• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ٹی بی کا عالمی دن، بلوچستان میں ’آؤ ٹی بی مٹاؤ‘ پراجیکٹ کاآغاز

ٹی بی کا عالمی دن، بلوچستان میں ’آؤ ٹی بی مٹاؤ‘ پراجیکٹ کاآغاز

بلوچستان میں صحت عامہ کی صورتحال قطعی تسلی بخش نہیں ہے، اس کا اندازہ صوبے میں مختلف امراض اور ان میں مبتلا مریضوں کی تعداد کی بڑھتی شرح سے لگایا جاسکتا ہے۔

علاج معالجے کی سہولتوں کا فقدان اپنی جگہ مگر معاشی و سماجی مسائل اور غربت کےعلاوہ عوام میں امراض کی روک تھام کے حوالے سے شعور و آگہی کا نہ ہونا امراض کے پھیلنے کا بڑا سبب ہے، یہی صورتحال عرف عام میں ٹی بی کہلائے جانے والے مرضتپ دق کی بھی ہے۔

تپ دق کےحوالےسےگلوبل ٹی بی کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں ہرسال 57ہزار سےزائد ٹی بی کےنئے مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے، اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو یہ اوسطاً تقریباً ڈھائی سے تین ہزار مریض بنتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ٹی بی کے مرض میں اضافے کی بڑی وجہ غربت اور شعور و آگہی کا فقدان ہے، انہی مسائل کا شکار کوئی بھی شخص اس مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے، شہری علاقوں کےماسوا ء بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اس مرض کی صورتحال کافی گمبھیر ہے۔

مرض کی علامات کے حوالے سے فاطمہ جناح چیسٹ اینڈ جنرل اسپتال سے وابستہ ماہر امراض سینہ و تپ دق ڈاکٹر شاویز کا کہنا تھا کہ اس مرض کی علامات میں تین ہفتے سے زائد مسلسل کھانسی کا ہونا، اس کے ساتھ ساتھ منہ سے بلغم کا آنا ،سینے میں درد کی شکایت اور وزن کامسلسل کم ہوناشامل ہیں، ایسی علامات ظاہر ہوں تو مریض کو فوری کسی اچھے معالج سے رجوع کرنا چاہئے اور فوری علاج شروع کر دینا چاہئے، علاج کے حوالے سے سرکاری اسپتالوں اور صحت کے مراکز میں سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔

صوبائی منیجر ٹی بی کنٹرول پروگرام بلوچستان ڈاکٹر سلطان احمد لہڑی کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ٹی بی کےمرض میں اضافہ ہورہاہے اور 2017ء کی گلوبل ٹی بی کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سالانہ تقریباً 27ہزار سے زائد ٹی بی کے مریضوں کا اضافہ ہوتا ہے، اس صورتحال کے پیش نظر صوبائی محکمہ صحت نےٹی بی کنٹرول پروگرام کےتحت گلوبل فنڈکےمالی اورکراچی کےایک اسپتال کےتکنیکی تعاون سے آؤ ٹی بی مٹاؤ پراجیکٹ ترتیب دے دیا ہے، ٹی بی کےعالمی دن کےموقع پر اس کاباقاعدہ اعلان کیاجائےگا۔

انہوں نے بتایا کہ آؤ ٹی بی مٹاؤ کےعنوان سے 3سالہ پراجیکٹ ٹی بی کی روک تھام کےحوالےسےعالمی معیار کا ہے، اس پراجیکٹ میں مختلف اقدامات کے ساتھ ساتھ موبائل وین میں نصب جدید ڈیجیٹل ایکسرے کے ذریعے ٹی بی کے ممکنہ مریضوں کی نشاندہی بھی شامل ہے، یہ وین مختلف علاقوں، اسپتالوں، اسکولوں، کالجوں، فیکٹریوں سمیت مختلف مقامات پر جاکر کیمپوں کے ذریعے عوام کی ٹی بی کے مرض کے حوالے سے اسکریننگ کرے گی، اس پراجیکٹ کے نتائج کی روشنی میں اس کی کوئٹہ کے علاوہ مختلف شہروں میں توسیع کی جائے گی۔

بلوچستان میں ٹی بی کی روک تھام کے لیے صوبے کے تمام اضلاع میں تشخیصی مراکز قائم کر دیئے گئے ہیں، جبکہ ہنگامی بنیادوں پر اسکول اور کالج کی سطح پر آگہی اور ڈاکٹرز و پیرا میڈیکل اسٹاف کو تربیت کی فراہمی کے پروگرام پر بھی عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔

اس کےعلاوہ اسٹاپ ٹی بی پارٹنر شپ پاکستان اور نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کے تعاون سے بلوچستان میں ٹی بی کی روک تھام کے لیے پانچ سالہ اسٹریٹیجیک منصوبہ بھی شروع کیا گیا، اس منصوبے میں ٹی بی کے بروقت خاتمے کے اقدامات کو صوبے کی ضرورتوں اور عالمی ادارہ صحت کے تجویز کردہ طریقہ کار کے مطابق تجویز کیا گیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ ٹی بی کی روک تھام کے حوالے سے حکومتی اقدامات کے نتائج عوام کے تعاون سے ہی سامنے آسکیں گے لیکن دوسری جانب ان کے سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لئے بھی حکومتی سطح پر بھرپور اقدامات کی ضرورت ہےکہ اسی سے ٹی بی سے پاک صحت مند معاشرہ تشکیل پاسکے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین