پشاور(نیوزایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے خیبرپختونخوا میں مناسب لیبارٹری نہ ہونے کی وجہ سے پشاور کا پانی پنجاب سے ٹیسٹ کرانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے آئی جی خیبرپختونخوا اور چیف سیکرٹری کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اگر منصب اجازت دیتا تو آئی جی کو سیلوٹ کرتا۔ عدالت نے خیبرپختونخوا میں عطائی ڈاکٹروں کیخلاف کارروائی کیلئے ایک ہفتے کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ جس نے اسٹے آرڈر لینا ہے وہ سپریم کورٹ آئے۔ جبکہ غیر متعلقہ افراد کی سیکورٹی سے متعلق کیس میں آئی جی خیبرپختونخوا صلاح الدین محسود نے رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں دوسرے روز بھی مختلف کیسوں کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے خیبرپختونخوا میں عطائی ڈاکٹرز کے کلینک ایک ہفتے کے اندر بند کرنے کا حکم دے دیا ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کوئی اسٹے آرڈر جاری نہیں کرے گا۔ کسی نے اسٹے آرڈر لینا ہے تو سپریم کورٹ آئے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پشاور رجسٹری میں صحت کی سہولیات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اس دوران چیئرمین ہیلتھ کئیر کمیشن عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کے استفسار پر چیئرمین ہیلتھ کئیر کمیشن نے بتایا کہ صوبے میں 15ہزار عطائی ڈاکٹرز ہیں جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ نے کتنی کارروائیاں کیں اور کتنے عطائیوں پر پابندیاں لگائی ہیں۔چیئرمین نے بتایا کہ 122 عطائیوں پر پابندی لگائی جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی ڈیوٹی ہے اس کے خلاف ایکشن لیں ۔ آپ کتنی تنخواہ لیتے ہیں ؟جس پر چیئرمین نے کہا کہ وہ پانچ لاکھ تنخواہ لیتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تنخواہ آپ کی پانچ لاکھ روپے ہے اور کام صفر ہے۔ انہوں نے چیئرمین سے کہا کہ ایک ہفتے میں عطائیوں کے خلاف ایکشن چاہیے۔ اسٹے آردڑ جاری نہیں کریں گے۔ جس نے اسٹے آرڈر لینا ہے وہ سپریم کورٹ آئے۔ چیف جسٹس نے ایک ہفتے کے اندر صوبے میں تمام عطائیوں کے کلینک بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔اسی طرح سپریم کورٹ نے صاف پانی فراہمی سے متعلق کیس میں مختلف علاقوں سے پانی کے نمونے لینے کا حکم دے دیا۔