سراج الدین سراج
مل رہا ہے جو عبادت کا ثمر،آج کی رات
لے کے آئی ہے دعاؤں میں اثر،آج کی رات
ہر گھڑی ،بخشِ عصیاں کی خبردیتی ہے
کس بلندی پہ ہے تقدیرِ بشر،آج کی رات
ہرطرف دن کے اُجالوں کا گماں ہوتا ہے
نورہی نور ہے تاحدِ نظر،آج کی رات
گوشے گوشے میں اُترتی رہی خوشبوئے صلوٰۃ
گونج اٹھے نعت سے اور حمد سے گھر،آج کی رات
یوں تو رات آتی ہے ہر روز،گزرجاتی ہے
سیکڑوں راتوں سے بہتر ہے مگر،آج کی رات
تادمِ صبح، زمیں پر ہے،فرشتوں کا نزول
ساتھ ہی ہوتا ہے روحوں کا گزر،آج کی رات
نارسائی کا گلہ کیوں نہ کرے،فکرِ رسا
طے ہو لمحوں میں جو صدیوں کا سفر،آج کی رات
حشر تک نام و نشاں تک نہ ہو،تاریکی کا
کاش، ایسی بھی کوئی آئے سحر،آج کی رات
پھر میسر ہوئی تقدیر سے،یہ رات سراج
پھر لٹاتے رہو اشکوں کے گہُر،آج کی رات