• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نواز، مریم پر پابندی کے موضوع کی ماہیت تبدیل

سپریم کورٹ میں نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر پر پابندی کے لاہور ہائیکورٹ فیصلے پر ازخود نوٹس میں زیر نظر سوال تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں تقاریر پر پابندی کہاں ہے؟ چیف جسٹس نے سو فیصد درست نشاندہی کی تھی کہ ہر اخبار میں خبریں لگی ہیں، چیف جسٹس کا استفسار تھا کہ جعلی خبروں(Fake news) پر پیمرا نے نوٹس جاری کیا یا کوئی ایکشن لیا؟ ۔ چیف جسٹس اور جسٹس عظمت سعید کا تعلق لاہور سے ہے اور لاہور کے کورٹ رپورٹرز سے ان کی اچھی شناسائی ہے اس لئے انہوں نے رپورٹرز کو جعلی خبر سے بری الذمہ قراردیا،در حقیقت معاملہ پیمرا کی فعالیت سے متعلق تھا کہ پیمرا فیک نیوز روکنے کے لئے کام کیوں نہیں کررہا۔سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس نے نواز شریف اور مریم نواز پر مبینہ پابندی کے موضوع کی ماہیت ہی بدل دی، دستور کے ذریعے اظہار رائے اور تحریرو تقریر کی آزادی بنیادی حقوق کا حصہ ہے اور یہ نہایت حساس معاملہ ہے، حساس معاملات میں صورتحال وہ ہوتی ہے جو میر نے کہا تھا، لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔۔۔ آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا۔۔۔۔محترم چیف جسٹس کا یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا متعلقہ ریاستی ادارے ڈس انفارمیشن اور فیک نیوز کو پھیلنے سے روک سکے؟ نفی میں اس کا جواب آپ کاموبائل فون دیتا ہے ،نفی میں اس کا جواب ٹویٹر اکائونٹ دیتا ہے اور نفی میں اس کا جواب سوشل میڈیا کے وہ ذرائع دےرہے ہیں جو مادر پدر آزاد ہیں۔ جب ہم مارشل لائی انداز میں دستور زباں بندی کو رواج دیں گے اور حقائق چھپانے کے لئے وہی سکہ بند د قیانوسی ڈبل سواری پر پابندی والے فارمولے اپنائیں گے تو پھر ریاست کی سچی بات بھی ڈس انفارمیشن کے طوفان بد تمیزی کی نذر ہو جاتی ہے۔

تازہ ترین