غزہ سے رف سنچیز
اسرائیلی فوج کے ماہر نشانہ بازوں نے ایک ایسے فلسطینی نوجوان جس نے ایک ایسی جیکٹ زیب تن کررکھی تھی جس پر واضح طور پر ’’پریس‘‘ کا نشان موجود تھا کو فائرنگ کرکے شہید کردیا جس کے بعد صیہونی فوج کو کئی سوالات کا سامنا ہے۔
30 سالہ یاسر مرتضیٰ کو جمعہ کی دوپہر اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جب وہ غزہ کی سرحد پر احتجاجی مظاہروں کی کوریج میں مصروف تھے۔ اطلاعات کے مطابق اس احتجاج کے دوران اسرائیلی فوج نے کم از کم 5 دیگر صحافیوں کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا۔
مرتضیٰ ایک فری لانس کیمرا مین تھے، وہ بی بی سی اور چینی مصور علی آئی وی وی کیساتھ بھی کام کرچکے ہیں، وہ غزہ کی جنوبی سرحدی علاقے خان یونس میں اپنی ذمہ داریوں میں مصروف تھے، ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ مرتضیٰ کو اسرائیلی سرحدی باڑ سے 300 میٹر دوری پر نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ مرتضیٰ اور دیگر صحافیوں پر فائرنگ کی تحقیقات کررہے ہیں۔ اسرائیلی فوجی کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ’’اسرائیلی فوج صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ نہیں بناتی۔ صحافی جن حالات میں مبینہ طر پر فائرنگ کا نشانہ بنے اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے ایسے واقعات عام طور پر دیکھنے میں نہیں آتے اور اس معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہے۔‘‘
مرتضیٰ کی میت کیساتھ غزہ کی سڑکوں پر احتجاج کیا گیا، ان کے جسم پر اس وقت بھی وہ جیکٹ موجود تھی جو ان کی جان بچانے کے لئے کافی نہیں تھی۔
مرتضیٰ کے دوستوں اور اہلخانہ نے اسرائیلی فورسز پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر کیمرا مین کو نشانہ بنایا، ان کا کہنا ہے کہ اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اسرائیلی ماہر نشانہ باز (اسنائپر) نے انہیں ایک احتجاجی کارکن سمجھ کر نشانہ بنایا ہے جب کہ ان کے جسم پر موجود جیٹ سے ان کا صحافی ہونا صاف ظاہر ہورہا تھا۔
جس وقت مرتضیٰ کو نشانہ بنایا اسی اثناء ایک اور صحافی رشدی سیراج بھی ان کے ساتھ موجود تھے، انہوں نے بتایا کہ ’’جس وقت مرتضیٰ پر فائرنگ کی گئی اس وقت انہوں نے پریس کی جیکٹ اور ہیلمٹ پہن رکھا تھا۔‘‘ جیکٹ بالکل صاف دکھائی دے رہی تھی۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ انہوں (اسرائیلی فوج) نے انہیں کسی مقصد کے تحت نشانہ بنایا۔‘‘
مرتضیٰ شادہ شدہ تھے اور انہوں نے سوگواران میں ایک تین سالہ بیٹے کو بھی چھوڑا ہے۔ اگرچہ انہوں نے صف اول کے کئی عالمی میڈیا اداروں کے لئے کام کیا تاہم وہ کبھی بھی غزہ کی حدود سے باہر نہیں نکلے، ان کا خواب تھا کہ وہ ہوائی جہاز میں سفر کریں۔
24 مارچ کو انہوں نے فیس بک پر اپنے ایک ڈرون سے کھینچی گئی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’میرا نام یاسر مرتضیٰ ہے۔ میری عمر 30 برس ہے۔ میں غزہ شہر میں رہائش پذیر ہوں۔ میں نے کبھی بیرون ملک سفر نہیں کیا۔ ’’میری خواہش ہے کہ میں ایک دن اپنی اسی طرح کی تصویر بنائوں تاہم وہ زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر ہو۔‘‘
