• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا روسی سفارتکاروں کی بین الاقوامی سطح پر بے دخلی کی قیادت کررہا ہے

امریکا روسی سفارتکاروں کی بین الاقوامی سطح پر بے دخلی کی قیادت کررہا ہے

واشنگٹن : کترینہ مینسن

برسلز: مائیکل پیل

ماسکو: کیتھرین ہلی

امریکا کی زیر قیادت برطانیہ کے قریبی اتحادی برطانیہ کی سرزمین پر سابق جاسوس پر اعصاب کو متاثر کرنے والے کیمیائی حملے میں مبینہ کردار ادا کرنے کیلئے کریملن کو تنہا کرنے مقصد کے تحت 100 سے زائد روسی عہدیداروں کو مشترکہ منظم سفارتی کارروائی میں ملک بدر کر دیں گے۔

ڈونلڈ ترمپ جو سرگی اسکرپل پر اعصابی ایجنٹ حملے کو ماسکو سے منسلک کرنے کیلئے سست روی کا شکار رہے اور کریملن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کے حوالے سے تنقید کی زد میں رہتے ہیں،سب سے زیادہ سفارتکاروں کو ملک بدر کررہے ہیں۔انہوں نے واشنگٹن میں امریکی سفارتخانے اور اقوام متحدہ مشن میں 60 روسیوں کو ملک چھوڑنے کیلئے ایک ہفتہ کی مہلت دی ہے۔

امریکی حکام نے کہا کہ وہ انٹیلیجنس افسر تھے جو سفارتی آڑ کے تحت کام کررہے تھے۔

تاہم تھریسامے، برطانوی وزیراعظم جنہوں نے اپنے دعویٰ کہ سرگی اسکرپل حملے کے پیچھے کریملن تھا کیلئے حمایت حاصل کرنے کیلئے دو ہفتے خرچ کئے، کیلئے روسیوں کی ملک بدری کے اعلان میں فرانس،جرمنی،اٹلی،پولینڈ اور کینیڈا سمیت نیٹو کے ہر بڑے اتحادی کی جانب سے امریکا کو شامل کرنا ایک اہم سفارتی کامیابی ہے ۔

آسٹریلیا نے منگل کو مذمت کرتے ہوئے غیراعلانیہ انٹیلی جنس آفیسرز کے طور پر شناخت پر دو روسی سفارتکاروں کو ملک بدرکردیا۔

تھریسامے نے کہا کہ منظم اقدام،جس میں غیر نیٹو ارکان یوکرائن،فن لینڈ اور سویڈن شامل ہوئے، تاریخ میں روسی انٹیلی جنس افسروں کی سب سے بڑی اجتماعی ملک بدری تھی۔

اس نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ مغرب کے تعلقات میں کمی کی بھی نشاندہی کی ہے۔جو پہلے ہی 2014 کے کریمیا الحاق کے بعد سے سردجنگ نادر کے مقام پر تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ سمیت متعدد نیٹو ممالک میں دوبارہ عوامی بغاوت کے طور پر سامنے آیا ہے،جنہوں نے ماسکو کے ساتھ مفاہمت پر زور دیا ہے۔

روسی وزیر خارجہ نے ملک بدری کو اشتعال انگیز علامت جو صرف بحران میں اضافہ کرے گی، قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج جاری کیا۔وزارت نے کہا کہ ملک بدری نتائج کے بغیر نہیں رہے گی اور ہم اس کا ردعمل ظاہر کریں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکا کی یہ کارروائی ان کی سب سے سخت کارروائی ہے، جو کہ برطانوی حکومت کیلئے ایک امداد کے طور پر آئی ہے۔ ریکس ٹلرسن کے رواں ماہ عہدے سے برطرفی سے پہلے تک لندن روس مخالف مؤقف پر برقرار رہنے کیلئے ریکس ٹلرسن پر انحصار کررہا تھا۔

برطانیہ نے گزشتہ ہفتے لندن میں روس کے سفارتخانے سے 23 سفارتکاروں کو نکال دیا اور اس کے بعد سے حملے کے پیچھے کریملن تھا کے دعویٰ کی بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے کام کیا۔ماسکو نے سرگی اسکرپل حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔

دو دن کی شدید سفارتکاری کے بعد تھریسامے نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ اگر کریملن کا مقصد مغربی اتحاد کو تقسیم اور خوفزدہ کرنا ہے،تو پھر اس کی کوششیں بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔

امریکی اہلکار،جنہوں نے روس کو سیٹل میں اپنا قونصل خانہ بند کرنے کا حکم دیا تھا، نے واضح کردیا کہ ان کی ملک بدری کے احکامات نہ صرف سرگی اسکرپل اور ان کی بیٹی یوولیا پر 4 مارچ کو سلسبری میں حملے کیلئے نہیں تھے۔ ایک امریکی عہدیدار نے کہا کہ دوسرے ممالک کی سلامتی اور خودمختاری کیلئے روسی کی وسیع پیمانے پر بدنیتی پر مبنی توہین کا ردعمل اور اس کے باقاعدہ جارحانہ اور غیر مستحکم کرنے والی کارروائیوں کا جواب تھا۔

