کوئٹہ شہر آج کل ٹریفک کےگمبھیر مسائل سے دوچار ہے، جہاں ٹریفک جام معمول بن گیا ہے، ٹریفک مسائل کی وجہ سے شہریوں کو شدید ذہنی کوفت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کوئٹہ شہر میں پانی، صحت اور تعلیم اور دیگر شہری مسائل تو اپنی جگہ، مگر اس وقت کوئٹہ کو سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا درپیش ہے، وقت گزرنے کے ساتھ شہر کی آبادی میں تو اضافہ ہواہی ہے مگر شہر کی سڑکیں وہیں کی وہیں ہیں۔
نواحی علاقوں سریاب، زرغون اور ایئرپورٹ روڈ کو تو کسی حد تک چوڑا کیا گیا مگر وسطی علاقوں کی توسیع کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا، مگر دوسری جانب وقت گزرنے کے ساتھ اور خاص طور پر گزشتہ ایک دہائی کے دوران گاڑیوں، رکشوں اور بسوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا جس سے صورتحال گمبھیرہوگئی۔
ٹریفک کے مسائل کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ شہر میں ترقی اور توسیع کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا، شہر کے کسی حصے میں گزشتہ چند سالوں کے دوران ایک کے علاوہ نہ تو کوئی نیا فلائی اوور تعمیر ہوا اور نہ ہی کوئی انڈرپاس بنا۔
رہی سہی کسر بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی میں تعمیر کیے گئے پارکنگ کےبغیر پلازوں اور اسپتالوں نے پوری کردی اور اس پر اگر سرکاری ملازمین، ڈاکٹرز، وکلاء یا سول سوسائٹی کا کوئی طبقہ کسی مسئلے پر یا مطالبات کے لیے احتجاج کرے، دھرنا دے یا ریلی نکال لے تو شہر میں ٹریفک جام کی وجہ سے شہریوں کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے، یہ مناظر بھی اہل کوئٹہ کچھ عرصے کے بعد دیکھتے ہی رہتے ہیں۔
محکمہ ایکسائیز وٹیکسیشن کے اعداد وشمار کے مطابق شہر میں چلنےوالی اس وقت مختلف اقسام کی گاڑیوں اور رکشوں کی تعداد تقریبا 3لاکھ تک جا پہنچی ہے، ان میں رکشوں کی ہی تعداد 50ہزار سے زائد بنتی ہے، جن میں لگ بھگ 15سے 20ہزار غیر قانونی طور پر چل رہے ہیں۔
اس کے علاوہ محکمے سے رجسٹرڈ موٹر سائیکلوں کی تعداد بھی تقریباً 4لاکھ ہے، گاڑیوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے ہی سبب آپ شہر میں کسی سڑک یا گلی میں نکل جائیں کچھ دیر میں وہاں رش ہو جائے گا،اس میں ایک وجہ پارکنگ کانظام نہ ہونا اور ڈرائیونگ کےحوالےسےمناسب تربیت اور آگہی نہ ہونا بھی ہے۔
دوسری جانب بڑھتے ٹریفک مسائل سے نمٹنے کے لیے ٹریفک پولیس اپنے طور پر وسائل میں رہتے ہوئے فرائض تو سرانجام دے رہی ہے، کبھی کسی سڑک کو ون وے کر کے یا کہیں اسپائکس یا رکاوٹ لگا کر ٹریفک کو رواں رکھنے یا منظم رکھنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، مگر محدود وسائل اور کم فورس کے علاوہ ٹریفک انجینئرنگ بیورو کے نہ ہونے کے باعث مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
ٹریفک انجینئرنگ بیورو کے قیام کے حوالے سے منصوبے کی تجویز گزشتہ دور حکومت میں دی گئی تھی، اس کا پی سی ون بھی تیار کیا گیا مگر اب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، اس سے بھی شہری مسائل اور خاص طور پر ٹریفک کے بڑھتے مسائل کے حل کے حوالے سے ترجیح کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے ایس پی ٹریفک کوئٹہ جاوید احمد کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو ،تین دہائیوں کے دوران شہر کی آبادی تو بڑھی مگر ٹریفک پولیس کی نفری میں اس اعتبار سے اضافہ نہیں ہوا، اس وقت بھی پورے شہر کا ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی تعداد تقریباً چار سو ہے،اس کے علاوہ شہر کی سڑکیں بھی وہی ہیں۔
گزشتہ چند دہائیوں میں گاڑیوں کی تعداد میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے، تاہم ٹریفک کے مسائل کی اصل وجہ ٹریفک انجینئرنگ بیورو کا نہ ہونا ہے، اگر انجینئرنگ بیورو قائم ہوگا تو پھر شہر میں ٹریفک کو سسٹم کے تحت منظم طریقے سے کنٹرول کیا جا سکے گا، اس سے تعین ہوگا کہ یہ کس سڑک کو ون وے کرنا ہے، پارکنگ کا نظام کیسے ہوگا اور اس طرح ٹریفک کے دیگر معاملات کو بھی طے کیا جاسکے گا۔
ان کایہ بھی کہنا تھا کہ شہر کے سات مختلف مقامات پر تقریباً تین دہائی قبل ٹریفک سگنل نصب کیے گئے تھے، مگر دلچسپ بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس وقت کوئی بھی سگنل فعال نہیں ہے، سب ناکارہ ہو چکے ہیں۔
ٹریفک مسائل کے حوالے سے ٹریفک پولیس اہلکاروں سے جب بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مسائل بڑھتے ہی جا رہے ہیں، نفری نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ بھی وی آئی پی موومنٹ کے موقع پر مصروف ہوجاتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ شہری ٹریفک کے قوانین کو فالو نہیں کرتا، ان کی طرف سے تعاون بھی نہیں ہوتا، ہر کوئی خواہ وہ کار میں سوار ہے، یا کسی اور گاڑی میں یا موٹرسائیکل پر سب جلدی میں پہلے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔
یہ طے شدہ بات ہے کہ بڑھتی آبادی اورشہری مسائل کےپیش نظر ٹریفک نظام کے حوالے سے مؤثر منصوبہ بندی اور ہنگامی طور پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو وقت گزرنے کے ساتھ ٹریفک مسائل میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور شہریوں کی زندگی اجیرن بنتی رہے گی۔