وہ ہمیشہ سے کچھ نیا کرنا چاہتی تھی، دوسروں سے بالکل مختلف اور الگ کام کرنا اس کی عادت رہی ہے۔ وہ ہنستے، مسکراتے بڑے کارنامے انجام دینے کا فن جانتی ہے۔ کم عمری میں ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑ لینے والے ٹی وی ڈرامے بنانا کوئی معمولی بات نہیں، لیکن وہ یہ کام بڑی آسانی سے کرلیتی ہے، کیوں کہ وہ اسے کام نہیں سمجھتی،ڈرامے اور فلمیں بنانا اس کا جنون ہے، وہ پروڈکشن کی دنیا میں صف اول کی پروڈیوسر بن کر شوبزنس پر راج کرنا چاہتی ہے۔
خواب دیکھنا اس کا مشغلہ رہا ہے اورپھر خو ابوں کی تعبیر میں حقیقت کے سچے رنگ بھرنے کے لیے وہ میدان عمل میں اتر جاتی ہے۔ بہت باتونی ہے، لیکن اس کی گفتگو میں ایک تہذیبی رچائو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے سماعتوں میں رس گھول دیتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں جینے کی امنگ، کام کرنے کی لگن اور کئی سہانے خواب سجے ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کی بنیادپر یقین رکھتی ہے ،ایسا یقین جو اسے کام یابیوں کے سفر میں رواں دواں رکھے۔ اس پڑھی لکھی، ذہین، قابل اور فنی صلاحیتوں سے مالا مال کو شو بزنس کے لوگ سعدیہ جبار کے نام سے جانتے ہیں۔
سعدیہ جبار نے پروڈکشن میں اپنی پہچان ڈراموں سے بنائی اور پھر انہیں فلم بنانے کا شوق ہوا۔ عثمان خالد بٹ، عینی جعفری اور صدف کنول کو لے کر ایک خوب صورت فلم ’’بالو ماہی‘‘ بنائی۔ ان کاشمار ان خو اتین فلم سازوں میں ہوتا ہے، جو پاکستان فلم انڈسٹری کو آگے بڑھانے کے لیے اس جانب آئیں۔ سعدیہ جبار کو مقبول ڈراما سیریل ’’میرا نام یوسف‘‘ سے پہچان ملی ، اس ڈر امے میں عمران عباس اور مایا علی کی یادگار پرفارمنس نے رنگ جمادیا تھا۔ ان کا ایک اور سپر ہٹ ڈراما’’خدا دیکھ رہا ہے‘‘ بھی پسند کیا گیا۔ سجل علی اور بشریٰ انصاری نے اس ڈرامے میں عمدہ کردار نگاری کا مظاہرہ کیا۔
وہ کئی شوز بھی کرتی رہیں، لیکن ان کی منزل فلم پروڈکشن تھی۔ اب وہ اس جانب آگئی ہیں۔ فلم ’’بالو ماہی‘‘ کی باکس آفس پر ناکامی نے انہیں کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا، اس کے باوجودبھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اب 2018ءمیں دوسری فلم بنانے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ اگست سے فلم کی شوٹنگ کا کام شروع ہوجائے گا۔
سعدیہ جبار نے شوبزنس کی دنیا میں چند گلوکاروں کے گانوں کی وڈیوز بنا کر قدم رکھا۔ ان کی ڈائریکٹ کئے ہوئےگانوں کی وڈیوز نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی، بعد ازاں وہ ڈراما پروڈکشن کی جانب آگئیں۔ لاہور اور اسلام آباد میں اپنی صلاحیتوں کا جادو جگا کر روشنیوں کے شہر کراچی کا رُخ کیا۔ اب وہ مکمل طور پر کراچی کی ہو کر رہ گئی ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں سے کراچی میں ایس جے پروڈکشن کے نام سےادارہ چلارہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ساحل سمندر پر واقع ان کی رہائش گاہ پر انٹرویو کے سلسلےمیں ایک ملاقات کی گئی، جس کی تفصیل نذر ِقارئین ہے۔
جنگ: اپنے بارے میں کچھ بتائیں؟ آپ شوبزنس کی طرف کس طرح آئیں؟
سعدیہ: میں نے لاہور میں جنم لیا اور میرے بچپن کا بیش تر حصہ ساہیوال میں دادی کے ساتھ گزرا۔ دادی سےمیری پکی دوستی تھی۔ خوب شرارتیں کرتی تھی، تعلیمی مراحل لاہور میں مکمل کیے۔ لاہور کالج سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد NCA میں فیشن ڈیزائننگ میں گریجویشن کی، پھر آہستہ آہستہ شوبز کی جانب ؤگئی، ابتدا میں کچھ لوگوں کو اسسٹ کرتی رہی۔ میں اپنے والد کی طرح سیلف میڈ بننا چاہتی تھی۔ میری فیملی یعنی میرے بھائی، بہنوں میں کوئی پروڈکشن کی طرف نہیں آیا۔ میں نے اپنا پروڈکشن ہائوس بنایا۔ کراچی میں ڈرامے بنانے شروع کیے تو ابتدا میں مجھے مشکلات کا سامنا ضرور ہوا۔
ہمایوں سعید کے پاس گئی، ان سے درخواست کی کہ کوئی اچھا سا ڈراما بنادیں۔ وہ اچھے انسان ہیں، انہوں نے اس وقت میری بات سنی اور مجھے ایک اچھا ڈراما بنا کر دیا۔ اب تو میں شوبزنس میں تھوڑی بہت پہچانی جاتی ہوں۔ لوگ میری بات آسانی سے مان لیتے ہیں۔ اسکول کے زمانے میں بھی کچھ نیا کرنے کی سوچتی رہتی تھی اور پڑھائی میں زیادہ اچھی نہیں تھی، میرا دھیان فنون کی طرف زیادہ تھا۔ مجھے منفرد اور اچھے شوز کرنے کا شوق تھا۔ لاہور اور اسلام آباد میں شوبزنس کا آغاز کیا اورا ب کراچی میں میرا کام پروان چڑھ رہا ہے۔ کراچی کے لوگ بہت پروفیشنل ہیں، یہی وجہ ہے کہ کراچی ڈراموں اور فلموں کا مرکز بن گیا ہے۔
جنگ: فلم ’’بالو ماہی‘‘ بنانے کا تجربہ کیسا رہا، ایک خاتون فلم ساز کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
سعدیہ: ’’بالو ماہی‘‘ نے مجھے بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔ ’’بالو ماہی‘‘ سے قبل میری شخصیت کچھ اور تھی اور اب میں کچھ اور ہوگئی ہوں۔ اس فلم نے مجھے سات کروڑ روپے کا نقصان دیا، لیکن میں اسے ابتدائی سرمایہ کاری کہتی ہوں۔ یہ میری پہلی فلم تھی، آئندہ کی فلموں میں زبردست کام یابی حاصل کروں گی، سارا سرمایہ واپس آجائے گا۔ کسی بھی فیلڈ میں
آسانی سے تو کام یابی حاصل نہیں ہوتی۔ فلم بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ ’’بالو ماہی‘‘ کے حوالے سے ڈائریکٹر کا انتخاب میری غلطی تھی۔
جنگ: آپ سنیما گھروں میں جاکر فلمیں دیکھتی ہیں؟
سعدیہ: فلم میرا شعبہ ہے۔ پچھلے دنوں مجھے ’’پنجاب نہیں جائوں گی‘‘ ، ’’پرچی‘‘ اور بالی وڈ کی فلمیں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔مجھے پاکستانی فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ فلم انڈسٹری کے نئے دور سے مجھے بہت اچھی امیدیں ہیں۔
جنگ: کوئی ایسی فلم جو آپ نے کئی بار دیکھی ہو؟
سعدیہ: امیتابھ بچن اور دپیکا پڈوکون کی سپر ہٹ فلم ’’پیکو‘‘ میں نے ایک درجن سے بھی زائد بار دیکھی ہے، شوبزنس دوست مجھے اکثر پیکو بھی کہتے ہیں۔
جنگ: خواتین فلم سازوں میں کون قابل ذکر کام کررہاہے؟
