہنشاہ، لاٹری، ڈاکو تے انسان، خبردار اور جھلی کے نام بھی شامل تھے۔ 1975ء میں ان کی ریلیز ہونے والی تمام فلمیں پنجابی زبان میں تھیں ، جن کی تعداد21تھی۔
ہدایت کار اکرم خان کی پنجابی فلم ’’خانزادہ‘‘، حیدر چوہدری کی جوگی، حسن عسکری کی وحشی جٹ، ہتھکڑی، اقبال کشمیری کی شریف بدمعاش کے نام قابل ذکر تھے۔ 1976ء میں آسیہ کی دو اردو اور 25پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ہدایت کار اسلم ڈار کی نغماتی رومانی فلم ’’وعدہ‘‘ میں وہ ایک نرس کے یادگار کردار میں نظر آئیں۔ وحید مراد نے اس فلم میں ان کے ہیرو کا کردار کیا۔ اداکارہ دیبا نے آسیہ کی بڑی بہن کا کردار ادا کیا۔
آسیہ کا کردار ایک ایسی لڑکی کا تھا، جس نے اپنی بڑی بہن کا گھر آباد کرنے کے لیے اپنے محبوب فلم کے ہیرو وحید مراد سے محبت کی قربانی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی بڑی بہن سے شادی کر لے۔
اپنے اس کردار میں وہ فن کی بلندیوں کو چُھوتی ہوئی نظر آئیں۔ اس سال ریلیز ہونے والی پنجابی فلموں میں طوفان، جگا گجر میں وحشی جٹ کے بعد ان کی جوڑی سلطان راہی کے ساتھ بے حد پسند کی گئی۔ ان فلموں کی کام یابی کے بعد یہ پنجابی فلموں کی اپنے دور کی ایک کام یاب اور مقبول جوڑی ثابت ہوئی۔
سلطان راہی کے علاوہ وہ پنجابی فلموں میں یوسف خان اور منور ظریف کے ساتھ بہت پسند کی گئیں۔ 1977ء میں ہدایت کار اسلم ڈار کی پہلی نظر اور بڑے میاں دیوانے، میں آسیہ نے سائیڈ ہیروئن کے کردار نہایت خوبی سے ادا کیے۔
پہلی نظر میں وہ چمپا نامی طوائف کے کردار میں آئیں، جو شہر کے نامی گرامی بدمعاش جانی سے محبت کرتی ہے۔ بابرہ شریف، ندیم اور محمدعلی اس فلم کے تین اہم کردار تھے۔ یہ ٹرائی اینگل لواسٹوری مووی تھی، جس میں محمدعلی نے جانی بدمعاش کا یادگار کردار کیا تھا۔
بھارت میں اس فلم کا چربہ فلم ’’جیت‘‘ کے نام سے فلمایا گیا، جس میں کرشمہ کپور، سلمان خان اور سنی دیول نے بالترتیب بابرہ شریف، ندیم اور محمدعلی کے کردار ادا کیے تھے، جب کہ آسیہ والا کردار بھارتی فلم ’’جیت‘‘ میں اداکارہ تبو نے کیا تھا۔ اس سال ریلیز ہونے والی ہدایت کار اقبال یوسف کی فلم ’’جینے کی راہ‘‘ میں اداکارہ آسیہ نے ینگ ٹو اولڈ کردار میں محمدعلی کی بیوی اور سدھیر کی بہن کا کردار کیا۔
اس فلم میں وہ غلام محی الدین کی ماں بنی تھیں۔ اداکارہ ممتاز نے اس فلم میں ڈبل رول کیا تھا۔ 1978ء میں ایس سلیمان کی کام یاب اردو فلم ’’پرنس‘‘ میں وہ کلب ڈانسر کے دل کش اور خوب صورت کردار میں عمدہ رقص کرتے ہوئے فلم بینوں سے داد وصول کرتی نظر آئیں۔
ندیم اور بابرہ شریف اس فلم کے مرکزی کرداروں میں تھے۔ ہدایت کار جان محمد کی مزاحیہ فلم بہت خوب میں وہ شاہد کے مقابل ہیروئن آئیں۔ اس فلم میں شاہد نے چار مختلف کردار کر کے فلم بینوں سے خوب داد پائی تھی۔ 1979ء میں ہدایت کار حسن عسکری کی فلم ’’آگ‘‘ میں آسیہ نے ایک عیسائی لڑکی کے کردار کو اپنی بے داغ اداکاری سے یادگار بنا ڈالا۔
بابرہ شریف، اشعر، سلطان راہی، شاہد اور محمدعلی اس فلم کے اہم اداکار تھے۔ اس سال ریلیز ہونے والی ہدایت کار یونس ملک کی شہرہ آفاق بلاک بسٹر پنجابی فلم ’’مولا جٹ‘‘ آسیہ اور سلطان راہی کے کیریئر کی ایک اہم فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم میں مولا جٹ کی منگیتر مکھو کا یادگار کردار آسیہ کے فنی کیریئر کی معراج ثابت ہوا، جس نے پنجابی فلموں میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اس سال ایورنیو پکچرز کی پنجابی فلم ’’سردار‘‘ جس کے ہدایت کار اقبال کشمیری تھے، آسیہ ایک اہم کردار کر رہی تھیں۔
اس فلم کی تکمیل کے دوران ان کے خلاف ایک سازش کی گئی۔ ریاض بٹ نامی ایک فوٹوگرافر نے آسیہ کی عزت پر حملہ کرتے ہوئے اسے بہت برا بھلا کہا۔ اپنے ساتھ ہونے والے اس ہتک آمیز سلوک سے وہ بہت دلبرداشتہ ہوئیں اور پھر اپنے عروج پر وہ فلمی دنیا کو چھوڑ کر ایک پاکستانی تاجر سے شادی کر کے امور خانہ داری نبھانے لگیں۔ ایک عرصے تک امریکا میں رہیں جہاں 9مارچ2013ء کو ان کے انتقال کی خبر آئی۔
آسیہ کا فلمی کیریئر1970ء سے1990ء تک کے عرصے پر محیط ہے۔ اپنے بیس برس کے فلمی کیریئر میں188فلموں میں اداکاری کی، جن میں28اردو اور160پنجابی فلمیں شامل ہیں۔ آج یہ مایہ ناز اداکارہ ہم میں موجود نہیں، مگر ان کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا۔