• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روایات کے ساتھ ساتھ نئے دور میں بھی باکمال

ایک فکری مغالطہ ہماری ثقافت میں یہ پایا جاتا ہے کہ عورت کمزور ہے وہ ہر کام نہیں کرسکتی ہے یہ درست ہے کہ فطرت نے کچھ کام مردوں کے لئے رکھے ہیں اور کچھ کام عورتوں کے لئے رکھ دیئے ہیں لیکن کمزور کہنا غلط ہے۔تین پاکستانی خواتین نے کراکرم کی چوٹی کو سرکیا ہے آپ خود ہی بتائیے کہ پاکستان میں کتنے مرد ایسے ہیں جویہ کام کرسکتے ہیں جوتین خواتین نے کر دکھایا ۔ پھر پاکستانی ثقافت کی تعریف بھی بہت ڈھیلے ڈھالے طریقے سے کی گئی ہے۔ 

اس تناظر میں ثقافت کو انفرادی طور پر دیکھا گیا ہے اور اس کے برعکس معاشرے کے طور پربھی دیکھا گیا ہے۔ اس تناظر میں اگر کہیں کوئی بات غلط ہوتی ہے تو فوراً کہاجاتا ہے تو لوگوں کے احساسات ثقافت کی خرابی کی تشریح کرنے لگتے ہیں۔ ہم ظاہر طور پر انسان بننے کی کوشش کرتے ہیں اندر سے صفائی نہیں کی جاتی ۔ 

اس لئے کسی اچھے لباس میں اور مناسب میک اپ کی عورت کو کوئی روایت پسند دیکھتا ہے تو پہلی بات وہ یہ کہتا ہے کہ ہم اپنے پرکھوں کے اقتدار سے ہٹ گئے ہیں اندازہ کیجئے خواتین کے ایشیائی مقابلے ہوئے پاکستان کی خواتین دوسری خواتین سے جوڈے کراٹے میں شلوار قمیض پہن کے نبرد آزما ہوئیں اور پھر دیکھئے ان خواتین نے پہلی مرتبہ پانچ میڈل جیت لئے۔ 

ہمارے ملک کی مایہ ناز شاعرہ فہمیدہ ریاض جن کے ساتھ میں نے کام کیا ایک جریدہ نکالتی تھیں۔ اتنی غریب پرور خاتون میں نے نہیں دیکھی جواپنے دکھوں سے زیادہ دوسرے کے دکھوں کو محسوس کرتی ہیں۔ اس موقع پر مجھے آسکروئیلڈکی وہ بات یاد آگئی اس عظیم ڈرامہ نگار نے کارل مارکس کے بارے میں عجیب بات کہہ دی وہ کچھ یوں تھی ’’ کارل کارکس کیسا انسان ہے جو اپنے دکھوں کے بجائے دوسرے کے دکھوں کی بات کرتا ہے‘‘۔

فہمیدہ ریاض کا مزاج بھی ایسا ہی ہے ان کی پہلی کتاب بدن وریدہ جب مارکیٹ میں آئی تو دکھاوے کے لوگوں نے دشنام طرازی کی لیکن پہلی مرتبہ پاکستان کی نسائی شاعری میں کسی نے کھل کر سچ کہا۔

یہاں ثقافت کے معنی یہ ہیں کہ چار صوبے میں سب کی اپنی اپنی زبانیں ہیں، لباس ہے اور چاروں موسم ہیں، پانچ دریائیں وغیرہ زبانیں اور لباس تک بات کس حد تک درست ہے لیکن موسم اور دریا تو جغرافیہ کی بات ہے یہ فکری مغالطہ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ کلچر کے عناصر کیا ہیں اور ان کی شناخت کیا ہےجس معاشرے میں جھوٹ بولنا اور کرپشن کرنا کلچر ہوتو وہاں ابہام کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ عام طور پر دانشوروں نے ثقافت کی تعریف یوں کی ہے۔ ’’ یہ بہت سے پیچیدگیوں کا مجموعہ ہے جس میں علم، یقین، آرٹ، قانون ، روایات، رہن سہن، انسانی صلاحیتوں کی اجاگر ہونا کسی بھی معاشرے میں لباس، زبانیں، موسیقی، مصوری، رقص وغیرہ سبھی شامل ہوتے ہیں۔ 

