• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ
(پندرہویں قسط)
حل حلول سے حبرون الخلیل کی طرف روانگی
یہ علاقہ خالص فلسطینی ریاست کا حصہ تھا۔شہر سے باہرنکلتے وقت ایک اجڑا سا دیار نظر آیا پوچھنے پربتایاگیایہ مہاجرین کا کیمپ تھاجہاں فلسطینی زبردستی جمع کیے جاتے تھے ۔ دل پہلے ہی رنج و غم سے ڈوبا ہواتھا اس کیمپ کی پھٹی پرانی حالت دیکھ کرمزید چبھن ہونے لگی ۔ کچھ کلو میٹربعد پھر اسرائیل کے زیر تسلط علاقہ شروع ہوگیا ۔اوریہاں کا مشہور شہر الخلیل ہے جسے حبرون بھی کہاجاتاہے اور شاید نابلس بھیکیونکہ پرانی تفاسیر میں سیدنا یوسف علیہ السلام کامقام تدفین نابلس لکھا گیا ہے جسے راقم نے بھی تفسیر سورہ یوسف بنام’’ حسن و جمال کاچاند‘میں نقل کیا ہے۔یہاں پہنچ کر بھی فلسطینی بچوں کی غربت دیکھ کردل کے خون کے آنسو رویا۔یہ خالص حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زرخرید جگہ تھی ۔ یہیں انہوں نے ایک اپنے اور اپنے خاندان کے دفن ہونے کیلئے ایک غار بھی متعین کی تھی ۔یہاں کی مسجد الخلیل میں ان کی قبور کے نشانات ہیں ۔ ہم نے طہارت خانے جاکر وضو کیاوہاں برطانیہ سے آئے ہوئے کافی لوگ وضو بنا رہے تھے ہندوستان سے تعلق رکھنے والے کئی افراد جو بولٹن پریسٹن اور بلیک برن (برطانوی شہروں ) سے تعلق رکھتے تھے وضوبنا رہے تھے ۔ اپنے بھائیوں کویہاں اتنی مقدار میں دیکھ کربہت خوشی ہوئی کچھ کے ساتھ تعارف بھی ہوا۔حبرون پر بھی اور مسجدالخلیل پر بھی یہودیوں کاقبضہ ہے ۔سیکیورٹی بڑی سخت ہے جس سے گزرکر ہم مسجد میں داخل ہوتے ہیں ۔مسجد میں جاکرظہر وعصر کی نمازیں جمع کیں ۔اسی مسجد میں قبور والی غار کادہانہ بند کرکے چھوٹی سے سوراخ پر جالی فٹ کردی گئی ہے ۔اسی غار میںواقع قبورکہاجاتاہے کہ تقریبا ساٹھ سترگزنیچے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، ان کی زوجہ حضرت سارہ ، حضرت اسحق ان کی بیوی حضرت رفقہ کی قبورنیچے ہیں ۔اور اوپر محض نشانات ۔ مسجد ابراہیمی کاایک حصہ ممنوع ایریا ہے اس پر اسرائیلیوں نے تالے ڈال رکھے ہیں بلکہ دیوار بنا کر مسجد الخلیل کو بھی دوحصوں میں تقسیم کررکھا ہے ۔بتایاگیاکہ حضرت یوسف ، حضرت ایوب اور ان کی فیملی کی قبور شریفہ کو الگ کر رکھا ہے۔ یہ کیسی نالائق اولاد ہے جو بعد از مرگ بھی انہیں الگ الگ رکھنے پر مصر ہے ،حالانکہ وہ سب انبیاء سمیت ایک ہی دین…دین اسلام کے ماننے والے تھے ، ان بدعتی اور مشرکین نے انہیں بھی باباجمال کی طرح مال میراث بنا ڈالا ہے ۔ ان قبورکی زیارت عام دنوں میں نہیں کی جاسکتی ۔عجیب تماشاہے کہ یہ مسجد الخلیل یہودی قبضے میں اور تولیت مسلمانوں کی ہے لیکن وہاں اذان کیلئے قابضین کی اجازت ضرورت ہے ۔وہ اجازت دیں تو اذان ہوگی نہ دیں تو بیٹھے رہیں اور بغیر اذان کے ہی نمازیں ادا کریں ۔ہم نے توایک نماز اذان کے بعد ہی باجماعت اداکی تھی ۔عصربھی ساتھ ہی پڑھ لی کہ حالت سفر میں ہیں ۔قبور انبیاء بلکہ اپنے جد امجد کی قبر مبارک کے سائن پر کھڑے ہوکر سوچتارہا کہ آپ بابل (عراق ) کے شہر’’ار‘‘ میں پیدا ہوئے ۔ مصر ہجرت کی وہاں کی شہزادی ہاجرہ کے بطن سے حق تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام عطا فرمائے جو ہمارے جد امجد ہیں۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ ان ماں اور نومولود کو لے کر وادی حجاز وادی غیر ذرع (بے آب و گیاہ)چلے جائیں یوں یہ وقت کی شہزادی اپنے معصوم بچے کے ساتھ لق و دق صحراء میں اللہ کی رضا کی خاطرسختیاں سہتی رہی۔ جبکہ ابراہیم علیہ السلام کو اس بے سہارا فیملی کو لق و دق صحراء میں چھوڑکر واپسی کاحکم ہوا ۔ پھرحبرون میں آئے اوریہاں ایک غار خریدی ، چھوٹے بیٹے اسحق کی اس جگہ ولادت و پرورش کی ۔ بڑے بیٹے اسماعیل نے وادی حجاز میں بیت اللہ تعمیر کیااورچھوٹے بیٹے اسحق نے مسجد اقصی تعمیرکی یہ خاندان جہاں بھی گیا اللہ کی عبادت کیلئے گھر بناتا رہا ۔انہی کی سنت کو ان کے لخت جگر خاتم الانبیاء علیہ الصلوٰۃ وازکی التسلیم نے زندہ کیااور دنیاکے سارے کنارے اللہ کی مساجد کی تعمیر سے بھر دیے ۔ سبحان اللہ العظیم ۔ بعدمیں انہی کی ذریت میں ایسے نالائقوں نے جنم لیا جنہوں نے دین اسلام کویہودیت و عیسائیت میں بدل دیا۔ توحیدکو شرک میں بدل دیااورآج دنیامیں سب سے زیادہ ظلم پھیلانے والے یہی نالائق ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ وہ ابراہیمی دین کے وارث ہیں ۔’’برعکس نام نہندزنگی کافور‘‘مسجد الخلیل میں ان پاکباز ہستیوں کی قبورجو کہاجاتاہے ساٹھ ستر گزنیچے ہیں اوپر ان جگہوں کی نشاندھی کیلئے نشانات بنادیے گئے ۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کے بقول سرور انبیاء علیہ الصلوۃ وازکی التسلیم کی تربت شریفہ کے کسی نبی کی قبر مبارک کی بالکل صحیح جگہ کی نشاندھی نہیں کی جاسکتی ہم نے ان سب پاکباز ہستیوں پر درود و سلام پڑھ کر ہدیہ عقیدت پیش کیااور اللہ مالک الملک کا لاکھ لاکھ شکراداکیاجس نے ہم جیسے بے مایہ لوگوں کوان علاقوں کی زیارت کاموقع نصیب فرمایا،این سعادت بزور بازونیست ۔
تاریخی عجوبہ …منبر ایوبی کی موجودگی
مسجد الخلیل میں ایک اور عجوبہ بھی دیکھنے کوملا اور وہ تھا سلطان اسلام حضرت صلاح الدین ایوبی نور اللہ مرقدہ کابنایاہوا منبر،جوبالکل اصلی حالت میں موجود ہے ۔ روایت کے مطابق سلطان نے مسجداقصی کے لیے تین منبر بنوائے تھے ۔جب وہ بھی عیسائی قابضین پر حملہ آور ہوتے تویہ تینوں منبر اپنے ساتھ رکھتے ۔سولہ جنگوں کے بعد اللہ نے حق کوفتح عطا فرمائی توان میں سے ایک منبرمسجد اقصٰی میں ٹکایا گیا اور دوسرا اس مسجد ابراہیمی میں اور تیسرادمشق کی جامع مسجدمیں مسجد اقصی میں موجود منبر1969تک نو سو سال تک علماء و خطباء کے زیر استعمال رہا۔