قصے بہت ہیں۔ ہر قصہ طولانی بھی ہےاورحساس بھی۔ ان سب سے البتہ پہلے ’’جنگ‘‘ کے رپورٹر کی فنکارارانہ صلاحیت کو داد دیئے بغیر چارہ نہیں جس نے (ن) لیگ، چوہدری نثار اور شہبازشریف کی سیاسی مثلث کے تازہ ترین زاویوں کی نشاندہی کرنے میں ایسی صحافتی تکنیک کا نہایت ہی دلچسپ کمال دکھایا۔ واقعی طبیعت عش عش کر اٹھی۔ رپورٹر رقم طراز ہے:۔ ’’وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے جمعرات کے روز پنجاب ہائوس میں سابق وزیرداخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنما چوہدری نثارعلی خان سے طویل ملاقات کی۔ یہ گزشتہ چند دنوں کے اندر وزیراعلیٰ پنجاب اور چوہدری نثار کے درمیان چوتھی ملاقات تھی۔ ذمہ دارذرائع کے مطابق چوہدری نثار نےاپنے تحفظات اور موقف سے آگاہ کیا۔ میاں شہباز شریف نے اس ملاقات میں بھی چوہدری نثار کو منانے کی بھرپور کوشش کی مگر ان کے تحفظات اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ میاں شہبازشریف نے چوہدری نثار کو منانے کی حتی المقدور کوشش کی اور ان کے تحفظات دور کرنے کا یقین بھی دلایا مگر چوہدری نثار اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ذرائع کے مطابق لاہور میں ہونے والی دوگھنٹے کی ملاقات میں میاں شہبازشریف نے چوہدری نثار کو ’’کول ڈائون‘‘ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔‘‘ چوہدری نثار صاحب کو راضی کرنے کے حوالے سےشہباز شریف صاحب کی ’’آہ و زاری‘‘ کی حد تک کوشش ’’کول ڈائون‘‘جیسی تہذیبی صحافت سے بیان کرنے کی قابلیت نے اس رپورٹر کو کسی بھی اعلیٰ ’’صحافتی ایوارڈ‘‘ کا حقدار بنا دیا ہے۔ یہ ایوارڈ اس کے لئے اس وقت اور بھی ضروری ہو جاتا ہے جب یہ ملاقات جمعرات کوہوئی ہو اورجمعہ کے روز عمران خان چوہدری نثار کی ’’سیاسی عظمت‘‘ (پہلی بار) کا نعرہ مستانہ بلند کردیں۔ خان صاحب نے آج بروز جمعہ کہا ہے: ’’چوہدری نثار نے مریم نواز کا حکم نہ مان کر غیرت مندانہ اقدام کیا۔ چوہدری نثار نےاس خاتون کےآگے جھکنے سے انکارکیا جس کی صرف نواز شریف کی بیٹی کے سوا کوئی حیثیت نہیں۔ چوہدری نثار کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دیتا ہوں۔‘‘ یہ ’’باضابطہ دعوت‘‘ بھی خان صاحب نے ’’پہلی ہی بار‘‘ ارزاں کی ہے۔ معلوم نہیں چوہدری نثار (ن) لیگ کی قیادت سے ناراض ہی رہتے یا مان جاتے ہیں۔ بہرحال تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، چوہدری محمد سرور، علیم خان، فوادچوہدری وغیرہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے اور انہیں کتنے نمبرکی قطارمیںبٹھاتے یابیٹھنے دیتے ہیں ، اس سنسنی خیز منظر کا انتظارکرناچاہئے۔ آج تک تو اپنی قومی سیاسی جماعت کے مشکل وقت کی جنگ بندی سے نکل جانے والا کوئی رہنما ہم نے قومی سیاست میں ’’زندہ‘‘ نہیں ہمیشہ ’’مردہ‘‘ ہوتا ہی دیکھا سوائے (ق) لیگ کے چوہدری برادران کے! دیکھتے ہیں چوہدری نثار کا ستارہ بھی چوہدریوں جیسا ہے یا آسمان سیاست سے ٹوٹ کر گرنے والا شہاب ثاقب ثابت ہوگا؟
خان صاحب نے مگر اپنے 20ارکان کو ’’ایکسپوز‘‘ کرکے سیاسی چھکے سے بھی کہیں زیادہ زور دار شاٹ لگائی تھی۔ اتنی زوردار جس کے باعث ’’گیند‘‘ تماشائیوں کی گیلری میں جاگری مگر فوراً لوگوں نے یہ سوال اٹھا دیا، چوہدری سرور پنجاب اسمبلی میں اپنی جماعت کے ارکان سے دگنے ووٹوں کے ساتھ سینیٹ میں کس طرح پہنچ گئے؟ خان صاحب اس کی تفصیل بھی بیان کریں۔ ساتھ ہی صوبہ سرحد کی اسمبلی کی آئینی پوزیشن تحریک ِ انصاف کے صوبائی اقتدار کی اب تائید نہیں کرتی، سیاسی بصیرت مندوں نے ان 20ارکان کی ’’قربانی‘‘ کو عام قومی انتخابات کو اپنے آئینی وقت سے ملتوی کرنے کا ایک شاخسانہ قرار دے دیاہے۔
