• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سیاسی منظر نامہ، آپ بھی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں

اسلام آباد( طاہر خلیل) سینٹ کے الیکشن کا طوفان گردو غبار جس تیزی سے اٹھا تھا اسی چونکا دینےوالی تیزی کے ساتھ بیٹھ بھی گیا۔ ممبران کے انتخاب میں جس ہائو ہو کی امید تھی وہ ہوئی اورچیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے انتخاب کی بابت یہ کہنا قطعاً مبالغہ آرائی نہیں ہوگا کہ پیر کو ہونے والے اس انتخاب میں بھی وہی تجسس اور انگلیاں کاٹ لینے کی وہی کیفیت تھی جو اس سے ایک روز پہلے دوبئی میں ہونےوالے پی ایس ایل کے میچ لاہور قلندر بمقابلہ کراچی کنگز میں تھی، جہاں پل پل میں صورتحال بدل رہی تھی ہر دو میچوں میں فرق صرف اتنا تھا کہ وہاں لاہور کا مقابلہ کراچی سے تھا اور یہاںلاہور کا مقابلہ کوئٹہ سے تھا۔ ہر دو صورتوں میں شکست لاہورہی کی ہوئی۔

اس لئے تخت لاہور کو رانا فواد سے لے کر میاں نواز شریف تک یہ سوچنا ہوگا کہ ان کے کھیل میں کمی کہاں رہ گئی ہے اور ان کے کھلاڑیوں کی ایسی کیا کمزوری ہے جو انہیں شکست سے دوچار کررہی ہے۔ ٹیم کی سٹرٹیجی بنانے کا کام کپتان کا ہوا کرتا ہے۔

لاہور قلندر کے معاملے میں تو رانا فواد بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں لیکن میاں صاحب کے بارے میں سیاسی ناقدین کی گزارشات سب کے سامنے ہیں ، آج بھلے میاں صاحب اور علی الا علان پاکستان میں دائیں بازو کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز خود کو انقلابی، اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان میں ترقی پسند تحریک کا آخری قلعہ ثابت کرنے کی کوشش کرے، اس حقیقت سے کوئی انحراف نہیں کرسکتا کہ جمہوری خیمے میں نادیدہ قوتوں کا اونٹ کھینچ کر لانے میں پاکستان مسلم لیگ نواز کا بھی حصہ ہے ۔

سینٹ الیکشن کے نتائج کھلے دل سے تسلیم کرنے کی بجائے بلوچستان سے لے کر خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں تک پہلے تو ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگایا گیا لیکن اس کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ پنجاب اسمبلی میں زبیر گل کیوں ہار گئے اور چوہدری سرور کیسے جیت گئے؟ جواب تو اس کابھی کوئی نہیں دیتا کہ صرف 12 نشستیں ہونے کے باوجودکے پی کے میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے دوارکان کیسے منتخب ہوگئے،اگر دونوں صورتوں میں دونوں جماعتوں کی بہتر حکمت عملی کام آئی ہے تو پھر یہی رعایت دیگر جماعتوں کوبھی دی جانی چاہیے۔

بلوچستان کے بارے میں بے دھڑک ہوکر آزاد منتخب ہونے والوں کو بک جانے کا طعنہ دیتے ہوئے سیاسی سنگ دلی کا مظاہرہ مت کیجیے اور تسلیم کریں کہ دوسال کے دوران ایک مطلق العنان وزیراعلیٰ کے نیچے پاکستان مسلم لیگ (ن) کےکارکن سیاسی رہنما اور اراکین اسمبلی خود کوبے توقیر محسوس کرنے لگے تھے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین