تحریر:جوئلیٹ سموئیل
شام میں باغیوں کے آخری مضبوط گڑھ،اد لب میں ایک کارٹون والی ویڈیو آن لائن گردش کررہی ہے۔اس ویڈیو میں انسانی کھوپڑیوں سے بننے والا ایک بہت بڑا پہاڑ دکھایا گیا،یہ کھوپڑیاں سب کی سب سفید رنگ کی ہیں ماسوائے ایک کے،جو کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے اثرات کے باعث چمکدارپیلے رنگ کا ہے۔اس دوران بہت دبلے پتلے کمزورجسم والا انکل سام ،جو بدحواس اورغم سے نڈھال ہے، اس پیلی کھوپڑی کو اچک لینے کے لئے رسائی کی کوشش کرتا ہے جبکہ اس پیلی کھوپڑی کے اردگرد موجود باقی تمام سفید کھوپڑیوں کو نظراندازکردیتا ہے۔
اس کارٹون پر درج دستخط سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ گزشتہ سال کا ہے لیکن یہ یوں مناسب لگتا ہے کہ جیسے اسے آج کے لئے تیارکیا جاتا رہا ہے۔جمعہ کی شب یعنی جمعرات کو (شام پر) فضائی حملوں کے بعد امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اتراتے ہوئے کہا کہ ’’مشن کو کامیابی سے مکمل کرلیا گیا‘‘۔برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے کہا کہ برطانیہ نے ’’تاریخ کا سبق ‘‘سیکھا تھا اور ہمیں محفوظ رکھنے والے عالمی قوانین اورمعیارات پر اقدام کررہے ہیں۔شام میں یہ خالی خولی دعوے ثابت ہوں گے،جہاں اس کی خانہ جنگی میں اب تک چارلاکھ افرادجاں بحق اورایک کروڑتیس لاکھ افرادبے گھر ہوچکے ہیں۔سچ یہ ہے کہ،ان فضائی حملوں کے بجائے شام کی جنگ بدسے بدترہوتی جارہی ہے ،اس میں کوئی بہتری نہیں،اوراس ملک میں ہمیں جس تند خو بحث کا سامنا درپیش ہے درحقیقت یہ ایک سائیڈشوسے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔
ادلب شہر میں شہری کیمیائی ہتھیاروں پر مغربی دنیا کے مخصوص اشتعال کی منظرکشی اوربیرل بموں سے مارے جانے والے شامی باشندوں سے ناانصافی پر مبنی اس کارٹون کو انٹرنیٹ پر آپس میں شیئر کررہے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت ہو یا نہیں،مسزتھریسامے نے درست اقدام کیا ۔اوریہ ان کا فیصلہ تھا ،نہ کہ پارلیمنٹ کا ،جو یہ فیصلہ کرتی۔سب سے پہلی بات تو یہ کہ ،شام پر کیے گئے ان فضائی حملوں نے بشارالاسدپر ان کے ظلم وزیادتی کے ایک عنصرکے لئے کم ازکم کسی حدتک جرمانہ عائد کردیا ہے اورآئندہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کو تنصیب کرنے کے بارے میں دوبارسوچنے پر مجبورکرے گا۔دوسری بات یہ کہ انہوں نے اپنی حکومت کے ساتھ مغربی ممالک کی اخلاقی نفرت کا اظہار کیا ہے۔تیسری بات یہ ہے کہ وہ شام میں جاری درپردہ جنگ میں ملوث تمام طاقتوں کو وہ متنبہ کررہے تھے مغربی دنیا مکمل طورپر اپنی طاقت خرچ نہیں کررہی اورمخصوص حالات میں ایسی کارروائی کے لئے اسے متحرک کیا جاسکتا ہے۔چوتھی بات یہ کہ وہ اس نظریے کے بارے میں غوروفکر کررہے تھے کہ بین الاقوامی روایات کا معاملہ بیچ میں آئے گا ،اگرچہ خودان کی اصلیت میں بہت زیادہ نقص ہے۔اب تک رپورٹس کے مطابق ،ان تمام ترنتائج کے حصول کے لئے ،کوئی شخص ہلاک نہیں ہوا ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں’’مشن تکمیل کو پہنچ گیا‘‘
ہماری ٹی وی اسکرینوں پر ہیجان زدہ مباحثے متحرک ضروررہے ،بہرحال ،آپ دیکھیں گے کہ یہ مشن کس قدرناقابل یقین حدتک غیر اخلاقی تھا۔اسٹرٹیجک حوالے سے اگر دیکھا جائے تو یہ ایک غیر متعلقہ کارروائی تھی،اوراس کی اسی مناسبت سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔حقیقت حال میں ،ان فضائی حملوں نے دوپیغامات دیے ہیں۔پہلا پیغام وہ تھا جس کا اظہار ہماری حکومتوں نے کردیا۔دوسراپیغام ،اس کارٹون کھوپڑیوں کی طرف اشارہ ہے ،جویہ ہے کہ مغربی رائے دہندگان کا فوجی مداخلت پر یقین جاتا رہا ،اب کوئی اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ ہم انسانی المیوں یا بحرانوں کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،اورنہ کبھی اپنی حکومتوں کو اس بات کی اجازت دیں گے کہ وہ ہمارے خطے سے باہر کسی تنازع میں انتہائی حد تک ملوث ہوں۔یہ امر شام کے حوالے سے اسی قدر سچائی پر مبنی ہے جیساکہ یوکرین میں اس کی حقیقت ظاہرہے۔
اختتام ہفتہ شام میں مغربی ممالک کی گئی کارروائی کو عمومی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔اس حوالے سے عوامی رائے کے ایک جائزے سے معلوم ہوا کہ دوتہائی برطانوی باشندوں نے اس کارروائی کی مخالفت کی۔یہ مخالفت کسی حد ٹرمپ کے بہت سے حمایتوں کی جانب سے پھیلائی گئی’ صرف اپنے ملکی مفادسے وابستگی‘یعنی ایسا نظریہ کہ ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہئے، کی سوچ کی صورت اختیارکرے گی،یہ درست طرزعمل ہوسکتا ہے،اوربین الاقوامی قوانین سب فضول،بناوٹی اورفریب ہیں۔جبکہ ایک دوسرا گروپ ،جو جیریمی کوربن جیسی ذہنیت کے حامل ہیں،جو اس عمومی نظریے پر یقین رکھتے ہیں کہ بم برسانا غلط اقدام ہے،اورخوداپنی حکومت کو قصوروارفریق گردانتے ہیں ۔
یہ تصورکرتے ہوئے کہ یہ ایک مستقل جنگجویانہ عمل ہوگا۔
لیکن اس بارے میں ایک تیسرا گروپ بھی ہے،جو میرے خیال میں ان دونوں بلکہ سب سے بڑا ہے،وہ صرف اس نقطہ نظرکو نہیں دیکھتا۔حالیہ تاریخ سے یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ اگرہم طاقتورہتھیاروں اورگولہ بارودسے لیس ہیں اورحیرت انگیز رفتارسے اپنے فوجی مقا صدحاصل کرتے ہیں ،جیساکہ عراق اورلیبیا میں ہوا،اورحتیٰ کہ ہم امدادپر اربوں خرچ کرتے ہیں، پائیدارجمہوریتیں جنگجو،فرقہ پرست ریاستوں سے وجود میں نہیں آتی ہیں۔اس کے بجائے، آپ کو قاتل مسلح دستوں،طاقتورجرنیلوں اورسرکش دہشت گرد ریاستوں پر قابو پانا ہوگا۔فوجی مداخلت ایک ’آسان ‘ادنیٰ ساحصہ ہے۔
دریں اثنا،شام کا مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے جیسا کہ یہ شروع سے رہاہے۔تقریباًچھ ماہ قبل،اس نظریے کا وسیع پیمانے پر پھیلاؤ شروع ہوگیا کہ شام میں خانہ جنگی کا ختم ہوگیا ہے جس میں مسٹراسد(شامی صدربشارالاسد) جیت گئے ہیں۔لبنان میں،سیاستدانوں نے ان لاکھوں مہاجرین کو اپنے ملک واپسی بھیجنے کی بات شروع کی جو ان کی سرزمین پر بے ضابطہ طورپر رہائش پذیر ہیں۔ مغربی حکومتوں نے دولت اسلامیہ یعنی داعش کو یہاں سے نکالنے میں مدددی،وہ جانتی تھیں کہ وہ بالواسطہ طورپر مسٹراسد کے لئے ایک بہت بڑاکام کررہی ہیں،اوروہ خاموشی کے ساتھ اس صورتحال سے دستبردارہوتی ہوئی دکھائی دیں۔لیکن یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی،اورشام کی صورتحال مزیدگھمبیر ہوتی جارہی ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ دولت اسلامیہ (داعش)کی ’’خلافت‘‘ ختم گئی ہو،لیکن اس کی جگہ اب مختلف ٹکڑیوں میں جہادی گروپس نموداہوگئے ہیں۔