پاکستان کے شہریوں کو نہایت تدبر کے ساتھ روٹین کی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی معاملات پر غور کرنا چاہئے مثلاً یہ 2018ہے، حساب کی رو سے پاکستان کے قیام کا ماشاء اللہ 71واں برس جا رہا ہے، اس 71ویں برس تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور آئی ایس آئی اسلام آباد کے سابق اسٹیشن چیف میجر (ر) محمد عامر نے بعض تاریخی صداقتوں کی جانب ہمیں متوجہ کیا، عمران خان کا کہنا ہے ’’فوج نے ہمیں بچایا ورنہ ہماری حالت دوسرے مسلم ممالک جیسی ہوتی پختونوں کو فوج کے خلاف اکسانے والے ملک دشمن ہیں۔ ‘‘ میجر (ر) محمد عامر صاحب کا کہنا ہے ’’پاکستان سے نفرت کرنے والا مضطرب ٹولہ پختون تحفظ موومنٹ کو اپنی امیدوں کا نیا مرکز اور مورچہ بنانا چاہتا ہے۔ دہشت گردی کے پیچھے ’’وردی‘‘ کا نعرہ واشنگٹن سے آیا ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی چادر میں گھس گئے، پھر کوئٹہ جا کر کہنے لگے، دیکھو ہم نے پنجابیوں کو فوج سے لڑا دیا، یہ قبائلی اور پختون نوجوانوں کی صفوں میں گھس کر پختونوں کے بارے میں ایسا ہی اعلان کرنے کے خواہش مند ہیں، یہ صرف اپنے غیر ملکی خریداروں کی نظروں میں اپنا ریٹ بڑھانے کی کوشش ہے۔ پاکستان ہمارا گھر، ہمارا حجرہ اور ہماری عبادت گاہ جبکہ فوج اس کی محافظ ہے۔ ڈیڑھ لاکھ امریکی فوج 40ممالک کے ساتھ مل کر جو امن افغانستان کو نہ دے سکی وہ پاکستانی فوج نے تن تنہا لڑ کر ہمیں دیدیا، سب جانتے ہیں فوج نے اپنےسنجیدہ اور خوبرو نوجوانوں کو قربان کر کے یہ کارنامہ انجام دیا، میں پوچھتا ہوں جب مشرف امریکی جنگ پاکستان لائے اور ہمارے وطن بالخصوص پختون علاقے میں تباہی و بربادی پھیلائی یہ لوگ اس وقت نہ صرف خاموش بلکہ در پردہ اس کے ساتھ تھے، آج جبکہ فوجی قیادت کی کامیاب منصوبہ بندی ہے ہم مکمل امن کے قریب ہو چکے ہیں اچانک یہ نعرہ زن کہاں سے آ گئے؟ جب موجودہ فوجی قیادت فوجی آپریشن کے اثرات بد دور کر رہی ہے تو پھر تازہ مہم جوئی سمجھ سے بالا ہے۔ کیا یہ موجودہ فوجی قیادت نہیں تھی جس نے کہا اب دنیا ڈو مور کرے، ہم افغانستان کی جنگ پاکستان نہیں لا سکتے۔ انہوں نے کہا پی ٹی ایم (پختون تحفظ موومنٹ)کے نوجوانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ پختونوں میں قوم پرستی، عصبیت، حقوق کی پامالی یا پاکستان سے بدگمانی کی مہم کو پہلے پذیرائی ملی نہ آئندہ کوئی امکان ہے، پاکستان پختونوں کا واحد سائبان ہے پختونوں کے مورچوں سے نکلنے والی ہر گولی پاکستان کے دشمنوں کے سینوں کا رخ کرتی ہے، پی ٹی ایم نے اگر زندہ رہنا ہے تو پاکستان زندہ باد کہنا ہو گا۔‘‘ عمرا ن خان اور میجر (ر) عامر نے افواج پاکستان کے حوالے سے جن تاریخی صداقتوں کا احساس دلایا وہ ایک سچے پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔
بلوچستان، سرائیکی وسیب اورکراچی کی مصیبتوں کا حل قدوس بزنجو، خسرو بختیار اورمصطفیٰ کمال کی شکلوں میں برآمد ہوچکا ہے، سندھ میں مجدد سیاست آصف علی زرداری کو بھی مہارت دکھائی جاسکتی ہے۔ میجر (ر) عامر صاحب نے پختونوں کے اندر جن ’’شرپسندوں‘‘ کی نشاندہی کی ہے اس سے بھی نمٹا جاسکتا ہے۔ تھوڑا سا بنیادی سیاسی بحران ’’نوازشریف‘‘ کی شخصیت ہے، اس شخصیت کے بیانیے نے معاملہ ضرور مشکل بنا دیا ہے لیکن جلد ہی یہ صورتحال اس وقت اپنا فیصلہ دے دے گی جب نگران حکومتوں کا قیام عمل میں آئے گا یعنی پھربھی نواز شریف اس بیانیے پر قائم رہتے ہیں یا نہیں؟
دو اور قصوں پرگفتگو فوری توجہ کی مستحق ہے! پہلا پیپلزپارٹی کے ندیم افضل چن کی تحریک انصاف میں شمولیت پر بلاول کا ناقابل فراموش جملہ اور تبصرہ۔ انہوں نےکہا :’’ندیم افضل چن نظریاتی تھے نہیں مگر نظرآتے تھے‘‘ آپ یقین کریں پاکستان پیپلزپارٹی میں ابھی اوربہت سے ایسے دریا ہیں جنہیں بلاول کے اس جملے کے کوزے میں بند کرناناگزیر ہے۔ دوسرے گزشتہ روز سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی دانشور صاحبزادی اور پیپلزپارٹی کی خاتون رہنما نفیسہ شاہ، دفتر’’جنگ‘‘ تشریف لائیں۔ ’’جنگ‘‘ کے صحافیوں نےانہیں حد درجہ احترام دیا، محترمہ نفیسہ شاہ نے پاکستان میں سیاسی اور لسانی صورتحال پر ایک تاریخی کتاب لکھی ہے۔ کتاب اپنے موضوعات و مواد میں متحرک ترین ہی نہیں انسانی ضمیر کی پاکیزہ ترین صداہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)