• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان کے بعد سندھ میں بھی ’تبدیلی ‘ آگئی

بلوچستان میں ’بلوچستان عوامی پارٹی‘ کے قیام اور خیبرپختونخوا میں ’متحدہ مجلسِ عمل‘ کی بحالی کے بعد سندھ میں بھی ’تبدیلی ‘آگئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ میں اس تبدیلی کا نام بھی ’’تبدیلی پسند پارٹی‘رکھا گیا ہے۔ پنجاب میں بھی اسی طرح کی تبدیلی کسی بھی وقت رونما ہو سکتی ہے۔

علی قاضی کی سربراہی میں قائم ہونے والی ’تبدیلی پسند پارٹی‘ کو پانچ ماہ قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ کروا دیا گیا تھا لیکن اس کے قیام کا باقاعدہ اعلان گزشتہ روز حیدرآباد میں ہونے والے جلسہء عام میں کیا گیا۔

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے سربراہ علی قاضی نے اعلان کیا کہ صوبے میں تبدیلی ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے نہیں، عوام کے ووٹوں سے آئے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ’’ہماری پارٹی جاگیردارانہ سوچ رکھنے والی پارٹیوں کے مقابلے میں ایک بہترین متبادل ہے‘‘۔

علی قاضی کے مطابق ان کی پارٹی سندھ میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی اور آگے چل کر صوبے میں سیاست کی نئی راہیں متعین کرنے میں اہم کردار اداکرے گی۔انہوں نے عام انتخابات میں سندھ کی تمام نشستوں پر اُمیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیااور دعویٰ کیا کہ سندھ کے ننانوے فیصد عوام روایتی سیاست سے تنگ ہیں اور صوبے میں تبدیلی چاہتے ہیں۔

علی قاضی کا تعلق سندھی صحافت سے تعلق رکھنے والے ایک مضبوط خاندان سے ہے لیکن وہ صحافت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی خاصی دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ انہوں نے تبدیلی کا نعرہ عمران خان سے بھی پہلے لگایا تھا۔ آصف علی زرداری کے دورہء افغانستان کے دوران جب سندھی ٹوپی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو علی قاضی ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے’ سندھی کلچر ڈے‘ منانے کا اعلان کیا۔

اسی طرح قلتِ آب کے دنوں میں علی قاضی نے ’دریا کا دن منانے ‘کی اپیل کی جس کوعوامی سطح پر بہت پذیرائی ملی اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے دریا پر پھول نچھاور کیے۔سندھی کلچر ڈے تو اب حکومتی سرپرستی میں ہر سال منایا جاتا ہے۔

جنوری 2012ء میں علی قاضی نے بھٹ شاہ میں ایک بڑے اجتماع کے ذریعے تبدیلی مہم کا آغاز کر دیا تھا جو اب جا کر’ تبدیلی پسند پارٹی‘کے نام ایک مربوط شکل میں سامنے آئی ہے۔اس وقت ان کے ساتھ ماروی میمن بھی تھیں جوبعدازاں مشرف حکومت کا حصہ رہنے کے بعداب ن لیگ کی حکومت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اب جبکہ الیکشن جیتنے کے آزمودہ کار سیاستدان پیپلزپارٹی میں جا رہے ہیں ۔ایسے میں علی قاضی کے ’تبدیلی قافلے‘ میں کون کون شامل ہوتا ہے ؟

اس کے ساتھ ساتھ ان کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کا میڈیا اونر ہونا ہے۔ان کا اپنا میڈیا ہائوس تو ان کی پارٹی کو بھرپور کوریج دے گا لیکن دیگر میڈیا ہائوسزعلی قاضی اور ان کی پارٹی کو زیادہ اہمیت نہیں دیں گے۔ 

تازہ ترین