لاکھوں باغیوں نے ادلب پر قبضہ کرلیا ،ادلب وہ شہر ہے جہاں سے جب کبھی جنگ بندی پر اتفاق رائے ہوجائے جنگجوؤں سے خالی کرایا جانا ہے۔ترکی نے افرین پر جارحیت کرتے ہوئے کردوں کو ان کے عزائم کی تکمیل سے روکنے کا موقع حاصل کرلیا ہے۔رقہ ،جسے دولت اسلامیہ سے کردوں اورعرب باغیوں کی زمینی دستوں نے ملکر مغربی اتحاد ممالک کے فضائی حملوں اورانٹیلی جنس تعاون کے ذریعے خالی کرایا تھا،کا مستقبل اس مسلسل تبدیلی سے دوچارہے۔یہ حال ہی کی بات ہے کہ صدرٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ تمام امریکی فوجیوں کو (شام سے)نکال لیں گے،اگرچہ ان کے قومی سلامتی کے نئے مشیر جان بولٹن ممکنہ طورپر انہیں اس اعلان پر دوبارہ غور کرنے کرنے پرآمادہ کرلیں۔
اسرائیل نے حزب اللہ،ایران کی حمایت یافتہ مسلح دستے جن کے جنگجوؤں نے مسٹراسد(صدراسد)کو بہت زیادہ مددفراہم کی ہے،کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ختم کرنے اوراس حوالے سے مخصوص اہدات کو بمباری کا نشانہ بنانے کی کوششوں کو تیزترکردیا ہے۔شام میں حزب اللہ کی کامیابی اوراسرائیل لبنان سرحد پر فوجی قوت میں بے تحاشہ اضافے کا مطلب ہے کہ ایران اپنے دائرہ اثرورسوخ کو بحیرہ روم تک توسیع دے رہاہے۔یہ کچھ ایساہی ہے جسے نہ تو خلیجی ریاستیں اورنہ ہی اسرائیل قبول کرے گا(اسرائیل کے حوالے سے اس معاملے میں حقیقی وجوہ ہیں)۔اس لیے یہ امکان پیداہوتا ہے کہ اس حوالے سے ایک نیا محاذ کھولا جاسکتا ہے ،اوراگرایسا کیا جاتا ہے تو روس کا کردارکیا ہوگا،ابھی معلوم نہیں۔یہ(روس) اسرائیل کے ساتھ تصاد م کی خفیف سی خواہش رکھتا ہے لیکن اس کے دشمنوں کے ساتھ عسکری طورپر مشکلات میں الجھا ہوا ہے۔
مسابقتی مفادات کا سانپوں سے بھرا گڑھا جو ہر لمحے تبدیل ہورہا ہے ،کا سامنا کرتے ہوئے ،امریکا اوربرطانیہ کے لئے سب سے بہترین حل یہ دکھائی دیتا ہے کہ اس پر کڑی نظررکھی جائے اورجب کبھی فائدہ نظرآئے اس وقت مداخلت کی جائے۔روس اوراب ترکی بھی تک شام کے بحران میں زمینی اقدامات کے حوالے سے انتہائی حدتک ملوث ہوگئے ہیں،2013 کے خدشات کے مقابلے میں اس وقت کسی بھی بڑے پیمانے پر مداخلت کے خطرات زیادہ ہیں ،جب پارلیمنٹ نے عراق کی جانب سے دولت اسلامیہ یعنی داعش مخالف بمباری مہم کو توسیع دینے کے حکومتی اقدام کو روک دیا تھا۔
اس لیے اس کے بجائے،مغربی ممالک کو بغوردیکھنا ہوگا اورجب کبھی ممکن ہو اپنے اتحادیوں کی مددکرنا ہوگی۔ان مداخلتوں کو عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہوگی نہ ہی ایسے اقدامات پر اقوام متحدہ منظوری دینے کا مہرثبت کرے گی،جیساکہ مسٹرجیریمی کوربن نے احمقانہ طورپر یہ تجویز دیتا ہے کہ ایسا ہوجانا چاہئے،یہی وجہ ہے کہ روس نے اپنے مفادات کے خلاف اقوام متحدہ میں پیش کی گئی تمام قراردادوں کو مستردکردیتا ہے۔
یہ وہ اتحادی ماڈل جس نے دولت اسلامیہ یا داعش کو شکست سے دوچارکیا ،جس میں مغربی اتحادی ممالک کے فضائی کارروائی اورانٹیلی جنس تعاون دیگرزمینی اتحادیوں کو فراہم کیا گیا،سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح یورپ اورامریکا مکمل طورپر جنگ میں الجھنے کے بغیر اپنے بعض اسٹرٹیجک مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔سردست ،مغربی ممالک کے رائے دہندگان اس کی ہی اجازت دے سکتے ہیں،اوراگرحقیقت پسندی سے دیکھا جائے ،تو کون ہے جو انہیں الزام دے۔