• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کارزار…انور غازی

گوادر۔مستقبل کا پیرس

سی پیک کے تحت گوادر پورٹ کا یہ منصوبہ یقیناََ گیم چینجر منصوبہ ہے۔ یہ پروجیکٹ نہ صرف ملکی معیشت، سیاست اور سیکورٹی میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے بلکہ علاقائی طاقت کے نئے توازن کا رخ بھی طے کرے گا۔ آپ اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگا لیجئے کہ پاک بحریہ نے گوادر پورٹ کی سیکورٹی کے لئے باقاعدہ ایک ٹاسک فورس قائم کر رکھی ہے۔ اس ٹاسک فورس کو 88کا نام دیا گیا ہے۔جس کا مقصد گوادر پورٹ کو سمندری خطرات سے تحفظ فراہم کرنا اورآنے جانے والے تجارتی جہازوں کی حفاظت کرنا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک برطانوی جریدے نے گوادر پورٹ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ میں لکھا گیا گوادر مستقبل کا دوسرا دبئی بن سکتا ہے۔ یہ پاکستان اور چین دونوں کا مستقبل ہے اور اس سے ایشیا میں طاقت کا توازن بھی بدل سکتا ہے۔ اخبار نے لکھا گوادر شہر میں سرمایہ کاری سے دونوں ممالک کو بہت فائدہ ہوگا۔ خاص طور پر پاکستان کو توانائی کے شعبے میں بہت مدد ملے گی۔ پاکستان جو گزشتہ ایک دہائی سے بجلی کے سنگین ترین بحران سے دوچار تھا۔ اسے اس بحران سے چھٹکارے کیلئے 30سے 35ارب درکار تھے اور پاکستان کے اپنے وسائل اجازت نہیں دیتے کہ وہ اس بحران کو ختم کر سکے۔ گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور سی پیک کی تکمیل سے پاکستان کی توانائی کی مشکلات حل ہو جائیں گی۔ چین کی سرمایہ کاری سے پاکستان کوجہاں توانائی کا یہ بحران ختم کرنے میں مددملے گی وہیں قومی معیشت میں مجموعی طور پر بہتری آئیگی اور اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ کی تکمیل سے چین ایک مختصر راستے کے ذریعے اپنا مال یورپی منڈیوں تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائیگا۔ گوادر پورٹ کو اتنی اہمیت اسلئےحاصل ہےکہ اول تو یہ بندرگاہ انٹرنیشنل روٹ پر واقع ہے۔ بحیرہ عرب میں دنیا کو تیل سپلائی کا جو روٹ ہے یہ اس روٹ پر واقع ہے۔ دوسری اس کی گہرائی ہے۔ یہ ساحل سے 14میٹر گہری ہے۔ اگر میں سادہ الفاظ میں آپ کو سمجھائوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بندرگاہ کے کنارے سے نیچے یہ 14میٹر گہری ہے اور اس گہرائی کی وجہ سے بحری جہاز بندرگاہ کے ساتھ آ کر لنگرانداز ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں عموماً ایسی بندرگاہیں بہت کم ہیں جہاں بحری جہاز پورٹ کے ساتھ آ کر لنگرانداز ہو سکیں، جن بندرگاہوں کی گہرائی کم ہوتی ہے وہاں بحری جہاز بندرگاہ سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں اور پھر جہاز سے پورٹ تک سامان لانے اور لے جانے میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے پھر یہ کہ، گوادر پورٹ گرم پانیوں کی بندرگاہ ہے۔ یہاں سال کے 12مہینے آمدورفت جاری رہے گی، گرم و سرد موسم کی وجہ سے بندرگاہ کے کام میں خلل واقع نہیں ہوگا۔ اسی طرح اس بندرگاہ کی فعالیت سے پاکستان اور چین کو دوسری ریاستوں سے روابط استوار کرنے میں آسانی ہو گی۔ مختصر ترین روٹس سے دونوں ممالک اپنی مصنوعات یورپ تک پہنچا سکیں گے اور دنیا سے بھر منگوائی جانے والی مصنوعات انتہائی ارزاں نرخوں پر برآمد کر سکیں گے۔ گوادر پورٹ کی تکمیل سے ایران اور دبئی کی پورٹ کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ اس سے قبل آبنائے ہرمزپر صرف دبئی اور ایران کی پورٹس قائم تھیں۔ مطلب خلیجی ریاستوں کی تیل کی برآمدات کا واحد راستہ آبنائے ہرمز ہی ہے اوراگر کل کلاں امریکہ آبنائے ملاکہ کو بند بھی کر دے تو چین اور پاکستان کے لئے بحیرہ عرب کا راستہ کھلے رہے گا۔ پاکستان اس بندرگاہ کے ذریعے تیل کی ترسیل کے لئے گزرنے والے جہازوں کی مانیٹرنگ بآسانی کرسکتا ہے۔ یوں پاکستان جنوبی ایشیائی خطے میں اس بندرگاہ کی وجہ سے سب سے زیادہ اہم جیواسٹرٹیجک پوزیشن کا حامل ہے۔ اس بندرگاہ کی فعالیت سے جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے ممالک کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تعمیراور تجارتی سرگرمیوں سے خطے کے تمام ممالک افغانستان، ایران ترکمانستان،قازقستان، عمان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر اور چین میں نئے معاشی دور کا آغاز ہوجائے گا اور پاکستان کی معاشی ترقی کو پر لگ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے دشمن اس بندرگاہ اور سی پیک منصوبے کو ناکام کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ خاص طور پر امریکہ، اسرائیل اور بھارت پاک چین اس منصوبے سے خوفزدہ ہیں، انہیں خدشات لاحق ہیں اگر یہ پورٹ مکمل طور پر فعال ہو گئی تو اس سے جہاں چین کی طاقت کو مزید توانائی ملے گی وہیں پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا اور آپ جانتے ہیں جب بھی کوئی ملک معاشی طور پر خودکفیل ہو جاتا ہےوہ بین الاقوامی اداروں کے چنگل سے نکل جاتا ہے، یہ امداد اور قرض لینے سے آزاد ہو جاتا ہے۔ بین الاقوامی طاقتوں کا یہ قدیم طرز عمل رہا ہے وہ اپنی چوہدراہٹ کے لئے دوسرے ممالک اور ریاستوں کو معاشی طور پر کنگال کر کے رکھتی ہیں۔ وہ انہیں بھیک پر لگائے رکھتی ہیں تا کہ وہ سراٹھانے کے قابل نہ ہوں، عالمی استعمار کےمعاشی جال میں ہم بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارا مالیاتی خسارہ اس وقت بھی 4.8فیصد تک پہنچ چکا ہے۔پاکستان کے غیرملکی قرضے 89 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے۔ گزشتہ سال بیرونی قرضوں میں 13ارب 13 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا۔ طویل المدتی قرضوں کا حجم 59 ارب 45 کروڑ ڈالر ہے اور آئی ایم ایف کے قرضوں کا حجم 5 ارب 91 کروڑ ڈالر سے تجاوز کررہا ہے۔ یہ کیا ہے ؟ یہ ہے عالمی استعمار کا وہ کھیل جس کا ہم بری طرح شکار ہو چکے ہیں۔ اگر ہم نے گوادر بندرگاہ کو مکمل فعال کر لیا، اقتصادی راہداری کو تکمیل تک پہنچا دیا تو یقین مانیے پاکستان کو خوشحال ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

تازہ ترین