سعدیہ: بالی وڈ میں تو بہت ہیں، پوجا بھٹ نے اچھی فلمیں پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیں۔ آج کل انوشکا شرما نے پروڈکشن میں دُھوم مچائی ہوئی ہے۔ پاکستان میں فضا علی مرزا نے تین سپرہٹ فلمیں پروڈیوس کیں۔ مومنہ دیدار، حریم فاروق، زیبا بختیار، شمیم آرا میڈم، سنگیتا بیگم نے کام یاب فلمیں پیش کیں۔ آسکر ایوارڈ وِنر شرمین عبید چنائے نے عمدہ کام کیا، لیکن وہ زیادہ دل چسپی ڈاکیومنٹریز میں رکھتی ہیں۔ پاکستانی خواتین نے فلم سازی کے میدان میں خود کو منوالیا ہے۔
جنگ: آپ کی صبح کس طرح ہوتی ہے؟
سعدیہ :میرا وزن بہت بڑھ گیا ہے، اس لیے ویک میں چار مرتبہ لازمی جِم جاتی ہوں، اس کے بعد کام کاج میں لگ جاتی ہوں۔
جنگ: اگر صرف ایک نصیحت کرنے کو کہا جائے تو کیا نصیحت کریں گی؟
سعدیہ : کسی کو دھوکا نہ دیں۔
جنگ: کوئی ایسا کام جسے کرنے کی خواہش ہو؟
سعدیہ : میں صف اول کی فلم پروڈیوسر بننا چاہتی ہوں۔ بہت ساری کام یاب فلمیں بنانا چاہتی ہوں۔
جنگ: پاکستان چھوڑ کر کہیں اور بسنے کا موقع ملے تو کون سے ملک کا انتخاب کریں گی؟
سعدیہ: لندن میں گھر بنائوں گی اور ہمیشہ وہیں رہوں گی۔
جنگ: زندگی میں سب سے زیادہ کس کی احسان مند ہیں؟
سعدیہ: اپنے و الدین اور سچے دوستوں کی۔
جنگ: ہمیشہ درست فیصلے کرتی ہیں یا فیصلہ کرنے کے بعد اسے دُرست کرنے کی کوشش کرتی ہیں؟
سعدیہ: سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتی ہوں اور پھر کام پوری لگن سے کرتی ہوں، تو کام یابی ملتی ہے۔
جنگ: بالوماہی کی ناکامی کی وجہ کیا تھی؟
سعدیہ : کمزور اسکرپٹ اور ڈائریکشن نے فلم کو نقصان پہنچایا۔
جنگ: ہر انسان کو بوڑھا ہونا ہے، آپ نے بڑھاپے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟
سعدیہ : ابھی تو میرا گھر بھی نہیں بناہے۔ بوڑھا ہونے کے بارے میں بالکل نہیں سوچتی۔ میری شادی ہوئی، تین سال بعد مجھے طلاق لینا پڑی، وہ مشکل وقت تھا، اب میں آزاد ہوں، لیکن آزادی ذمے داری کے ساتھ ، اپنے ہر عمل کی جواب دہ ہوں۔
جنگ: بھروسا کرنا کس حد تک ضروری ہے؟
سعدیہ: آپ کو دھوکے ملیں گے، لیکن بھروسے کے بغیر زندگی کی گاڑی آگے نہیں بڑھتی۔
جنگ: آپ خوش لباس اور خوش شکل ہیں، کبھی اداکاری کی پیش کش ہوئی؟
سعدیہ: شوبزنس کے دوست مجھے اکثر کہتے ہیں کہ تم اداکاری شروع کردو، اب اداکاری کے لیے سنجیدگی سے سوچ رہی ہوں، کوئی اچھا کردار ملا تو ضرور کروں گی۔
جنگ: موسیقی کا شوق ہے؟
سعدیہ: جنون نہیں، صرف شوق ہے۔ مجھے راحت فتح علی خان اور علی ظفر کی آواز اچھی لگتی ہے۔
جنگ: مطالعہ کی عادت ہے؟
سعدیہ: جی ہاں، عالمی ادب کے ساتھ پاکستانی ادب بھی پڑھتی ہوں۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے افسانے شوق سے پڑھتی رہی ہوں، مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے کئی بار پڑھے۔
جنگ: پاکستان کی ٹاپ تھری اداکارائیں کون ہیں؟
سعدیہ: صبا قمر، ماہرہ خان اور سجل علی۔
جنگ:اداکاروں میں ٹاپ تھری کون ہیں؟
سعدیہ: فواد خان، ہمایوں سعید، شہریار منور۔
جنگ: کس فن کارہ سے زیادہ دوستی ہے؟
سعدیہ: صبا قمر میری بہت پیاری دوست ہے۔ اپنی تیسری فلم میں اسے لازمی ہیروئن کاسٹ کروں گی۔
جنگ:اپنی شخصیت میں سب سے زیادہ کیا اچھا لگتا ہے؟
سعدیہ: اپنا بے وقوفوں کی طرح ہنسنا۔