• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریاست و سیاست کی علمبردار

آسٹریلیا ان ممالک میں سے ہے جہاں خواتین کو سب سے پہلے رائے دہی کااستعمال کرنے کا حق ملامگر 2010 ء سے پہلے تک کوئی خاتون وزیراعظم منتخب نہیں ہوسکی۔باوجود اس کے کہ سول سروس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے مگر کلیدی عہدوں پر آج بھی وہ مردوں سے پیچھے ہیں۔یہی حال امریکہ کا ہے جہاں آج تک خاتون صدر رنہیں بن سکی ہیں جبکہ پاکستان میں بے نظیر بھٹو 1988میں وزیراعظم بن چکی تھیں۔ 

آج بھی پاکستانی خواتین متعدد بڑے اور بااثر عہدوں پر فائز ہیں جن میں پاکستان کی پہلی خاتون سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ، بلوچستان اسمبلی کی پہلی خاتون اسپیکر،پنجاب کی وزیر خزانہ عائشہ پاشا شامل ہیں۔قانون کے شعبہ میں بھی عاصمہ جہانگیرکی وفات کے بعد حنا جیلانی سرگرم قانون دان ہیں جبکہ دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔پاکستان کی ان چنیدہ خواتین کی بات کرتے ہیں جنہوںنے اپنی ذہانت کو خوبصورتی سے استعمال کیا اور سیاست اور ریاست میں مقام پایا اور پہچان بنائی ۔

فاطمہ بھٹو

فاطمہ بھٹو شاعرہ اور لکھاری ہیں، پاکستان، امریکہ اور برطانیہ کے مختلف اخباروں میں کالم بھی لکھتی ہیں۔ 1997ء پندرہ برس کی عمر میں فاطمہ بھٹو کا پہلا شعری مجموعہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان سے شائع ہو اجس کا عنوان Whispers of the Deserts (صحرا کی سرگرشیاں) تھا۔ 2006ء میں دوسری کتاب 8 اکتوبر 2005ء کو آزاد کشمیر اورصوبہ سرحد میں آنے والے زلزلے کے موضوع پر ’’8.50 a.m. 8 October 2005 ‘‘ کے عنوان سے جبکہ تیسری کتاب ’’سانگز آف بلڈ اینڈ سورڈ‘‘2010 میںشائع ہوئی ہے۔

فاطمہ بھٹو 29 مئی 1982ء کو افغان دار الحکومت کابل میں اس وقت پیدا ہوئیں، جب ان کے والد میر مرتضیٰ بھٹو جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔وہ سابق صدر اور سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹوکی پوتی جبکہ سابق وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کی بھتیجی ہیں جبکہ ان کی والدہ فوزیہ فصیح الدین ، افغان وزارت خارجہ کے اہلکار کی بیٹی تھیں۔ سوتیلی والدہ غنویٰ بھٹو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کی چیئر پرسن ہیں۔ فاطمہ بھٹو کے والد میر مرتضیٰ بھٹو 1996ء میں اپنی بہن بینظیر بھٹو کے دور وزارت عظمیٰ میں قتل ہوئے۔

فاطمہ بھٹو نے ابتدائی تعلیم دمشق(شام) میں حاصل کی۔1993ء میں اپنی والدہ غنویٰ بھٹو اور چھوٹے بھائی ذوالفقار بھٹو جونیئر کے ساتھ پاکستان آگئیں۔ انہوں نے کراچی امریکن اسکول سے او لیول کیا۔ پھر 2004ء میں کولمبیا یونیورسٹی،نیویارک سے امتیازی نمبروں کے ساتھ گریجویشن کیا۔ گریجویشن میں ان کا خاص مضمون مشرق وسطیٰ میں بولی جانے والی زبانیں اور کلچرتھا۔ 2005ء میں انہوں نے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقین اسٹیڈیز سے ’’سائوتھ ایشین گورنمنٹ اور سیاسیات‘‘ میں ماسٹرز کیا۔

فاطمہ بھٹو کو سماجی فلاح و بہبود کے کاموں سے گہری دلچسپی ہے، بالخصوص سندھ کی جیلوں میں قید خواتین کے ساتھ ہونے والا سلوک، ان کی توجہ کا خاص مرکز ہے۔ وہ نہ صرف اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ لکھتی رہی ہیں، بلکہ باقاعدگی کے ساتھ لاڑکانہ ویمنز جیل کا معائنہ بھی کرتی ہیں۔ 

انہیں کراچی میں کچی آبادیوں میں بسنے والے لوگوں کے مسائل سے بھی گہری دلچسپی ہے۔ فاطمہ بھٹو کی شادی بلاول بھٹو سے ہونے کی افواہیں بھی اڑتی رہیں لیکن اس میں حقیقت دور دور تک نظر نہیں آتی کیونکہ فاطمہ بھٹو جیسی ذہین لڑکی سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ سیاسی فوائد حاصل کرنے یا سیاسی میدان میں اترنے کیلئے اس قسم کے لائحہ عمل کو اپنانے کی کوشش کرے گی۔

مریم نواز شریف

تمام تر تنازعات ،والد محترم کی تنزلی اور اپنے بھائیوں کی سیاست میں عدم موجودگی کے باوجود مریم نواز آج بھی اپنے والد کے ساتھ کھڑی ہیں اور اپنی گفتگو اور ٹوئیٹر کے ذریعے ان تمام تر حالات کا سامنا کررہی ہیں جو دن بدن بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ، مریم کی جگہ کوئی اور خاتون ہو تو کب کی پسپائی اختیار کرچکی ہوتی ، لیکن مریم نے ہر آنے والے دن میں خود کو مضبوط سے مضبوط تر کیا اور باپ کیلئے بے مثال بیٹی بن کر سامنے آئی ہیں ۔

مریم لاہور کے امیر شریف خاندان میں پیدا ہوئیں، مریم نواز نے انگریزی ادب میں جامعہ پنجاب سے ڈگری لی۔ مریم نے ابتدائی طور پر 2012ء میں خاندان کے رفاہی ونگ میں کام کا آغاز کیا، مریم نواز کو پاکستان مسلم لیگ نے پاکستان کے عام انتخابات 2013ء کے دوران میں ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا منتظم مقرر کیا۔ 

مریم کو 22 نومبر 2013ء کو وزیراعظم یوتھ پروگرام کا کرسی نشین مقرر کیا گيا، تاہم عدالت عالیہ لاہور میں اس فیصلے کے خلاف درخواست کے بعد مریم نواز نے 13 نومبر 2014ء کو استعفا دے دیا تھا۔ ان کی پارٹی کے کئی سرکردہ رہنما ئوںسمیت ان پر لگائے گئے الزامات اور پانامہ لیکس کے واقعات ان کی پارٹی صدارت یا وزارت عظمیٰ کیلئے ان کی امیدواری کی راہ میں حائل ہیں۔ اب اس بات کا فیصلہ وقت کرے گاکہ وہ تاریخ کی دوسری بے نظیرثابت ہوتی ہیں یا نہیں ۔

ڈاکٹر ملیحہ لودھی

سلجھی ہوئیں ، باوقار اور زیرک اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا نام دنیا کی 5 کامیاب ترین خواتین سفارتکاروں کی فہرست میں شامل ہے۔ روس میں 10 فروری کو سفارتکاروں کے عالمی دن کے موقع پر روسی سرکاری ویب سائٹ پر جاری کردہ فہرست میں روس کی سفارتکار الیانورا مترافونوا سرفہرست ہیں جبکہ دیگر خاتون سفارتکاروں میں کرغیزستان کی روزاتن بائیوا، ہالینڈ کی رینے جونزبوس اور سویڈن کی ایلوا ماڈال شامل ہیں۔

ملیحہ لودھی دو مرتبہ امریکہ میں پاکستانی سفیر تعینات رہیں اور اسکے علاوہ برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر کے عہدے پر بھی اپنے فرائض انجام دے چکی ہیں۔وہ جس عہدے پر بھی رہیں محنت شاقہ سے اپنا مقام بنایا اور پاکستان کا نقطۂ نظر پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ پاک امریکہ تعلقات مدوجزر کاشکار رہے۔ انکی مشرف دور کے ابتدائی دنوں میں امریکہ میں بطور سفیر تعیناتی ہوئی۔ انہوں نے امریکہ کی آمریت کے حوالے سے سخت سوچ کے باوجود پاکستان امریکہ تعلقات میں کشیدگی نہیں آنے دی۔ 

اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کی تعیناتی کے دوران انہوں نے بھارت کو مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ زچ کئے رکھا۔ سفارتکاری میں انکی مہارت مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر شدت کے ساتھ اجاگر کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوئی۔ بہترین سفارتکاری اور ملکی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 2002ء میں‘ ہلال امتیاز ایوارڈ سے نوازا گیا، ان کی دفاعی اور اقتصادی امور پر بھی گرفت ہے۔

ملیحہ نے لاہور کی ایک مڈل کلاس فیملی میں آنکھ کھولی ، لند ن اسکول آف اکنامکس سے تعلیم حاصل کی اور وہیں سے 1980میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پولیٹیکل سوشیالوجی میں تدریس کے فرائض کے بھی انجام دیے۔ 

1986میں پاکستان واپس آئیں اورانگریزی روزنامہ دی مسلم کی ایڈیٹر متعین ہوئیں تو ایشیا ء میں وہ پہلی خاتون تھی جو کسی اخبار کی ادارت کررہی تھیں۔ 1990میں مؤقر اخبار دی نیوز انٹرنیشنل کے اجراء میںپیش پیش تھیں اور بانی ایڈیٹر کے فرائض انجام دیے۔

ان کا دنیا کی کامیاب ترین خواتین میں نام آنا پاکستان کیلئے قابل فخر ہے اور انکی سفارتکاری کے میدان میں مہارت اس شعبے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں اور طلباء کیلئے ایک مثال اور مشعل راہ ہے۔

حنا ربانی کھر

اسٹائلش ، باذوق اور ذہین ، حنا ربّانی کھر 1977میں ملتان میں جنم لینے والی پاکستان کی پہلی خاتون رکن قومی اسمبلی ہیں جنہوں نے 2009-2010 قومی بجٹ پیش کیا۔ حنا رشتہ میں غلام مصطفے کھر کی بھتیجی ہیں۔ انہوں نے 1999 میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز سے معاشیات میں گریجویشن کیا اور 2001 میں ایم بی اے کی سند حاصل کی۔حنا 2002 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر حصہ لے کر رکن پارلیمان منتخب ہوئیں۔ 2008 کے انتخابات میںانہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر مظفّر گڑھ کی قومی اسمبلی کی نشت پر کامیابی حاصل کی۔شاہ محمود قریشی کے فروری 2011ء میں استعفی کے چھ ماہ بعد جولائی 2011ء میںاس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے حنا کو وزیر خارجہ مقرر کیا۔

حنا ربانی کھر نے بھارت کا دورہ کیا توان کے فیشن و اسٹائل سے دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری بالی ووڈ بھی متاثر ہوئی۔وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو نہ صرف انکے فیشن کے باعث کافی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ اکثر وہ اس حوالے سے خبروں کی زینت بھی بنتی رہتی ہیں۔لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ حناکے اس اسٹائل سے بالی وڈ ستارے بھی متاثر رہے ہیں۔

بالی وڈ اداکارہ دیویا دتہ نے بھی اس بات تصدیق کی تھی کہ انہوں نے اپنی نئی فلم ’’ارادہ‘‘ میں حنا ربانی کھر کے فیشن اور اسٹائل کو اپنایا ہے۔بھارتی جریدے ٹائمز آف انڈیا کے مطابق دیویا کا کہنا تھا کہ فلم میں اپنائے گئے طرزو اطوار بغیر کسی ارادے کے تھے لیکن ان میں حنا ربانی کھر سے کافی مماثلت ہے۔دیویا کا کہنا تھا کہ جب وہ شوٹنگ کیلئے سیٹ پر آئیں تو ہر کسی نے ان کاتقابل حنا ربانی کھر سے کرتے ہوئے اسکو کافی سراہا۔جس کے بعد انہوں نے فلم میں اس انداز کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔

تازہ ترین