اسملک بدری کو یورپ بھر میں منظوری نہیں ملی، متعدد عوامیت پسند رہنماؤں نے کارروائیوں پر اعتراض کیا۔ اٹلی کی جہوریت پسند لیگ پارٹی کے رہنما ماٹیو سالوینی، جو انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کرنے کے بعد حکومت تشکیل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، نے بھی اس اقدام پر تنقید کی ہے۔ ماٹیو سالوینی نے کہا کہ روس کو تنہا اور اس کا بائیکاٹ کرنا،اقتصادی پابندیوں کی تجدید اور سفارتکاروں کی بے دخلی مسئلے کا حل نہیں بلکہ انہیں مزید بدتر بنادیں گی۔

رجعت پسند قوم پسندوں کے ساتھ اتحادی حکومت بنانے والی آسٹریا کے چانسلر سیبسٹیئن کرز نے کہا کہ وہ کسی سفارتکار کوملک بدر نہیں کریں گے انہوں نے ٹوئتر پر لکھا کہ بلکہ ہم مشرق اور مغرب کے درمیان پل تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور روس کے ساتھ بات چیت کے تمام راستے کھلے ہیں۔

یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ روس کے خلاف یورپی حکومتوں کی جانب سے اضافی، مشترکہ جوابی اقدامات آنے والے ہفتوں میں خارج نہیں ہونا چاہئے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ جین یوس لی ڈرین نے کہا کہ سالسبری حملے نے ہماری اجتماعی سلامتی اور بین الاقوامی قانون کو سنگین خطرہ میں ڈال دیا۔

سرگی اسکرپل پر حملے کے بعد سے واشنگٹن کے ساتھ برطانوی سفارتکاری کی قیادت تھریسامے ، ان کے قومی سلامتی کے مشیر مارک سیڈول اور وزیرکارجہ بورس جانسن نے کی۔ برطانوی حکام نے کہا کہ مسٹر جانسن نے ہفتے کے اختتام پر قائم مقام اسٹیٹ سیکرٹری کے ساتھ ساتھ وائٹ ہاؤس میں سینئر شخصیت جان سلیوین سے بات کی۔

سینئر امریکی حکام نے کہا کہ ملک بدری کا فیصلہ یقینا ڈونلڈ ٹرمپ کا تھا۔جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ولادی میر پیوٹن کے ساتھ پرجوش بات چیت کے بعد سےبات نہیں کی تھی۔جس مسئلے میں وہ شروع سے ملوث تھے یہ اس کا فیصلہ تھا اور جو اپنی ٹیم کے ساتھ گزشتہ ہفتے متعدد ملاقاتوں کے بعد ذاتی طور پر کیا۔

واشنگٹن میں روسی سفیر کو ملک بدری کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا۔ امریکا نے کہا کہ ملک بدر کئے جانے والوں میں سے 48 روسی سفارتخانے میں اور 12 روسی نیویارک میں اقوام متحدہ کے مشن میں خدمات انجام دے رہے تھے۔انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ وہ سفارتی استثنیٰ کی آڑ میں چھپ کر کام کررہے تھے۔

روس میں اس کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو نشانہ بنانے والے انتقامی اقدامات کیلئے امریکا تیار ہے، جو سرد جنگ کی انتہا کی یاد تازہ کرتے ہوئے جیسے کو تیسا بے دخلی کی لہر پیدا کرسکتی ہے۔

روسی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی وفاقی کونسل میں بین الاقوامی تعلقات کیلئے کمیٹی کے نائب سربراہ ولادی میر دوزواباروف نے کہا کہ ماسکو اتنی ہی تعداد میں امریکی سفارتکاروں کو باہر نکال کر جواب دے گا۔

روس کی ریاستی خبر رساں ایجنسی ریا نے جیسا انہوں نے کہا ویسے بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ واضح ہے کہ ان اقدامات کو مثال بنایا جائے گا، کہ وہ اتنے عملے کوہی متاثر کرے گا جتنی کہ ہمارے سفارتی مشن کی تعداد تھی۔

جرمنی،فرانس اور پولینڈ میں سے ہر ایک نے چار روسی سفارتکاروں کو بے دخل کیا جبکہ ہالینڈ اور اٹلی نے دو کو بے دخل کیا۔ امید ہے کہ ایستونیا، لیتھویا، ڈنمارک، سویڈن، رومانیہ،کروشیا اور جمہوریہ چیک بھی اس کی پیروی کریں۔ کینیڈا نے چار روسی سفیروں کو ملک چھوڑنے کا حکم جاری کیا اور یوکرین نے 13 سفیروں کو نکالا۔

برلن نے کہا کہ اس نے برطانیہ کے ساتھ یکجہتی کی مضبوط علامت کے طور پر فیصلہ کیا ۔ وزارت خارجہ نے کہا کہ اس سے جرمن حکومت کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے قریبی ساتھیوں اور اتحادیوں پر حملے کا جواب دئے بغیر نہیں چھوڑنا۔

اس نے مزید کہا کہ جرمن حکومت کے محفوظ آئی ٹی سسٹم کے خلاف حالیہ سائبر کارروائی کے پس منظر کے خلاف اس نے اپنا فیصلہ کیا ، جس کا ہماری موجودہ معلومات کے مطابق روس کی جانب سے کئے جانے کا انتہائی امکانات تھے۔

امریکی حکام نے کہا کہ امریکا میں موجود 100 روسی انٹیلی جنس اہلکاروں میں سے 40 سے زائد امریکی سرزمین چھوڑ رہے ہیں۔ انتظامیہ کے تیسرے سینئر اہلکار نے کہا کہ روس کی صلاحیتیں پھر بھی کم ہوجائیں گی اور اگر ضروری ہوا تو ٹرمپ انتظامیہ مزید اقدامات کرنے پر غور کرے گی۔

تازہ ترین