• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بظاہر نواز شریف قصہ ٔ پارینہ بن چکے ۔ اُنہیں انتخابی سیاست سے نکال باہر کیا گیا۔ نااہلی کی مدت کا تعین کرنے والے فیصلے نے اُنہیں زندگی بھر کے لئے کوئی سیاسی عہدہ رکھنے سے روک دیا، تاوقتیکہ اس فیصلے پر نظر ثانی ہو، یا مستقبل میں ہونے والا کوئی اور فیصلہ اس پر لکیر پھیر دے ۔ وزارت ِ عظمیٰ کے منصب اوراپنی پارٹی کی قیادت کرنے سے محروم نواز شریف کوانتخابی سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکال دیا گیا ۔ لیکن کیا کوہ کن کا حوصلہ تمام ہوا؟نہیں۔
نوازشریف کو مقابلے کی لکیر سے پرے دھکیلنے کے بعد یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کہیں اُن میں سیاسی طور پر کچھ جان باقی تو نہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ تہری نااہلی کا بوجھ اٹھائے نواز شریف اب بڑی سیاسی قوت نہ بن جائیں، یہ نہ ہو کہ وہ ابھی بھی قومی سیاست کے مستقبل پراثر انداز ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ قانونی طور پر تو انتخابی سیاست سے باہر ہیں، لیکن اُ ن کے سیاسی حریفوں کی زیادہ ترتوانائی اسی ایک فرد پر صرف ہورہی ہے ۔ اُنہیں طاقتور سیاسی پوزیشن سے محروم کرنے کی کوشش نے تمام ملکی سیاست کو ’’نوا زشو ‘‘ میں تبدیل کردیا ہے ۔ عمران خان کی تمام تر توانائیوں کا رخ انہیں گرانے کی طرف مرکوز ہے ۔ اس سے پہلے بھی وہ عمران خان کی نفرت اور پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھے ۔ پی پی پی کو بھی اسی صورت ِحال کا سامنا ہے ۔ اس کی قیادت بھی نوازشریف اور اُن کی سیاسی مخالفت کے خبط سے باہر نہیں نکل پائی ۔
پاناماکے بعد سے زیادہ تر وقت نوازشریف اور اُن سے متعلقہ مقدمات پر صرف ہوا ہے۔ سوموٹو، آبزرویشنز، شہ سرخیاں، خبریں، بحث، گفتگو، ٹاک شوزکے سیاسی اور قانونی موضوعات شریف فیملی ، خاص طور پر نوازشریف اور مریم نواز کے گرد گھومتے ہیں۔ چنانچہ یہ نہیں جاسکتا کہ نواز شریف ملکی سیاست کے منظر نامے سے ہٹا دئیے گئے ہیں، یا اُن کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ سیاسی طور پر مردہ طاقتوں پر قومی مباحثے کا 90 فیصد صرف نہیں ہوتا ۔ جو لوگ سیاسی طور پر مردہ ہوچکے ہوں، اُن کا اس فریم ورک میں بمشکل ہی ذکر سنائی دیتا ہے۔ اس ضمن میں کچھ حالیہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ بانی متحدہ کااب کوئی ذکر سنائی نہیں دیتا۔ حتیٰ کہ پی ایم ایل (ق) کی قیادت پنجاب میں جسمانی طور پر موجودہونے کے باوجود سیاسی طور پر سائیڈلائن ہوچکی ہے ۔ اُن کی ’’ غیر موجودگی‘‘ غیر محسوس ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور جنرل(ر) پرویز مشرف کا شمار بھی انہی شخصیات میں ہوتا ہے ۔ کبھی قومی سیاست کے اہم ترین عناصر کو تبدیلی اور حالات کی لہروں نے کناروں سے باہر پھینک دیا۔
جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے تو وہ سیاست دانوں کے لئے انتہائی توہین آمیز صورت ِحال ، جیسا کہ گمنام اور غیر اہم ہوجانا، سے بہت دور ہیں۔ اُن کی سرگرمیوں اور بیانات کی خبریں بنتی ہیں۔ اُن کی چال سیاست کے خدوخال ڈھالتی ہے ۔ موجودہ سیاست میں نیوٹن کے قوانین کا کافی عمل دخل دکھائی دیتا ہے ۔ یہاں عمل کا ردعمل سامنے ، واضح اور یکساں ہے ۔چنانچہ اُنہیں جتنا دھکیلا جائے گا، وہ اتنا ہی پرعزم سیاسی چیلنج بنتے جائیں گے ،یہاں تک کہ اُن سے نمٹنا مشکل ہوجائے گا۔
اگر اُن کی پارٹی پنجاب میں اپنی موجودگی نہ رکھتی تو شاید ایسا نہ ہوتا۔ اس وقت اُن کے ساتھ دوطرح کے ممبران کھڑے ہیں۔ ایک وہ جو وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت میں شامل ہیں، جیسا کہ ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹرز، جو اُن کی پالیسیوں کے فریم ورک میں حکومت چلا رہے ہیں۔ دوسرے رائے دہندگان ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی مرضی سے اُنہیں ووٹ دیتے ہیں۔ یہ ووٹ نواز شریف کے نام پر بھی پڑتا ہے اور اُن کے مقامی طو رپر اُن کے ساتھیوں کے نام پر بھی ۔
