• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی تحفظ پسندی ڈیجیٹل تجارتی جنگ شروع کر سکتی ہے

امریکی تحفظ پسندی ڈیجیٹل تجارتی جنگ شروع کر سکتی ہے

رانا فوروہار

امریکی تحفظات کے لئے قومی سلامتی ایک نئی ڈھال ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فرضی آڑ کے تحت اپنے اسٹیل اور ایلومینیم ٹیرف پر دستخط کئے۔تاہم تحفظ تجارت کے لئے دھاتوں کی جانب جھکاؤ زیادہ تشویشناک نیا شعبہ نہیں ہے۔فزیکل اشیا اور خدمات کی تجارت کئی سال سے ہموار رہی ہے، لیکن مک کینسی گلوبل انسٹیٹیوٹ کے مطابق گزشتہ ایک عشرہ میں تجارت اور معلومات کے ڈیجیٹل بہاؤ میں 45 گنا اضافہ ہوا ہے۔

تجارتی جنگ کا خدشہ فزیکل اشیا میں نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ہے، معاشی قوم پرستوں کو چین جیسے ممالک سے مسابقتی خطرے کو روکنے میں اس کے بطور فصیل کا کام کرنے کی امید ہے۔

امریکا پہلے ہی نام نہاد سیکشن 301 تحقیقات شروع کر چکا ہے۔جس کے نتائج اس موسم گرما تک آنے کی امید ہے،لیکن شاید اس کے نتیجے میں امریکی ڈیٹا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں چینی سرمایہ کاری پر سخت ترین رکاوٹیں ہوں گی۔

 یہ ٹینسنٹ جیسی چینی کمپنیوں کو بند یا چینی مصنوعات کی وسیع ورائٹی پر نتیجے میں نیا ٹیرف یا چینی تارکین وطن کیلئے نئے ویزا قوانین لاگو ہوسکتے ہیں۔

امریکا میں غیرملکی سرمایہ کاری کی کمیٹی نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا کہ اس نے امریکا کے معروف سیمی کنڈکٹر کاروبار کالکم خریدنے کیلئے سنگاپور کے زیر انتظام چپ میکر براڈ کام کی بولی کا جائزہ لیا تھا۔

 وفاقی انتخابی کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق یہ اقدام ٹیکساس کے سینیٹر جان کورنی اور کیلیفورنیا کے نمائندے ڈنکن ہنٹر کی جانب سے دباؤ کے بعد لیا گیا،دونوں میں سے ہر ایک نےکالکم کی سیاسی ایکشن کمیٹی سے 15 ہزار ڈالر سے زائد عطیہ وصول کیا۔

وزیر خزانہ اسٹیو منچن جو سی فس کے سربراہ ہیں، نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ قومی سلامتی کیلئے خطرہ بننے والے معاہدے کو روکنے کیلئے اپنے اختیارات کے استعمال کے لئے امریکا مکمل طور پر تیار تھا۔

تشویش سے نمٹنے کی حد کے خلاف دلائل دئے گئے ہیں کہ براڈ کام 5 جی جیسے اہم شعبوں میں کالکم کی سرمایہ کاری کو کم کردے گا،خوف ہے کہ اگر سنگاپور کی کمپنی کالکم کی مالک بن جاتی ہے تو امریکا مزید ڈیجیٹلی مسابقتی یا محفوظ نہی رہ سکتا، لیکن وہ اس طرح توجیح پیش کرنے میں ناکام رہی ،جس طرح امریکی ٹیک انڈسٹری اور انتظامیہ دونوں اس وقت آپریٹ کررہی ہیں۔

سی فس مشتعل ہے کہ براڈ کام، جس نے نجی ایکویٹی گروپس سلور لیک، کے کے آر اور سی وی سی معاہدے کیلئے 106 بلین ڈالر قرض لینے کی تیاری کی ہوئی تھی، ایک قلیل المدتی منافع کے نکتہ نظر کو لے گا اور کالکم کی بھرپور تحقیق اور ترقیاتی بجٹ کو کم کرے گا،جو آمدنی کا 20 فیصد ہے۔ 

یہ ایک جائز فکر ہے، جب قرض کا بوجھ بہت زیادہ ہو تو نجی ایکوئٹی کی آر اینڈ ڈی کم کرنے کی تاریخ موجود ہے۔سی فس کا نظریہ ہے کہ اگر کالکم کو سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے،چین کے خلاف امریکا ٹیکنالوجی کی دوڑ میں قومی چیمپیئن کی حیثیت کھو دے گا۔

برینسٹین سیمی کنڈکٹر تجزیہ کار اسٹیسی راسگن کے مطابق اس کے باوجود یہ حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ کالکم کے چین میں اسٹریٹجک تعاون اور مفادات موجود ہیں، جو براڈ کام کو بونا بناتے ہیں۔ 

بڑی امریکی ٹیک کمپنیوں کی چین میں کافی دلچسپی ہے، اگرچہ حالیہ مہینوں میں ان میں سے بعض نجی طور پرمقبول قوم پرستی میں شامل ہورہی ہیں۔وہ ’ہم چین سے بہتر‘ کی دلیل استعمال کررہے ہیں، جب پرائیوسی کیلئے عدم اعتماد سے لے کر مختلف شعبوں پر ٹیکنالوجی کے سیکٹر کے اضافی قوانین کے لئے حوصلہ افزائی کی لہر کے خلاف لابنگ کرتے ہیں۔ 

مسئلہ یہ ہے کہ نہ ہی امریکی صنعت اور نہ ہی حکومت ہی دونوں طریقوں سے کرسکتی ہے۔80 کی دہائی میں رونالڈ ریگن کی انتظامیہ کے تحت ٹیکنالوجی کے حوالے سے زیادہ متحرک صنعتی پالیسی کیلئے عارضی طور پر دباؤ تھا،لیکن جارج ایچ ڈبلیو بش کے عہدہ سنبھالتے ہی اسے منسوخ کردیا گیا۔ اس کے بعد 90 کی دہائی کے آکر میں دفاعی ادارے فکرمند تھے کہ جاپانی فوجی سازوسامان میں استعمال ہونے والے فلیت پینل کے 92 فیصد کا حصہ بنارہے ہیں۔ اس نے اس ٹیکنالوجی کیلئے گھریلو صنعت پیدا کرنے کی کوشش کی۔

 کئی ارب ڈالرز اور برسہا برس بعد،جاپانی کمپنیوں کے مارکیٹ حصص 96فیصد تھے۔ آج تشویش کی بات یہ ہے کہ ہم ایلومینیم اور اسٹیل پر ٹیرف کے ساتھ شروع کررہے ہیں جو ڈیجیٹل تجارتی جنگ پر ختم ہوگا جسے جیت نہیں سکتے۔

حکومت کوحق ہے کہ قومی سلامتی کے مفادات کا جائزہ لینا چاہتی ہے اور حکمت عملی کے اہم شعبوں کو منظم کیا جاتا ہے، کو ہاتھ میں لینا۔ تاہم تحفظ پسندی اس کا درست طریقہ نہیں ہے۔

امریکی حکومت کا بلیو اسکائی ریسرچ کی مالی امداد کے سلسلے میں ایک بہت اچھا ریکارڈ ہے،جس کے نتیجے میں نجی شعبے کے لئے بڑی اقتصادی قدر،ٹچ اسکرین ٹیکنالوجی، جی پی ایس اور پینٹاگون سے نکلا۔ہمیں اس طرح کی تحقیق کے لئے فنڈز میں کمی کی بجائے اضافے کی ضرورت ہے اور شاید عوامی شعبے کو منافع کو زیادہ سے زیادہ منافع لینے کی اجات دیں، اگر تحقیق تجارتی ہے تو، جیسے اسکینڈی نیویا ممالک اور اسرائیل نے کیا۔

یہ عام تنقید کی تلافی کرنے میں مدد کرے گا،اس کے نتیجے میں جب ایپل یا گوگل یا کوالکم جیسی کمپنیوں کو عوامی فنڈ سے ہونے والی بنیادی تحقیق سے فائدہ اٹھائیں گی، اور اپنا منافع آف شور میں جمع کرنا ختم کردیں گی۔

یہ سچ ہے کہ اپنے ٹیک سیکٹر کو تحفظ دیتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ امریکا کی ملکی ٹیکنالوجی مشکلات کا شکار ہے۔ غیر ملکی اشیاء پر ٹیرف کی ضرب یا اس دعویٰ سے دستبردار ہونے کہ مخالفین کے ساتھ کاروبار کرنے والی کمپنیوں کو کسی نہ کسی طرح قومی چیمپنیئنز کو قومی سلامتی کو یقینی بنائیں، کی بجائے ہمیں اپنے ڈیجیٹل ماحولیاتی نظام پر بغور نظر رکھنا چاہئے۔

بڑے امریکی عہدیدار ایجادات کو غیر مؤثر کررہے ہیں۔تعلیمی اصلاحات کو کارکنوں کوملازمتوں کیلئے سخت تربیت دینے کی ضرورت ہے جہاں روبوٹ ان کی جگہ نہ لے سکیں۔ہم غیر ملکی خریداروں سے امریکی کمپنیوں کو تحفظ دے کر نہیں بلکہ بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرکے ترقی کو تیزکرسکتے ہیں۔ان مسائل پر توجہ دینا ہی قومی سلامتی کے تحفظ کا صحیح طریقہ ہے۔

تازہ ترین