اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، کبھی نہیں ہوا، نقصان اس میں بہت زیادہ ہے، رائے کے اظہار پر پابندی لگانے میں۔ پہلے بھی ایسا کیا گیا، کئی بار ہوا، آخر ی حساب میں نقصان ہی ہوا- یہ سب کچھ کرنے والوں نے نام کمایا نہیں، ہاں گنوایا ضرور۔ اور اجتماعی نقصان قوم کا ہوا، ہر طرح سے۔ افسوس کہ سبق کوئی نہیں سیکھتا، عبرت حاصل کرنا تو دور کی بات ہے۔ ملک کی قسمت اس معاملہ میں خراب ہی رہی۔ باگ ڈور جن کے ہاتھ لگ گئی انہوں نے جانا سب کچھ ان کا ہے ،اختیار بھی اور ملک بھی۔ وہ جن کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیا گیا، انہیں کبھی اس قابل سمجھا نہیں گیا کہ معاملات کا فیصلہ وہ کریں، یا کم از کم انہیں اعتماد میں لیا جائے۔ عوام ہمیشہ ان کے مذموم مقاصد پورے کرنے کی راہ میں آڑے آتے رہے ہیں، یا یہ خطرہ رہا کہ آڑے آجائیں گے۔ اسی لئے ہمیشہ حقیقت اُ ن سے چھپائی گئی، رائے کے اظہار پر پابندی لگا ئی گئی، لگائی جاتی رہی۔ سچ کا گلا گھونٹا گیا۔ صحافتی تاریخ کی کتابیں ایسے سیاہ کرتوتوں کی تفصیلات سے بھری پڑی ہیں۔ ان پابندیوں سے پہنچنے والے نقصانات کا بھی تذکرہ ہے، اور بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ بھی گیا ہے۔ ضمیر نیازی کا نام یاد آتا ہے،بڑی محنت سے انہوں نے صحافتی تاریخ لکھی۔
قصہ بہت پہلے سے شروع کیا جاسکتا ہے، یا کہیں سے بھی بات کا سرا پکڑا جا سکتا ہے۔ اَلَم تو اس قوم پر شروع ہی سے توڑے جاتے رہے۔ پاکستان بنتے ہی بانی پاکستان کی تقریر میں کاٹ چھانٹ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی میں ایک تقریر کی تھی۔ اس میں نئے ملک کی بنیادی پالیسی پر اظہار خیا ل کیا ۔ دیگر باتوں کے علاوہ انہوں نے کہا تھا : ’’ آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں، آپ اس ملک پاکستان میں اپنی مساجد میں یا دوسری کسی بھی عبادتگاہ میں جانے کے لئے آزاد ہیں. . . ‘‘۔(مختصراً) قائد کی تقریر میں سے اس حصّے کو اخبارات میں شائع ہونے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر، الطاف حسین بہت برہم ہوئے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ احکامات کس نے دیے۔ پتہ چلا کہ اس وقت کے پرنسپل پبلک ریلیشن افسر مجید ملک نے فون پر اخبارات کو یہ ہدایت دی تھیں،انہوں نے کہا کہ اگر انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ ہدایت کس کے حکم پر جاری کی گئی ہے تو وہ اسی وقت قائد اعظم کے پاس جا کر انہیں بتادیں گے ۔ ان کی دھمکی کے بعد یہ ہدایت واپس لی گئی اور یہ ممکن ہوا کہ اخبارات میں بانی پاکستان کی تقریر قطع و برید سے محفوظ رہ گئی۔ ( سبق حاصل کرناہو تو اس واقعہ کی تفصیل ضمیر نیازی کی The Press in Chains میں دیکھ لینی چاہئے۔ )
