برسلز: الیکش بارکر،جم برنسڈن
واشنگٹن: شانڈونن
یورپی یونین کے رہنما اس ہفتے جب برسلز میں اجلاس کے لئے جمع ہوں گے تو ایک الجھن ان سب کو پریشان کرے گی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کیا کرنا ہے؟؟
جبکہ تجارتی تلخ کلامی اور ہنگامہ خیز سیاسی تنازعات جنگ کے بعد ٹرانس اٹلانٹک تعلقات نمایاں ہوئے ہیں، شاذونادر ہی ہوا ہے کہ اگر کبھی امریکی صدر بہت سے غیر متوقع مسائل پیدا کررہے ہوں اور یورپ نے ان کا سامنا کیا ہو،تجارت اور ٹیکس کے مسائل پر واشنگٹن سے نمٹنے والے یوروزون کے ایک وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جانتے ہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں، وہ یورپ کے زخم میں اپنی انگلی ڈالنا چاہتے ہیں۔ہمیں اپنی مضبوطی ظاہر کرنا ہوگی بصورت دیگر یورپ کے لئے کوئی وجہ نہیں رہے گی۔
28 یورپی یونین کے صدور اور وزراء اعظم کے سربراہی اجلاس کے ایجنڈے پر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کی بنیادوں پر اسٹیل اور ایلومینیم پر عائد کردہ ٹیرف کا جواب دینے کا فیصلہ ہوگا، جس میں امریکا کے قریبی دفاعی اتحادیوں کو بھی مستثنیٰ نہیںکیا گیا۔
تاہم یورپ کی اعلیٰ سطح پر بات چیت آسانی سے علاقائی حدود سے باہر ٹیکس اور ٹیک کمپنیوں پر تنازعات سے، ایران کے جوہری معاہدے پر جنگ سے، مشرق وسطیٰ اور دفاعی اخراجات تک ٹرانس اٹلانٹک مسائل کی طویل فہرست میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
تاریخی موازنہ کرنا مشکل ہیں۔ ماضی قریب جیسا کی عراق کی جنگ میں عام طور پر واشنگٹن کے مؤقف پر یورپ میرٹس پر مختلف کیمپوں میں تقسیم ہوتا نظر آیا۔ آج یورپی رہنما خود کو ایک عمومی مسئلہ نقصان کی حد کا سامنا کرتا دیکھتے ہیں۔
یورپی یونین اور برطانیہ کے سابق تجربہ کار سفارتکار رابرٹ کوپر نے کہا کہ یہ مشکل ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی چیز سے خاصیت کے لحاظ سے اور کسی بھی دوسرے جو پہلے تھا سے مختلف ہیں، وہ نہ صرف یورپ پر حملہ کررہے ہیں بلکہ وہ امریکا کی تعمیر کی گئی دنیا پر حملے کررہے ہیں۔ وہ یورپی یونین سے نفرت کرتے ہیں، وہ ڈبلیو ٹی او کو ناپسند کرتے ہیں، وہ کثیر الجہتی تجارت سے نفرت کرتے ہیں۔یہ جنگ کے بعد کا انٹرنیشنل آرڈر ہے۔ اگر وہ سنجیدہ ہیں تو پھر یہ سنگین ہے۔
یہ واضح ہے کہ یہ غیر یقینی اور غیر متوقعیت جو برسلز کیلئے مسئلہ پیش کرتی ہے۔ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کی کہیں زیادہ متاقضی ہے۔ تاہم یورپی رہنماؤں نے اپنے تاریخی اتحاد کو امریکی طاقت کے بھروسے، صدر کی خواہشات کے انتہائی اتار چڑھاؤ کے ذریعے اس کا جعلی ہونا دیکھ لیا۔ واشنگٹن سے وضاحت کے لئے دباؤ ڈالنے والے ایک یورپی یونین کے مشتعل عہدیدار سے پوچھا گیا کہ آخر ان کا کھیل کیا ہے؟؟؟
یورپی یونین کی سفارتی خدمات کی قیادت کرنے والے والے تجربہ کار فرانسیسی سفارتکار پیئر ویمونٹ نے کہا کہ یہاں دیگرمسائل بھی ہیں۔ لیکن کم از کم ایک امریکی عالمی نظریہ تھا، آپ عدم اتفاق سے اتفاق یا اسے واپس دھکیل سکتے تھے۔ آج مشکل یہ ہے کہ آپ نہیں جانتے کیا ہوگا۔ بحث کیلئے ذہن کو شبہ میں ڈالنے والے مختلف معاملات ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا مرکل کے طور پرغیر معمولی اٹلانٹک ماہرین پہلے سے ہی یورپی خود مختاری کے حامی ہیں۔ ٹرانس اٹلانٹک اختلافات برسلز کو جارحانہ اقتصادی پالیسیوں کا لائسنس بھی دیتے ہیں،مثال کے طور پر رواں ہفتے ڈیجیٹل ٹیکس کی تجویز، جس سے ایپل، فیس بک اور گوگل متاثر ہوتے ہیں۔
