اسلام آباد(این این آئی/جنگ نیوز/نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ میں سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر آئے افسران سے متعلق، مری تعمیرات ،گرینڈ حیات ہوٹل سے متعلق، آئوٹ آف ٹرن پروموشن کیس کے فیصلے سے متاثرہ ڈاکٹرز اور حجرہ شاہ مقیم از خود نوٹس کیسز کی الگ الگ سماعت ہوئی جبکہ سپریم کورٹ نے گرینڈ حیات ہوٹل سے متعلق حکومتی کمیٹی کو کام کرنے سے روک دیا، چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ ملک میں جوڈیشل این آر او اور نہ ہی جوڈیشل مارشل لاء آرہا ہے لہٰذا ملک میں صرف آئین رہے گا اور جمہوریت ہوگی، ٹی وی پر بولنے والوں پر پابندی لگادوں تو کئی لوگوں کا کام بند ہوجائے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر آئے افسران سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی جس دوران چیف جسٹس اور وکیل نعیم بخاری کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔چیف جسٹس نے نعیم بخاری سے کہا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر آپ بھی بہت باتیں کرتے ہیں، عدلیہ پر جو جائز تنقید کرنی چاہیے، جائز تنقید سے ہماری اصلاح ہوگی، اگر میں آج پابندی لگادوں تو بہت سے لوگوں کا کام بند ہوجائے گا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ گزشتہ روز کسی نے چیف جسٹس پاکستان کے کراچی میںلگے اشتہارات کے بارے میں بات کی، ان کو یہ نہیں معلوم میں نے خود وہ اشتہارات ہٹانے کا حکم دے رکھا ہے۔نعیم بخاری نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا کہ جوڈیشل مارشل لاء کے بارے میں بہت سی باتیں ہو رہی ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے نعیم بخاری سے سوال کیا کہ جوڈیشل این آر او ہوتا کیا ہے؟ میں واضح کردوں، کچھ نہیں آرہا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ملک میں جوڈیشل این آر او اور نہ ہی جوڈیشل مارشل لاء آرہا ہے، ملک میں صرف آئین رہے گا، ملک میں صرف جمہوریت ہوگی اور باقی کچھ نہیں رہے گا۔قبل ازیں سپریم کورٹ میں مری تعمیرات ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ان کا کام فریادی کی فریاد سننا ہے، سائل کی استدعا سننا ہے، کئی سائل آتے ہیں وہ ان کی بات سن لیتے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آنے والے فریاد سنانے آئے تھے ہم نے کچھ نہیں دیا۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ تو جسٹس عبدالرشید والی صورتحال تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس عبدالرشید کو بلایا گیا تھا لیکن یہاں وزیراعظم میرے پاس چل کرآئے، جب مجھے بلایا گیا تو میں نہیں گیا بلکہ ان سے کہا یہاں آجائیں، روزانہ کئی سائل آتے ہیں کسی کو روکتا نہیں، کسی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے، پتہ نہیں کسی کو کیا تکلیف ہو۔ لطیف کھوسہ نے لقمہ دیا کہ ان کو جو تکلیف ہے وہ سب کومعلوم ہے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے کسی کا نام نہیں لیا،سائلین کی بات کر رہا ہوں۔میرا فرض ہے کہ میں سائل کی شکایت کو سنوں۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے گرینڈ حیات ہوٹل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ وزیراعظم نے کس اختیار کے تحت کمیٹی تشکیل دی‘ عدالتی فیصلے کو کمیٹی کی تشکیل سے ختم نہیں کرسکتے کیا عدالتی فیصلے کو ختم کرنے کے لئے کمیٹی بنائی گئی۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں گرینڈ حیات ہوٹل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی عدالت نے گرینڈ حیات ہوٹل سے متعلق حکومتی کمیٹی کے ٹی او آرز طلب کرلئے۔ عدالت نے حکومتی کمیٹی کو کام کرنے سے روک دیا ، عدالت نے سی ڈی اے کو جواب داخل کرنے کا حکم دے دیا اور انٹرا کورٹ اپیل میں حکم امتناع جاری کرنے کا فیصلہ معطل کردیا۔ عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔ حجرہ شاہ مقیم میں گٹر کے پانی پر سے گزرتے ہوئے جنازے کے شرکاء کی سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی تصویرسے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مقامی انتظامیہ کو گندگی صاف کرنے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے پیشرفت رپورٹ طلب کرلی، چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں جسٹس عمر عطابندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت مئی کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے آئوٹ آف ٹرن پروموشن کیس کے فیصلے سے متاثرہ مردو خواتین ڈاکٹرز کی جانب سے کمرہ عدالت میں آہ و بکا کانوٹس لیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عدالت متاثرہ ڈاکٹرز سے ہمدردی رکھتی ہے لیکن ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جائے گا جوآئین وقانون کے مطابق نہ ہو، عدالت معاملے کاجائزہ لے کر قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی، تاہم فیصلہ ہونے کسی ڈاکٹرکی ٹرانسفر یا پوسٹنگ ہوگی اور نہ کسی کی تنخواہ روکی جائے گی ، چیف جسٹس نے متاثرہ ڈاکٹرز سے کہاکہ آپ چاہتے ہیں میں کچھ کروں لیکن بعض لوگ نہیں چاہتے ، اب میں فریاد سنوں یا لوگوں کی باتیں سن کر خاموش رہوں، جمعرات کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پرآؤٹ آف ٹرن پروموشن کیس کے فیصلے سے متاثرہ ایک ڈاکٹر نے کمرہ عدالت میں دہائی دیتے ہوئے کہا کہ آج میں بابے کے سامنے بات کرنا چاہتا ہوں، میرا تعلق بلوچستان سے ہے میرے والد اور بھائی کو گولی مار کر قتل کردیا گیا، جس طرح اچھے لوگوں پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی گئی اس طرح ہمارے کیس میں کمیٹی بنائی جائے، ایک دوسرے ڈاکٹر نے بتایا کہ میرا تعلق فاٹا سے ہے میرے ساتھ غیر منصفانہ رویہ اپنایا جارہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فاٹا ہمارا حصہ ہے، فاٹا کے لوگوں سے زیادتی نہیں ہوگی،ایک لیڈی ڈاکٹر نے کمرہ عدالت میں رونا شروع کیا تو۔ چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ بیٹا زندہ قومیں رویا نہیں کرتیں، ہم تمام ایشوز کے حل کیلئے کمیٹی بنائیں گے، سندھ کے رہائشی ایک ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے اگر اصل محکمے میں بھیج دیا گیا تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا، اگر ہم غلط ہوئے تو ہمیں تھانے میں بند کرادیا جائے، اسلام آباد کے تینوں اسپتالوں کی خواتین ڈاکٹرز نے فریاد کرتے ہوئے کہا وہ ڈیڈ لاک پالیسی کے تحت اپنے شوہروں کی ٹرانسفر کے باعث پندرہ سے بیس سال سے یہاں اسلام آباد میںکام کررہی ہیں بچے اسکول کالجوں میں پڑھ رہے ہیں ، لیکن اب وزارت صحت اور کیڈ والے ہمیں اپنے علاقوں میں ٹرانسفر کررہے ہیں فہرستیں تیار کرلی گئی ہیں ان کاکہناتھاکہ ہمیں بتایا جاتاہے کہ یہ سپریم کورٹ کا حکم ہے، انہوں نے مختلف انتظامی افسروں پر الزام لگایا کہ وہ بدعنوانی میں ملوث ہیں،ہرجگہ میرٹ کو پامال کیا جارہا ہے جنگل کا قانون چل رہا ہے ، ہم سے کام بھی لیا جاتا مگر پھربھی جاب کی شیورٹی نہیں آج فوت ہوجائیں تو زیرو سروس ، نہ واجبات نہ کوئی پنشن ، کوئی ہماری فریاد تک سننے کو تیار نہیں ۔بعدازاں عدالت نے یقین دہانی کرائی کہ کیڈ کی رپورٹ اور متاثرین کے اعتراضات کا جائزہ لینے کے بعد کیس کا فیصلہ کیا جائے گا، کیس کی مزیدسماعت منگل کو ہوگی۔