مادر ملت ، محترمہ فاطمہ جناح ،قائداعظم کی ہر برسی پر ایک تقریر کیا کرتی تھیں۔ قائد کی تیسری برسی پر ان کی تقریر کے بعض حصے ریڈیو پاکستان کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل، زیڈ اے بخاری کو پسند نہیں آئے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان جملوں کو نکال دیا جائے۔ محترمہ نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ ریڈیوپاکستان سے انہوں نے اپنے تقریر کی اور ان کا خیال تھا کہ ساری تقریر نشر ہو گئی ہے۔ 11ستمبر 1951 کو مگر ایسا ہوا نہیں تھا۔ سننے والوں نے سنا کہ تقریر کے کچھ حصے نشر ہی نہیں ہونے دیئے گئے۔ پورے ملک میں اس پر احتجاج ہوا۔مادر ملت نے قائد کی اگلی برسی پر احتجاجاً تقریر نہیں کی۔
ان واقعات سے ہٹ کر ذرا آگے جائیں تو ذرائع ابلاغ کا گلا گھونٹنے کی منظم کوشش ایوب خان کے دور میں انتہا کو پہنچی۔ ان ہی کے دور میں پریس اینڈ پبلیکیشن آڑڈی نینس (پی پی او) نافذ کیا گیا۔ ظالمانہ اختیارات سرکاری اہلکاروں کو دیے دئے گئے۔ اخبارات اور جرائد کی ایک طویل فہرست ہے جن کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ کافی اپنی جان سے گئے۔ خون کی پیاس پھر بھی نہیں بجھی تو نیشنل پریس ٹرسٹ بنایا گیا۔ اس عفریت نے ملک کے کئی بڑے اخبار اور جریدے تباہ و برباد کردیے۔سرکار کے قبضے میں لئے جانے والے اخبارات سب اپنا اعتماد کھو بیٹھے۔ جھوٹ پر کون یقین کرتا ہے اور کیوں کرے۔ ٹرست کے اخبارات آہستہ آہستہ دم توڑ گئے۔ان میں سے کم ہی لوگوں کو یاد ہوں گے۔
یحییٰ خان کا دور تو ہر اعتبار سے اس ملک کا المیہ ہے۔ مشرقی پاکستان میں وہ جو کچھ کررہے تھے عوام کو اس سے لا علم رکھنا ضروری سمجھا گیا تھا۔ ذرائع ابلاغ پر پابندی لگائی گئی جو اس ملک کے دو لخت ہونے کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی۔ سچ پر پابندی لگی تو اس کی سوتیلی بہن، جھوٹ، کا جادو سر چڑھ کے بولا۔ تاریخ کو خوب مسخ کیا گیا۔ کوتاہی ہماری تھی، فائدہ دشمن کو اٹھانا ہی تھا۔ بھارت نے پاکستان دشمن پروپیگنڈے میں بیرونی ذرائع ابلاغ کی خوب مدد کی۔ غلط سلط، من گھڑت خبریں غیر ملکی اخبارنویسوں کو فراہم کی گئیں۔ آج بھی ان کا پول کھولنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر چڑیوں کو کھیت چگے دہائیاں بیت گئیں۔ اصل مسئلہ تو وہی ہے جس کی جانب اب پھر اشارہ کیا جا رہا ہے۔ رائے کے اظہار پر پابندی سے بچا جائے۔ عوام کو حقائق سے آگا ہ رکھا جانے دیا جائے۔ پہلے ایسا نہیں ہوا تھا۔ انہیں پتہ ہی نہیں چلنے دیا گیا کہ ملک کے مشرقی بازو میں کیا ہورہا ہے۔ انہیں تو ملک ٹوٹنے کی خبرسے بھی صحیح طرح آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی او ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر جب اقتدار کا اصل مزا چکھا تو سب بھول گئے۔ پی پی او برقرار رہا اور نیشنل پریس ٹرسٹ بھی۔ جس اخبار نے ان سے اختلاف کیا اس کے خلاف کارروائی کی گئی، ڈیکلریشن منسوخ کردیا گیا۔ ایڈیٹر اور پبلشر جیل میں ڈال دئے گئے۔ ان کا نشانہ بننے والوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ ان کی پارٹی کو کبھی اس پر شرمندگی نہیں ہوئی۔ جمہوریت کے دعوے ہی دعوے تھے۔ عملاً آمریت تھی۔ بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ضیا الحق نے اقتدار سنبھالا۔ اظہار کی آزادی سے اسے بھی اُتنی ہی چڑ تھی، بلکہ کچھ زیادہ ہی۔ اُس کے دور میں بھی اخبارات پر پابندیاں لگائی گئیں۔ بھٹو کے دور میں سنسر لگا تھا۔ اخبارات نے سنسرشدہ جگہ خالی چھوڑنی شروع کردی۔ اخبارات کے تقریباًسارے کے سارے صفحات سادہ ہوتے تھے۔ عوام کو اندازہ ہو جاتا خبریں اور مضامیں سنسر کئے گئے ہیں۔ ضیا کے حواری زیادہ چالاک تھے۔ انہوں نے خالی جگہ چھوڑنے پر بھی پابندی لگادی۔ اخبار والے کتابت شدہ خبریں ساتھ لیجاتے تھے۔ نیم خواندہ افسر اطلاعات کو جو خبر پسند نہ آتی نکال دیتا۔ اس کی جگہ دوسری خبرلگائی جاتی۔ یوں جو اخبار عوام کے ہاتھوں تک پہنچتا ’مکمل‘ ہوتا، ہوتا کیا، لگتا تھا۔ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کچھ سنسر ہوا ہے۔ یہ اندازہ کیسے ہوتا کہ کیا سنسر کی نذر ہو گیا۔
اور یہ تو ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے کئی ٹی وی چینل بند کردئے۔ اس کی آمریت اور منتقمانہ مزاج اختلاف کہا ں برداشت کرسکتا تھا۔ اس ملک پر جو عذاب ابتدا میں نازل ہوا، یعنی جب قائداعظم کی تقریر میں کاٹ چھانٹ کرنے کی کوشش کی گئی، مادر ملت کی تقریر میں سے کچھ حصے نشر نہیں ہونے دئے گئے، وہ رویہ جاری رہا۔ اس سے گریز کسی نے نہیں کیا۔ ہاں، جبر میں اضافہ کی خواہش رہی، اکثر اس کی تکمیل بھی ہوئی۔ شاید ہی کوئی دور ایسا آیا ہو جب حکمرانوں نے اظہار رائے کی آزادی کچلنے کی کوشش نہ کی ہو۔ جمہوری حکومتیں بھی اس الزام سے مبرّا نہیں ہیں۔ اپنے اپنے انداز رہے ہیں۔ کبھی اشتہارات پر پابندی لگادی، کبھی نیوزپرنٹ کا کوٹہ کم یا ختم کرکے سزادی گئی۔ مگر ہوا کیا؟ حتمی نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ لفظ کی حرمت کے مخالفین کا انجام عبرتناک ہو اہے ۔اسی سے کوئی سبق حاصل کرلیں۔ جبر کرنے والے سب چلے گئے، ذرائع ابلاغ باقی رہ گئے کہ وہ باقی رہنے ہی کے لئے ہیں۔
دنیا بھر کے عقلمند اختلاف رائے کو ایک نعمت سمجھتے ہیں، اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی اسے رحمت ہی قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح درست بات تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔ اختلاف سے چڑنے والے، شتر مرغ کے قبیل سے ہوتے ہیں۔ ریت میں منہ دینے سے خطرہ ٹلتا نہیں۔ جو بھی جہاں بھی ہیں، کبھی اختلاف رائے کی لذّت سے آشنا ہو کر دیکھیں، انہیں اندازہ ہوگا یہ ایک بہتر راہ ہے اور مہذب معاشروں میں پسندیدہ بھی۔ ورنہ نقصان ہی نقصان ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)