پھر ایک بدبخت یہودی نے اسے آگ لگادی اور وہ جل گیا۔وہ اسی حالت میں مسجد اقصی کے پہلو میں موجود ہے۔باقی دونوں منبر سلامت ہیں ۔اللہ انہیں بدبختوں کی شرارتوں سے محفوظ رکھے ۔یہ منبر14فٹ اونچا ہے ۔اور تاریخ کاعجوبہ ہے کہ اتنے بڑے منبر کو بغیر کسی کیل کے یاگلو کے بنایاگیاہے ۔ اگر اس میں کوئی کیل استعمال کیا گیاہوتایا گلیو لگائی گئی ہوتی تو اب تک اکھڑجاتا ۔مگر918سال سے یہ منبر پوری آب و تاب کیساتھ موجود ہے الحمد للہ ۔ اتنی زبردست ڈیزائننگ ہے کہ آدمی عش عش کر اٹھتا ہے ۔لگتاہے پورے ایک دیوہیکل درخت کواتنی خوبصورت گرافی کے ساتھ منبرمیں ڈھالاگیا ہے جسے دیکھ کر آدمی ورطہ حیرت میں ڈوب جاتاہے ۔ آپ کومسجدالخلیل مسجد ابراہیمی کی زیارت کاموقع ملے تو اس عظیم الشان شاہکار کو اس نظر سے ضرور دیکھئے گا۔جس سے آپ کو اپنے اسلاف کی عظمت کااحساس ہوگا۔
بیت اللحم…جائے ولادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام
الخلیل سے فارغ ہوکر ہم بیت اللحم کیلئے روانہ ہوئے ۔ حبرون سے وہ کوئی زیادہ دور نہیں ہے یہ علاقہ خالص مسلمانوں کاہے یہاں ٹیکس عائد نہیں ہے، اس لیے عام چیزیں بھی اسرائیلی مقبوضہ علاقوں سے نسبتاًسستی ہیں ۔ہم نے یہاں لنچ کیا۔اہلیہ نے یہاں سے کچھ سامان خریدا۔اسی شہرمیں حضرت داؤد علیہ السلام سے منسوب ایک بڑا محل بھی دریافت ہوا ہے ۔ شہرکے قلب میں بلدیہ کے دفاتر ہیں ، یہاں فلسطینی پولیس کے جوان نیلی وردیوں میں بڑے خوبصورت اور چاق و چوبند نظرآئے ۔بلدیہ کے دفاتر کے ساتھ مسجد ہے جو حضرت عمر فاروق ؓ کی طرف منسوب ہے ۔یہاں کا مشہور سیاحتی مقام حضرت مریم کے نام سے موسوم چودہ سو سال پراناکنیسہ ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کی جگہ پر بناہوا ہے ۔اس کے مرکزی گیٹ میں سے داخل ہوں تو دائیں جانب اس چرچ کا بہت بڑا حصہ برائے فروخت صلیب کے نشانات ، اورپرچموں سے اٹا پڑاہے ، گویا اس نام سے کاروبار خوب چمک رہاہے ۔اتنی دیر میں ایک فلسطینی سپاہی جو چرچ کاانتظام کرتے ہیں ، میرے پاس آیا سلام کیا۔ حال احوال پوچھا۔اور بولاکہ آپ نے چرچ اندر سے دیکھنا ہے، میں نے کہا ۔ہاں! تو بولا آپ ٹوکن لے لیں۔ میں نے کہایا اخی! اس طرح کی پابندیاں تو یہودی علاقوں میں بھی نہیں لگائی گئیں۔ اب تو ہم آگے نکل آئے ہیں واپسی ناممکن ہے تو وہ خاموش ہوگیا۔ہم بغیر ٹوکن لیے جوتوں سمیت چرچ کے اندرونی حصے میں داخل ہوگئے ، جائے ولادت پرجانے کیلئے بہت نشیبی ایریا پر چھوٹے سے دروازے سے باری باری گزرناپڑتاتھا۔ سیاحین مرد و عورت منتظر تھے ۔ وہاں خواتین کو بھی حجاب پہننا پڑتاتھا ۔یعنی اصل چیز حجاب ہی ہے جو ’’نن‘‘کامستقل لباس ہے ۔لیکن مسلمان عورت کازیور ہونے کی وجہ سے قابل اعتراض ہے ۔ یہ عزت نسواں کالازمی عنصر ہے ، نشان عفت و پاکدامنی ہے اور مذہبی تقدس کا حصہ بھی ۔ عیسائیوں کے ہاں صرف کنواری مریم حجاب پہنتی ہے اور امت اسلام کی ہر بیٹی عفیقہ مریم کی پیروکار ہے۔اپنی باری آنے پرہم اندرداخل ہوئے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی جگہ ایک شیلف بنی ہوئی ہے جسے بتیوں سے روشن رکھاگیاہے ۔ قرآن کریم میں جذع النخلہ (کھجورکاتنا بتایا گیاتھا) اس جگہ کی نشاندھی میں کھجور کے مصنوعی پتے رکھے ہوئے ہیں۔ یعنی قرآن کے بیان کی تصدیق کی گئی ہے ۔یاقرآن نے جو بیان کیاگیااسے ہی تسلیم کیا گیا ہے ۔عیسائی عورتیں بچے مرد سبھی اس جگہ سجدہ کرتے ہیں اسے چومتے ہیں اور اب موبائل فون نے سیلفی کارواج ڈال دیا ہے ۔اب بجائے سجدے کے زیادہ تر سیلفیاں بنائی جاتی ہیں ۔وہاں سے آگے کئی تاریخی نشانات جو انہوں نے محفوظ کیے گئے ہیں دکھائے گئے ۔اور ہم چرچ سے باہر آئے تو ایک بگھی رکی جس پر سے ایک نوجوان لاٹ پادری زرق برق لباس پہنے سیکیورٹی گارڈز کے ہمراہ اترا،جیسے ہمارے ہاں دولہن بنے پیران طریقت اترتے ہیں ۔ سارا مجمع اس کی ظاہری شان و شوکت سے مرعوب ہوکر اس سے مصافحہ کرنے کیلئے آگے بڑھا۔ بتایاگیا کہ کسی یورپی ملک کامسیحی رہنما ہے ، اچانک وہ اس جانب مڑا تومیرے سامنے تھا۔اس نے مسکراکرہیلو کہااورہم آگے بڑھ گئے ۔چرچ کے باہر ایک معمر فلسطینی بزرگ کچھ تصاویر بیچ رہا رہاتھا۔ ہم نے اس کی حوصلہ افزائی کیلئے چند سیٹ خرید لئے ۔ پھر سڑک پارکرکے دوسو گز دور دوتین منزلہ مسجد عمرفاروقؓ میں چلے گئے اور نوافل ادا کیے۔ کہاجاتاہے کہ کلیسائے مریم میں سیدناعمر فاروق امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے پادریوں سے مذاکرات کے دوران نماز کا وقت آنے پرلاٹ پادری کی پیشکش پر چرچ کے اندر ہی نماز ادا کرلی تھی ۔جس سے مسلمانوں کیلئے غیرمسلم عبادتگاہوں میں کچھ تحفطات کے ساتھ نماز اداکرنے کاجواز بنا لاٹ پادری نے اپنی خوشی سے مسجدکی جگہ مسلمانوں کیلئے وقف کردی جہاں آج خوبصورت مسجدبنی ہوئی ہے جبکہ یروشلم میں مسجداقصی کے پڑوس میں واقع کنیسۃ القیامہ میں باوجود پیشکش کے امامنا وسیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے نمازادانہیں کی کیونکہ حالات کا اختلاف تھا بہرحال خلیفہ اسلام کی رواداری ایک غیر متنازعہ حقیقت ہے جسے آج تک ملت اسلامیہ فخر کے ساتھ پیش کرتی ہے ۔ اور اس ملت کا حق ہے کہ وہ اس پر فخر کرے اس مسجد عمر فاروقؓکی آرائش سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کے دور ہمایوں میں بھی کی گئی تھی۔اب اسے بہت خوبصورت اور جدید طرز تعمیر سے آراستہ کیا گیا ہے ۔اتنے میں وہاں سے روانگی کااعلان ہوگیا ۔ہماراگلا پڑاؤ مقام موسی علیہ السلام تھا ۔
تازہ ترین