’’آزادی کے بعد پہلے عشرے کے تاریخی تجزیے کے بغیر موجودہ پاکستان کی تفہیم ممکن نہیں۔ وہ عشرہ منتخب اور غیر منتخب اداروں کے درمیان طاقت کے تبدیل ہوتے ہوئے توازن کا دور تھا۔ اس ضمن میں مرکزی حیثیت عالمی سیاسی اور معاشی نظام کو حاصل رہی جو ریاست ِ پاکستان کی جہت کا تعین کرنے والے مقامی عوامل پر اثرات انداز ہوتا رہاہے ۔‘‘
یہ الفاظ ہمارے دور کی نامور ماہرین تعلیم اور محقق، ڈاکٹر عائشہ جلال کی دوعشرے پہلے شائع ہونے والی روایت شکن کتاب، 'The State of Martial Rule'سے ہیں۔ آج کی پاکستانی سیاست کا مطالعہ بھی اتنا ہی برمحل ہے جتناہماری تاریخ کے اُس فیصلہ کن مر حلےکا(1948/58 )جب قیام ِ پاکستان کے تصورات کو عملی شکل دینے کے لئے بہت کچھ کیا جاسکتا تھا،لیکن ہم نے وہ موقع گنوا دیا۔ آج تک اس نقصان کی تلافی نہیں ہوسکی۔ ہماری سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی آج بھی اُس دور کے آسیب کی گرفت میں ہے ۔
دیگر امور کے علاوہ ڈاکٹر عائشہ کا مقالہ غلبہ پانے کے مراحل اور حقیقی فوجی مداخلتوں کے درمیان تمیز کرتے ہوئے ا س روایتی تصور( جو آج بھی بہت مقبول ہے) کو مسترد کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری دیگر قوتوں کو ان کی جگہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحبہ کی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح عالمی مفادات علاقائی حقائق پر اثرانداز ہوتے ہیں، اورکس طرح یہ اثر پذیری پاکستان کی سیاست کو متاثر کرتی رہی ہے ۔
یہ بات آج کے پاکستان پر بھی صادر آتی ہے ۔ یہاں داخلی سیاسی انتشار، افراتفری اور غیر یقینی پن کا تعلق علاقائی اور عالمی واقعات سے جڑاہواہے ۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ عوامل ملک کو عملی طور پر ایک مارشل لا کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ پاناما، انتہائی جوڈیشل فعالیت اور سیاست دانوں کی لامتناہی دھینگا مشتی کا شور عوام کے ذہن کو مصروف ، بلکہ مفلوج رکھتا ہے ۔ اس دوران کچھ بڑے حقائق کارفرما رہتے ہیں۔ اگر داخلی انتشار اور افراتفری کی تصویر مکمل کرنی ہوتو ان حقائق کو نظر انداز نہیںکیا جاسکتا ۔
قومی سیاست کی الف لیلہ کے رازوں سے پردہ اٹھانے کے لئے بیرونی عوامل کا کھوج لگانا ضروری ہے ۔ پاکستان پر اثر انداز ہونے والے ان عوامل میں عرب دوستوں کا کردار سب سے اہم ہے ۔ عرب ریاستوںکے گروپ اور ایران کے درمیان پھیلتی ہوئی سرد جنگ کے خدوخال اب بہت حد تک نمایاں ہوچکے ہیں۔ سعودی ولی عہد نے دنیا کا ہنگامی دورہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنے ملک کا نیا امیج پیش کیا بلکہ دوستوں او ر دشمنوں کی فہرست بھی میز پر رکھ دی ۔ اُن کا عالمی دورہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ وہ آنے والے عشروں میں اپنے ملک کو کہاں کھڑا دیکھتے ہیں، اور اُن کی توپوں کا رخ کس طرف ہوگا۔ ایک بات طے ہوچکی: ایران دشمن اور اسرائیل دوست ہے ۔ اسی طرح امریکہ بھی دوست ہے ۔ ترکی کی حیثیت کا تعین ہونا باقی ، لیکن برادر ملک کا خیال ہے کہ آنے والے مہینوں میں انقرہ تہران کے قریب کھڑا دکھائی دے گا۔
متحدہ عرب امارات کا کردار اس کھولتی ہوئی صورت ِحال میں بہت فعال ہے ۔ اس کے عملی اقدامات بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ وہ سعودی عرب کے ساتھ، بلکہ بعض امور میں ا س سے بھی دوقدم آگے کھڑا ہے ۔ ٹرمپ کا امریکہ اب جنگجو عقاب، جان بولٹن کو نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کے اہم منصب پر فائز کرتے ہوئے اپنی ترجیحات کا اعلان کرچکا ہے ۔ اب یہ بات ناگزیر دکھائی دیتی ہے کہ ایران پر پڑنے والے دبائو کوسعودی عرب اور یو اے ای اور خلیج میں پائے جانے والے عمومی تصور کی بھرپور حمایت حاصل ہوگی۔ اس بساط کا سب سے بڑا ہدف ایران ہوگا۔
روایتی طور پر عربوں کے ساتھ وابستہ رہنے والے پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ تہران کے خلاف واضح طور پر کھڑا دکھائی نہ دے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے فی الحال اپنے دیرینہ مہربان کو واضح الفاظ میں جواب نہیں دیا ہے ۔لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ پاکستان کی یہ کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد اسلامی ممالک کی فوج کی قیادت کرنے کی اجازت دی گئی۔ ہم نے اس فیصلے پر تنقید کی۔ آج سوچیں یہ ایک بہت زیرک فیصلہ دکھائی دیتا ہے۔ جس دوران ہم اس پیش رفت کو ایک طاقتور شخص کے ذاتی ایجنڈے کے تناظر میں دیکھ رہے تھے ، لیکن اس پیش رفت نے اسلام آباد کے بارے میں برادرعرب ملک کے تصورات میں نمایاں تبدیلی برپا کی۔ اُنہیں احساس ہوگیا کہ اُن کے تزویراتی شراکت دار ملک کی پارلیمنٹ میں نہیںبیٹھے ہیں۔ پارلیمنٹ نے تو سعودی عرب کی یمن میں جنگ میں فوجیں بھیجنے کی مخالفت کی تھی۔ عربوں کی روایتی نفسیات یہ ہے آپ اُن کے لئے لاکھ قربانیاں دے لیں، لیکن انکار تمام پر پانی پھیر دے گا۔ اور عرب دوستوں کو سویلینز نے یقیناََمایوس کیا تھا۔
سعودی عرب اور پاکستان کا نیا تعلق ملک میں امداد اور رقم کا بہائو یقینی بناتا ہے۔ لیکن یہ معاہدہ مشروط ہے ۔ اس کے لئے ہمیں سعودی عرب اور یو اے ای اور خلیج میں ہونے والی پیش رفت میں پوری توانائی اور جذبے سے شریک ہونا پڑے گا۔ یہ پاکستان کے لئے بہت بڑا اور مشکل فیصلہ ہوگا۔ کیا وہ اس پر پارلیمان میں کھلے طریقے سے بحث کرسکتے ہیں؟کیا ملک مشرق ِوسطیٰ کی دلدل میں قدم رکھنے کا متحمل ہوسکتا ہے ؟کیا وہ ایسا کرتے ہوئے غیر جانبداری کا بھرم قائم رکھ سکے گا؟ کیا اس کے معاشرے کو فرقہ واریت ادھیڑ کر نہیں رکھ دے گی؟کیا سیاسی قیادت ، جس نے اپنے حلقوں کی طرف دیکھنا ہوتاہے ، پہلے سے کیے گئے معاہدوں اور یقین دہانیوں کو اپنے سر لےسکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔
ریاستوں کے درمیان معاہدے کو منتخب شدہ نمائندوں کے ذریعے سرانجام دینا موجودہ امریکی انتظامیہ کی بھی ترجیح ہے ۔ یہ انتظامیہ پاکستان کے سامنے مشکل چیلنجزبھی رکھ رہی ہے اور اسے مواقع بھی فراہم کررہی ہے کہ وہ افغانستان اور بھارت کے ساتھ اپنے دیرینہ مسائل حل کرلے ۔ ٹرمپ انتظامیہ اچھی ڈیل کی مخالف نہیں ہے ۔ اس ضمن میں شمالی کوریا کی مثال سامنے ہے ۔ اب امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں ہونے والے تشدد کو کسی قدر قابل برداشت سطح تک لے آئے ، چاہے وہاں سے مکمل شورش پسندی اور افراتفری کا خاتمہ نہ بھی ہو۔ اس عمل میں پاکستا ن اہمیت رکھتا ہے ۔ اگر پاکستان افغانستان میں امریکی مسائل میں کمی لاسکے تو وہ واشنگٹن پر لائن آف کنٹرول او ر ورکنگ بائونڈری پر پڑنے والے دبائو میں کمی لانے اور افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے میں اپنا کردارادا کرسکتا ہے۔
افغانستان میں ہونے والی پیش رفت اہم ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ وقت آنے پر نئی دہلی اور اسلام آباد میز پر بیٹھ سکیں۔ اس معاہدے کی ابتدائی علامات دلچسپی سے خالی نہیں۔ جب سے افغانستان میں امن کے لئے کاوشیں شروع ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر دبائو میںکمی آچکی ہے ۔ اگر آپ نے نوٹ نہیں کیا تو کوئی بات نہیں، گزشتہ ایک ماہ سے لائن آف کنٹرول نسبتاً خاموش ہے ۔ وزیر ِاعظم کا کابل کا دورہ اور امریکی مہمانوں کی پاکستان میں آمد افغانستان میں ہونے والی ڈیل کی علامات ہیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ چین کے پاکستان میں معاشی مفادات بھی ون ونڈو آپریشن کی طرح ہیں۔ اُن کے پاکستان میں بھاری مالی مفادات ہیں۔ وہ جانتے کہ معاشی ترقی کے لئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ ان کے پاس نہ تو وقت ہے اور نہ ہی وہ ایسا کرنا چاہتے ہیںکہ سی پیک میں موجود لاکھوں مسائل کی نشاندہی کرتے اور اس کی مبینہ خامیوں پر جواب دیتے رہیں۔ وہ جمہوری نظام جو اُن کے منصوبوں کی راہ میں غیر ضروری رکاوٹ پیدا کرے ، وہ اُنہیں اچھا نہیں لگے گا۔ وہ اپنا کام کرنا چاہتے ہیں۔ اُنہیں نظاموں سے کوئی سروکار نہیں۔
چنانچہ بیرونی عوامل کا دبائو پاکستان کی داخلی طاقت کے توازن کے لئے ٹھیک نہیں ۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی طاقتور علاقائی او ر عالمی قوتوں کا ٹکرائو یا ادغام ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں ہمیشہ سویلین حکومت کمزور ہوتی ہے اور غیر منتخب قوتیں تقویت پاتی ہیں۔ ایوب خان اور مشرف کے ادوار اور ان کے تحت قائم ہونے والا سویلین نظام محض داخلی حقائق کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ وہ عالمی نظام کی پیداوار تھا جنہیںملک میں ایک مخصوص قسم کا نظام درکار ہوتا ہے ۔ اس وقت جب کہ عام انتخابات دوماہ کی دوری پر ہیں، عالمی اور علاقائی طاقتوں کا دبائو اتنا شدید ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خدشہ ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے کا انحصار صرف ووٹروں کی مرضی پر نہیں ہو گا۔ اس کیلئے کچھ اور قوتیں بھی فعال ہیں۔