اگر روزآفرنیش سے دیکھا جائے تو عورت ہی کلچر کا ماخذ ہے۔ پتھر کے زمانے میں مرد شکار کے لئے جاتے تھے عورتوں نے انکشاف کیا کہ کس طرح بیجوں سے سبزیاں اور پھل اگتے ہیں۔ عورت نے ہمیشہ امن کو تقویت دی ، مرد ہمیشہ دوسرے پر فتح پانے کی خواہش میں مبتلا رہا ہے اور دنیا کو درندگی کے حوالے کردیا۔ اوپر بیان کئے گئے تمام عناصر خواتین نے ان سب میں ثقافت کوجمالیات بخشی ہے۔

ہمارے ملک کے دست کار جس میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں ان ہنر مند ہاتھوں سے بنائی ہوئی دست کاریاں دنیا اسے سراہتی ہے اور یہ ہمارے کلچر کا خاصا ہے کہ بغیر کسی یونیورسٹی پڑھے ہوئے مرد وخواتین نے اپنے چاندی ہاتھوں سے وہ چیزیں تخلیق کی ہیں جو دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں اس میں خواتین پیش پیش ہیں۔ مقامی زبانوں کے اپنی نظمیں، اپنے گیت اور رقص ہیں جو صدیوں سے گائے جاتے ہیں گیت لکھے جاتے ہیں۔ 

شاعری اور موسیقی نے ثقافت کو سوچاند کی چاندی سے منور کردیا اور اگر اس ثقافت سے عورت کونکال دیاجائے یعنی اس کے کمالات کو الگ کردیا جائے تو پھر اندھیرا اور کشت خون ہی رہ جاتا ہے۔ اس لئے تاریخ، نظریہ، زبان، خوراک،آرٹ اور مذہب یہ سب بھی ثقافت کے عناصر ہیں۔ خواتین کی ثقافتی سرگرمیوں پر کچھ پانیٹر بھی ہیں جو بعض سرگرمیوں کواچھا نہیں سمجھتے ۔ یہ لوگ اپنے آپ کو ثقافت کا محافظ کہتے ہیں حالانکہ وہ ثقافت کی الف بے نہیں جانتے ’’ فوک لور‘‘کوان کو کیا علم؟۔

بیساکھی کسے کہتےہیں، فصل کی کٹائی کیا ہوتی، بارش کے گیت میں سب چیزیں کس طرح انگڑائی لیتی ہیں یہ محسوس نہیں کرسکتے کیونکہ ’’ جو بارش کو محسوس کرتے ہیں وہ گیلے نہیں ہوتے‘‘۔ اس ثقافت میں اس وقت دھنک رنگ بھر جاتا ہے جب اس میں اقلیتوں کوبھی شامل کیا جاتا ہے اقلیت کہنا بھی درست نہیں جب سب پاکستانی ہیں تو پھر اقلیت کہنے کاکیا جواز بنتا ہے۔ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ اقلیت اور عورتوں کو کسی اور دنیا کی مخلوق سمجھنا چاہیے۔ ہم سائنس کو نہیں روک سکتے اب ہماری ثقافت میں ٹیلی ویژن اور سیل فونز بھی لپک آئے ہیں ان شعبوں میں بھی عورتوں نے کمال کردکھایا ہے۔

آج پاکستان میں ان تمام بدصورتیوں کے باوجود ’’ وجودزن سے ہے کائنات میں رنگ‘‘ جدیدیت اور مابعد جدیدیت میں عورت اپنی کاوشوں سے آگے بڑھ رہی ہے اور ثقافت کو سوچاند کی چاندئی سے منور کررہی ہے۔

تازہ ترین