تجارت پر، یورپی یونین کے رہنماؤں کو ان کے سربراہی اجلاس میں فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا امریکی ٹیرف کے خلاف بدلہ لینے کا فیصلہ کیاجائے اور ابھرتے ہوئے سفارتی اتفاق رائے کے ساتھ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ لڑنے کی بجائے انہیں ہموار اور پریشان کیا جائے۔
چند معتدل امریکی اتحادی جیسے پولینڈ اور بالٹک ریاستیں فطری طور پر محتاط لابنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون دریں اثنا ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ذاتی تعلق اور حقیقت پسندانہ اہلیت کو دیکھ سکتے ہیں۔
اگرچہ وائٹ ہاؤس نے یورپی یونین کو وسیع چھوٹ کی پیش کش نہیں کی ہے تو سفارت کاروں کے اجتماعی سخت ردعمل کی توقع ہے۔ایک سینئر فرانسیسی عہدیدار نے کہا کہ ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے، جب ضروری ہوا ہمیں ردعمل دینا ہوگا۔یہ متناسب، احترام کے ساتھ اور پرسکون ہوگا۔
قوانین پر مبنی کثیر الجہتی تنظیم کے طور پر وہ یورپی یونین کی جوابی کارروائی بین الاقوامی تجارت کیلئے کثیرالجہتی نظام کے ذریعے قدرتی طور پر جائے گی، جسےامریکا کی تشکیل شدہ حکومت نے سبوتاژ کرنے کا عہد کیا ہوا ہے۔
اس لئے جب آسٹریلیا نے اسٹیل ٹیرف پر لابی کیلئے گالفر گریگ نورمن کو وائٹ ہاؤس بھیجا ہے، یورپی یونین نے عالمی تجارتی تنظیم کو مقدمہ اور سیاسی طور پر حساس مصنوعات جیسا کہ کینٹیکی بوربون اور ہارلے ڈیوڈسن موٹر سائیکلز کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے ، جو صرف ڈونلڈ ٹرمپ کو مشتعل کرنا چاہتے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے شائع کردہ ایک نقل کے مطابق انہوں نے گزشتہ ہفتے میسوری فنڈ اکٹھا کرنے کیلئے منعقدہ ایک عشائیے میں بتایا کہ یورپی یونین بہت سخت ہے۔ آپ میں بہت سے یورپ سے آئے ہوئے ہیں،صحیح؟ کیا لگتا ہے وہ کافی ہوشیار ہیں، ان کے پاس یہ رکاوٹیں ہیں جہاں سے آپ اپنی مصنوعات حاصل نہیں کرسکتے،یہ مسئلہ نہیں آپ کیا کرتے ہیں، آپ اگر اپنی مصنوعات حاصل کرتے ہیں تو آپ بہت زیادہ ادائیگی کریں۔
اس وقت یورپی معاملات کی دیکھ بھال کرنے والے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سینئر ہیتھر کونلی نے کہا کہ موجودہ صورتحال انہیں 2000 کے اوائل کے دور کی یاد دلاتی ہے جب بش انتظامیہ کیوٹو کلائمٹ اکارڈ سے نکل گئی، انٹرنیشنل کرائم کورٹ میں شامل ہونے سے انکار اور ان سب سے بڑھ کر اتحاد کی آزمائش عراق جنگ کیلئے مارچ سے انکار کیا۔
تاہم کولم پاؤل، رچرڈ آرمیٹیج اور کونڈولیزا رائز،جنہوں نے جھگڑے کا طویل المدتی نکتہ نظر آنے میں مدد کی، جیسے حکام کی کمی محسوس ہورہی ہے۔ موجودہ اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل ریلیشن کیلئے سینٹر میں کام کرنے والی مس کونلی نے کہا کہ ہم ان تمام مشکلات کے خلاف حرکت میں ہیں لیکن واشنگٹن میں ہمارے پاس اتنے متوازن سینئر حکام نہیں ہیں۔
تجربہ کار یورپی سفیر نے کہا کہ یہاں اہم فکر یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ استثنی ٰکے ساتھ یا جنگ بڑھانے کے لئےانفرادی یورپی ممالک کا انتخاب کررہے ہیں۔
یہ صرف اقتصادی قیمت نہیں ہوگی،یہ ایران کے جوہری معاہدے کو ختم کرنے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کو روکنے کی کوششوں کو پیچیدہ کرے گا اور چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثرورسوخ سے نمٹنے میں قوتوں کے شامل ہونے کیلئے کوششوں میں رخنہ ڈالے گا ۔ اٹلانٹک اتحاد بننے سے انٹرنیشنل آرڈر پر دیرپا نقصان ہوسکتا ہے۔
مس کونلی نے کہا کہ ہمارے پاس یورپ کے لئے کرنے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور جب ہم تعلقات بنانا شروع کرتے ہیں تو مسئلہ یہ ہے کہ ہم وہ کام نہیں کرسکتے یا یہ دس گنا مشکل بن جاتی ہیں۔