سیراج جنہوں نے مرتضیٰ کیساتھ مل کر ایک چھوٹی پراڈکشن کمپنی کی بنیاد رکھی تھی نے بتایا کہ ’’وہ ہمیشہ مسکراتا رہتا تھا، ہر کوئی اس سے پیار کرتا تھا۔‘‘ ’’کوئی بھی یاسر کی جگہ نہیں لے سکتا۔‘‘
مرتضیٰ نے مہاجرین کے بحران سے متعلق چینی مصور علی وی وی کی ہیومن فلو ڈاکومینٹری میں بھی کام کیا۔ چینی آرٹسٹ نے ہفتے کے روز انسٹا گرام پر مرتضیٰ کی ایک تصویر بھی پوسٹ کی جس میں وہ گولی لگنے کے بعد زمین پر پڑے ہوئے ہیں۔
مرتضیٰ کے رفقاء نے اپنے ساتھی کی میت لیکر غزہ سٹی کی سڑکوں پر احتجاج کیا، ان کی میت کو فلسطینی پرچم اور ان کی نیلے رنگ کی جیکٹ میں لپیٹا گیا تھا جو ان کی جان بچانے کے کام نہ آسکی تھی۔
مرتضیٰ کی نماز جنازہ جامع مسجد عمری میں ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ حماس کے سیاسی دھڑے کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے جنازے کے اجتماع سے خطاب کیا۔ ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ مرتضیٰ کا تعلق حماس سے تھا اور نہ کسی اور سیاسی دھڑے سے۔
فلسطینی صحافیوں کی تنظیم فلسطین جرنلسٹس سینڈیکیٹ کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز 7 فلسطینی صحافیوں کو گولیاں ماری گئیں جبکہ ایک صحافی کی حالت آنسو گیس کی شیلنگ سے غیر ہوئی تھی۔
اسی طرح ایک اور صحافی ادھم الحجر کو بھی گولی ماری گئی جب کہ انہوں نے بھی پریس کی جیکٹ زیب تن کر رکھی تھی۔
32 سالہ ادھم الحجر بھی فری لانس فوٹو گرافر ہیں۔ انہیں اس وقت بائیں ٹانگ میں گولی ماری گئی جب وہ غزہ شہر کے مشرقی حصے میں مظاہرے کے مقام پر مظاہرین کی تصاویر بنانے میں مصروف تھے۔
مرتضیٰ کی طرح حجر نے بھی ایسی جیکٹ پہن رکھی تھی جس پر واضح طور پر ’’پریس‘‘ کا نشان موجود تھا۔ یہ جیکٹ کپڑے سے بنی ہوئی تھی اور اس میں اسلحہ سے بچائو کے لئے کوئی پلیٹ موجود نہیں تھی۔
حجر کا کہنا ہے کہ جسم کی حفاظت کے لئے حقیقی بلٹ پروف جیکٹ کا غزہ میں ملنا مشکل ہے تاہم انہوں نے اپنے ٹیلر (درزی) سے کہا تھا کہ وہ اسے ایسی جیکٹ سی کر دے جسے پہن کر یہ صاف ظاہر ہوسکے کہ وہ صحافی ہیں اور اسرائیلی اسناپئرز بھی انہیں پہچان سکیں کہ وہ صحافی ہیں۔
شفاء اسپتال کے بستر پر موجود انہوں نے بتایا کہ ’’یہ حقیقی بلٹ پروف جیکٹ نہیں تھی۔ اس سے صرف یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ایک صحافی ہیں اور ظاہری طور پر آپ کی حفاظت کے لئے ہوتی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ اسرائیلی فوج کو یہ بتاسکوں میں ایک صحافی ہوں۔ بطور صحافی میں یہ توقع نہیں کررہا تھا کہ اسرائیلی فوجی مجھ پر فائرنگ کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی اسناپئرز نے انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا۔ ’’وہ مجھے ہی نشانہ بنانا چاہتے تھے، ایسا جان بوجھ کر کیا گیا، وہ مجھے بالکل واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔‘‘ ’’اسرائیلی فوج نہیں چاہتی کہ میڈیا کے زریعے ان کے حقیقی چہرے کو دنیا کے سامنے لایا جائے‘‘۔
غزہ کی سرحد پر 30 مارچ سے شروع ہونے والے بڑے احتجاجی مظاہروں کے بعد سے اب تک 31 فلسطینی مارے جاچکے ہیں۔