پہلی قسم کے حامیوں کے نوازشریف سے دور ہونے کے لئے ضروری تھا کہ اُن کی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر نصف درجن کے قریب گروہوں میں تقسیم ہوجاتی ۔ پارٹی قیادت سے الگ ہونے والے منحرفین اپنا اپنا گروہ بنالیتے ۔ حتیٰ کہ پی ایم ایل (ن) بھی پی ایم ایل (ایس) بن جاتی جس کی قیادت شہباز شریف کے ہاتھ میں ہوتی ۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نوا زشریف ہی پارٹی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے سیاسی مخالفین یہ توقع لگائے ہوئے تھے کہ شہباز شریف کی آمد کا مطلب نواز شریف کی روانگی ہوگا۔ لیکن اس کے برعکس ہوا ہے ۔ اس وقت شہباز شریف سیاسی حمایت اور ساکھ کے لئے اپنے بڑے بھائی پر پہلے سے کہیں زیادہ انحصار کررہے ہیں۔ یہ مریم نواز ہیں، نہ کہ حمزہ شہباز، جنہیں بے پناہ عوامی پذیرائی مل رہی ہے ۔ یہ نواز شریف ہیں جو بلوچ اور پشتون اور کسی حد تک مذہبی رہنمائوں کے ساتھ روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
یہ صورت ِحال تبدیل ہوجائے گی اگر شہبازشریف چھلانگ لگاکر نوا زشریف کے جہاز سے اتر جاتے ہیں، اور خاندان میں پڑنے والی دراڑ پی ایم ایل (ن) کی سیاسی مرکزیت کو تو ڑ دیتی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ایسی کوئی ضمانت نہیں کہ نواز شریف خسارے میں رہیں گے ۔ ایک بات یقینی ہے کہ اس صورت میں شہباز شریف ناکام ثابت ہوں گے کیونکہ اُن کا تمام تر سیاسی کیرئیر اپنے بھائی کے زیر سایہ پروان چڑھا ہے ۔ اپنی بہت سی ترقیاتی اور انتظامی کامیابیوںکے باوجود وہ قومی سطح پر اکیلے پیش قدمی نہیں کرسکتے ہیں۔
نوازشریف کے ساتھ کھڑے دوسرے ممبران اُن کے ووٹر ہیں۔ اس میں کوئی دراڑ دکھائی نہیں دیتی۔ اگر پارٹی کی صفوںسے جانے والے یہ تاثر دیں کہ پارٹی کا حجم کم ہوتا جارہا ہے، تواس سوال کا کوئی آسان جواب نہیں کہ اب یہ جماعت اپنے حریفوں کے مقابلے میں کتنے ووٹ لے گی۔ گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے 14.8ملین اور پی پی پی کے 6.8ملین کے مقابلے میں 17.5ملین ووٹ حاصل کیے ۔ حالات کے زیر وزبر کے باوجود گزشتہ سال ہونے والے تمام ضمنی الیکشنز میں ن لیگ نے اپنے مخالفین کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی۔ حتی کہ اگر اگلے انتخابات میں پی ایم ایل (ن) کی سیٹوں کی تعداد میں تنزلی بھی دیکھنے میں آئی (زیادہ تر تجزیے کے مطابق پارٹی 25سے زیادہ سیٹیں حاصل نہیں کر پائے گی) تو بھی ووٹوں کی تعداد اپنی جگہ ایک درد سر کے طور پر موجود رہے گی۔سیٹوں سے آپ کی طاقت جبکہ ووٹوں کی تعداد سے آپ کی مقبولیت اورووٹ بینک کی طاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اگر ن لیگ اگلے انتخابات میںکم نشستوں کے باعث طاقت کھو دیتی ہے مگر ایک مضبوط ووٹ بینک برقرار رکھتی ہے تو یہ ایک عجیب صورتحال ہو گی۔اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نااہل ہو جانے کے باوجود نواز شریف واپسی کی طاقت رکھتے ہیں۔لمبے عرصے کے لئے سیاست سے لا تعلق ہونے کے لئے ان کے ووٹ بینک کا گرنا ضروری ہے ۔مگر ایک لیڈر لا تعلق کیسے ہو سکتا ہے جب 14.8ملین میں سے ا ٓدھے ووٹ بھی ایک قابل ذکر سیاسی طاقت ہونے کے لئے کافی ہیں۔اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ لکھ رکھیں،نواز شریف سیاست سے لاتعلق نہیں ہورہے ۔اگر انہیں جیل بھی جانا پڑتا ہے تو وہ قومی سیاست کا دھارا بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں اور وہ بدلیں گے۔بلوچستان میں ان کے اتحادی ہیں اور وہ اپنے کیس زیادہ طاقت سے پیش کر سکتے ہیں۔نواز شریف کے کیس کو ’’مظلومیت کے تاثر ‘‘نے مزید توانا کردیا ہے ،اُن کی بہت سی سیاسی زندگیاں باقی ہیں اور وہ لڑنے کے لئے میدان میں موجود ہیں۔
اگر نواز شریف کو اپنے پانچ سال پورے کر نے کا موقع مل جاتا دئیے جاتے تو یہ تیسری مدت ان کی سیاسی زندگی کا اختتام ثابت ہوتی۔اُنھوںنے اپنے عہدے کو نہ وقت دیا تھا نہ اہمیت۔ ایک منظم اپوزیشن عوام کے غصے اور مایوسی کو سیاسی بیانیے میں بدل کر اُن کی جماعت کو گھر بھیج سکتی تھی۔لیکن موجودہ بدترین حالات نے،اُنہیں لڑنے کا موقع دے دیا۔اس سے پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا جب مشرف نے انہیں نکالا تھا۔ہمارے ہاں حیرت کدہ ہمیشہ آباد رہتا ہے۔ سیاسی طریقے سے حل ہونے والا مسئلہ اب مخالفین اور ملکی سیاست، دونوں کے لئے ڈرائونا خواب بن چکا ہے۔غیر یقینی پن کی فضا گہری اور افق ہنگامہ خیز ہوتے جارہے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین