خاتون فوجی سربراہ کی بات کی جائے تو جھانسی کی رانی ،رضیہ سلطانہ سے جون آف آرک تک تاریخ عورتوں کی جرئت و بہادری کی داستانوں سے بھری پڑی ہے اور آج بھی خواتین افواجِ عالم میں اپنی خدمت اور جنگ جوئی کے حوالے سے مردوں کے شانہ بشانہ خدمات سر انجام دے رہی ہیں،جن کی خدمات کا دائرہ پاکستان سمیت تمام برِ اعظم میں پھیلے ممالک تک وسیع ہے،جہاں وہ جنگ اور امن کے حالات میں طبی خدمات،سول سروسز،آٹی ٹی، سائبر وار ،اکاؤنٹس وغیرہ میں اپنی صلاحیت سے ثابت کررہی ہیں کہ وہ بھی کسی سے کم تر نہیں۔
پاکستان
پاکستان کا شمار عالم اسلام کے واحد ملک میں ہوتا ہے جہاں خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا گیا۔قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی خواتین پاک فوج کے ہم قدم رہیں۔1948 میں کشمیر کے تنازعے پر پاک بھارت جنگ کے دوران خواتین نے پاک فوج کے جوانوںکی طبی خدمات کا بیڑاخاتونِ اول بیگم رعنا کی سربراہی میں اٹھایا اور زخمی سپاہیوں کے علاج معالجے،مرہم پٹی کے ساتھ سامانِ رسد بھی فراہم کیا۔
بعد ازاں ان خواتین کو باقاعدہپاکستان آرمی کور آف میڈیکل میں ویمن یونٹ قائم کرکے انہیں فائز کیا گیا۔2002میں شاہدہ ملک کو 2اسٹار رینک پر ترقی دی گئی جو پہلی خاتون جنرل ہوئیں۔دوسرے نمبر پرشاہدہ بادشاہ کو جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔جب کہ نگار جوہر تیسری خاتون ہیں جنہیں2017میں جنرل کے عہدے پر فائز کیا گیا۔پاکستان آرمی میڈیکل کور کی لیفٹیننٹ کرنل شاہدہ اکرم بھرگڑی سندھ سےپہلی خاتون تھیں جنہوں نےپاک فوج میں نطور معالج خدمات سرانجام دیں۔ 24جولائی 2013پاک فوج کا وہ تاریخی دن ہے جب 24 خواتین افسران نے پیراشوٹ ٹریننگ اسکول سے ٹریننگ حاصل کرکے پیرا شوٹنگ کا شاندار مظاہرہ کیا۔یہ زیادہ تر ڈاکٹر اور سافٹ ویئر انجنیئرز ہیں جن کی پیشہ ورانہ مہارت دیکھ کر کئی ممالک کی افواج نے اعتراف کیا کہ پاکستان بہادر اور ذہین لوگوں کی سرزمین ہے۔
اسی طرح 2006 بھی پاک فضائیہ فوج میں خواتین کی شمولیت کے حوالے سے یادگار رہے گا جب خواتین جنگجو پائلٹس کا پہلا گروپ شامل ہوا۔ان میںایف سیون کی روٹین پرواز کے دوران جامِ شہادت نوش کرنے والی مریم مختار کا دکھ پورے پاکستان کو سوگوار کر گیا جب کہ چینگ ژوجے ایف جنگجو طیارے کی کامیاب پرواز کرنے والی فلائٹ لیفٹیننٹ عائشہ فاروق اس وقت سب کی دعاؤں کا مرکز ہیں۔
افغانستان
افغان فوج کی تاریخاٹھارہویں صدی کے ابتدائی دنوں سے شروع ہوتی ہے جسے جدید خطوط میں ڈھالتے ہوئے صدر حامد کرزئی نےیکم دسمبر2002 کوافغان نیشنل آرمی کا نام دیا تو اس میں خواتین کے لیے راہیں ہموار ہوئیں۔
اس سے قبل افغانستان کے قدامت پرست معاشرے میں فوج میں خواتین کی شمولیت کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور اس وقت اس فوجی دستے میں سترہ سو خواتین اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں اور انہیں خدمات کی طفیل افغان نیشنل آرمی میں پہلی خاتون جنرل ہونے کا اعزاز خاتول محمد زئی نے حاصل کیا ہے جو ابتدائی ادوار سے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے رہی تھیں۔اس اہم عہدے پر ان کی تعیناتی کو اہم تبدیل گردانا جا رہا ہے جس کے روشن اثرات افغانستان کے مستقبل پر پڑیں گے۔
متحدہ عرب امارات
عرب دنیا میں جدت اور اختراع سازی کی اہم مثال متحدہ عرب امارات ہے جو مغرب کے ہم دوش ترقی کا ماڈل بن کر ابھرا جس کے اثرات سعودی عرب کی جدت پر پڑے اور آج مکہ و مدینہ ،جدہ و ریاض جدت کا رنگ لیے نظر آتے ہیں اور متحدہ کی دیکھا دیکھی عورتوں کی آزادی کے لیے بھی اقدام ہورہے ہیں جیسے ڈرائیونگ پر پابندی تھی جو اٹھالی گئی اور اب غیر فوجی خدمات کے لیے سعودی فوج خواتین کو بھی بھرتی کررہی ہے جو امارات کی اس تقلید کی پیروی ہے کہ جہاںعرب دنیا میں پہلی خاتون فائٹر پائلٹ مریم المنصوری کو تعینات کیا گیا ہے جس کا چرچا دنیا بھر مین ہوا کہ اب عرب دنیا یورپ کے ہم مقابل ہوگئی۔
امارات کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ خلیج کے خطے میں خواتین کے لیے خوالہ بنت الاظوار کے نام سےپہلا ملٹری ٹریننگ اسکول یہیں قائم ہوا جس کی داغ بیل 1991میں ڈالی گئی۔تب سے اب تک خواتین اماراتی فوج کا لازمی جزو اور اس بات کی دلیل ہیں کہ خواتین اپنی قابلیت و ذہانت اور استقامت میں مردوں سے کم نہیں۔