عمارہ ارشد
کہا جاتا ہے کہ عورت کے بغیر معاشرے میں ترقی ممکن نہیں‘‘
’’اسی لیےمشہور جرنیل نپولین کا کہنا ہے کہ تم مجھے پڑھی لکھی ماں دو، میں تمہیں تربیت یافتہ پڑھی لکھی قوم دوں گا‘‘
عورتوں کا موضوع ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے۔ تاریخی اعتبار سےبھی مرد کو ہمیشہ برتر اور عورت کو اس کے ماتحت سمجھا جاتا ہے۔ مشہور ’’مفکر ارسطو نے اپنی کتاب پولیٹکس میں لکھا ہے کہ عورتوں اور مردوں کا رشتہ ہمیشہ برتر اور کمتر کا رہا ہے اور برتر مرد کا مقصد کمترعورت پر حکمرانی کرنا ہے‘‘۔
’’مشہور مفکرافلاطون کے مطابق مرد اور عورت کا رویہ ایک جیسا ہے لیکن مرد مضبوط جبکہ عورت کمزور ہے‘‘
اور بھی کئی مفکرین عورتوں کو برابر کا درجہ دینے کے خلاف رہے ہیں۔ دیکھا جائے توعورتوں کو برابری کا تصور سب سے پہلے اسلام نے پیش کیا۔ اسلام میں جہاں عورتوں کوحقوق دیئے گئےوہیںعورت کی دیگر معاشرتی و سماجی حیثیت کا تعین کیا گیا۔ ساتھ ہی بطور ماں،بہن، بیٹی اس کے حقوق بیان کئے گئے اور وراثت کا حق بھی تفصیل سے بیان کیا گیا۔ اسلام میں مردوں کا حق ہے کہ وہ اپنے خاندان کی معاشی کفالت کریں۔ اسلام میں عورتوں اور مردوں کی تعلیم پر برابر کا زور دیا گیا ہے۔
اسلام میں ہے کہ تعلیم کی جستجو ہر مسلمان پر فرض ہے859BCمیںمسلم خاتون فاطمہ ال فہری نے مراکش میں دنیا کی پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جبکہ امریکہ میں عورتوں نے بہت بعد میں باقاعدہ یونیورسٹی جانا شروع کیا اسلام میں عورتوں کو کام کرنے اور تنخواہ بنانے کی بھی اجازت حاصل ہےجبکہ امریکہ میں عورتوں کو 1920ءتک ووٹ کا حق نہیں ملا تھامزید برآںحبشی عورتوں کو تو 1960ء تک ووٹ کا حق نہیں مل سکا تھا۔ امریکہ میں 1848ء تک عورتوں کو اپنی جائیداد بنانے کا حق حاصل نہیں تھا۔
یہاں تک کہ ان کی اپنی جائیداد بھی شادی کے بعد شوہر کی پراپرٹی شمار ہوتی تھی۔اگرچہ اسلام نے عورتوںکومغربی تہذیب سے بہت پہلے حقوق دیئےلیکن ابھی بھی وہ مکمل طور پر ان حقوق سے مستفید نہیںہو پارہی ہیں ۔آج کے جدید دور میں مغربی خواتین کو سب آزادیاں حاصل ہیں جبکہ مشرقی عورت پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔
پابندیاں نہ لگانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہیں کھلی چھوٹ دے دی جائے بلکہ پابندیاں نہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق جینے کا موقع دیا جائے۔ انہیں مردوں کے ماتحت نہ سمجھا جائے بلکہ مردوں کے برابر کام کرنے کے مواقع دیئے جائیں۔ مغربی معاشرے میں خواتین اپنی مرضی سے ووٹ ڈال سکتی ہیں۔ وہ مردوں کے ماتحت نہیں ہوتیں۔ انہیں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر میرٹ کی بناء پر براجمان کیا جاتا ہے۔اسکی بہترین مثال انجیلا مرکل ہیں جواپنی کارکردگی کی بنا پر مسلسل چوتھی مرتبہ جرمنی کی چانسلر منتخب ہوئی ہیں۔
اُسکے علاوہ امریکہ کی ہیلری کلنٹن کا نام طاقتور ترین خواتین میں آتاہےآسٹریلیا کی سابق وزیراعظم جولیاگیلارڈبھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔مغربی خواتین اپنے فیصلے خود لینے میں آزاد ہوتی ہیں۔ انہیں مردوں کے برابر حقوق دیئے جاتے ہیں۔ یہاں یہ تصور بھی عام ہے کہ مرد مشرقی عورت کو ماتحت تصور کرتا ہے جبکہ مغربی عورت کو ماتحت نہیں سمجھتا کیونکہ مغربی عورتیں آزادی سے مستفید ہوتی ہیں اور وہ اپنا حق لینا جانتی ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہےاور انہیں وہ حقوق نہیں ملتےجن کی وہ حقدار ہیں۔ کئی مشرقی ممالک جن میں عورتوں کو کمتر سمجھ کر حکومتی عہدوں پر تعینات نہیں کیا جاتا اور انہیں اعلیٰ عہدوں کیلئے غیر ذمہ دار خیال کیا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال مصر کی ہے جہاں کئی خواتین کو جنسی ہراسگی کا شکار بنایا جاتا ہے اور غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات عام ہیں۔ ایران، سعودی عرب، عراق میں بھی عورتوں کی حالت ابتر ہے ۔ پاکستان میں خواتین کو جہاں حقوق حاصل ہیں وہیں عورتوں پر کچھ پابندیاں بھی ہیں۔
سندھ کے پسماندہ علاقوں، دیہات، قبائلی علاقوں میں خواتین کو جرگہ، قبائلی سرداروں، جاگیرداروں کے زیر اثر رہنا پڑتا ہے۔ عورتوں کو ونی، وٹہ سٹا، سوارا، جیسی رسموں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ عورتوں کو جواسلام میں حقوق حاصل ہیںان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ عورتوں کو مردوں کے زیر اثر رکھا جاتا ہے تاکہ ان میں شعور نہ آئے اور جہالت کو پنپنے کا موقع ملتا رہے۔
لیکن مغربی عورتوں کی ترقی کا راز ہی ان کی آزادی میں پنہاں ہے۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ مشرقی عورتیں مغربی عورتوں کی طرح لبرل، بے باک، نڈر ہو جائیں بلکہ ضرورت صرف اس رویے کی ہے جو کہ مردوں کے رعب و دبدبہ کو بدلنا ہے اور معاشرے میں جب مرد اور عورت اکٹھے مل کر کام کریں گے تو معاشرہ تبھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
تاریخ گواہ ہے کہ عورتوں نے ہر میدان میں مردوں کا ساتھ دیا ہے۔مغربی ممالک کی کامیابی کا راز بھی مردوں اور عورتوں دونوں کے معاشرے میں کردار پر منحصر ہے۔ کوئی بھی ملک آدھی آبادی کو ان کےحقوق سے محروم کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے موجودہ رویوں کو بدلنا ہے اسلیےعورتوں کو حقوق اور آزادی دی جائے تاکہ وہ بھی ملک کی اقتصادی ترقی و تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں تاکہ انہیں کمتر اور ماتحت نہ سمجھا جائے بلکہ برابر کا گردانتے ہوئے بہترین درجہ دیا جائے۔
ملک کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار ہی اس نکتہ پر مرکوز ہے کہ عورتوں کو ہر میدان میں آگے آنے کا موقع دیا جائے اور قبائلی اور دیہات کے علاقوں میں تعلیم کو عام کیا جائے۔پارلیمنٹ میںخواتین کی شمولیت زیادہ بڑھائی جائے اُنہیں فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے کیونکہ آج کی عورت مضبوط ،تعلیم کے زیور سے آراستہ اور آگاہی کے ہتھیاروں سے لیس ہےاُسے معاشرتی و سیاسی اور معاشی حقوق دئیے جائیں۔کیونکہ ایک پڑھا لکھا انسان ہی حقوق اور آزادی کے حق میں ہوتا ہے۔
اس لیے اس ضمن میںاساتذہ کا کردار اس حوالے سے اہم ہے کہ مردوں کی ٹریننگ اس طرح کی جائے کہ اُن کے ذہن میں برتری والا تصور ختم ہو اور وہ عورتوں کو برابر کا رتبہ دیں۔میڈیا کو بھی چاہیے کہ عورتوں کے بارےمیں آگاہی مہم چلائے تاکہ عورتوں کو کم از کم اتنا حوصلہ اور ہمت ضرور دی جائے کہ وہ حقوق اور آزادی سے مستفید ہو سکیں اور اپنے حقوق کے بارے میں آگاہ ہو کر عملی قدم اٹھا سکیں۔برابری کو فروغ دینے سے ہی ہمارے ملک کا شمار بھی خواندہ اور ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا۔
اور ہمیں اس حقیقت سے کبھی آشنا نہیں ہونا چاہیےکہ ایک عورت ہی بہترمستقبل کی معمار ہےاگر ماں تعلیم یافتہ ہو تو اولاد کی تربیت بہتر طریقے سےہوتی ہے۔اب تو سعودی عرب میں بھی خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت کے ساتھ اور بھی کئی وسیع نظر پہلوئوں کو اجاگر کیا گیا ہے جو کہ خوش آئند قدم ہے۔
ہمیں بھی دیہات اور قبائلی علاقوں کی خواتین کو حقوق دینے چاہیے تاکہ ہمارے ملک میں جہالت کا خاتمہ ہو اور شعور کو فروغ ملے۔اور ہماری آنے والی نسل کا مستقبل بلند ہو۔