• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے ایک نجی کام کے سلسلے میں لندن جانے اور وہاںچند دن قیام کرنے کا اتفاق ہوا ۔ لندن عظیم الشان تاریخ اور اعلیٰ روایات کا امین شہر ہے ۔ لندن کو دو صدیوں سے دنیا بھر میں چلنے والی بڑی سیاسی تحریکوں کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے ۔ جدید دنیا کے بڑے انقلاب کے سوتے بھی اسی شہر سے پھوٹے کیونکہ ان تحریکوں اور انقلابوں کی قیادت کرنے والی زیادہ تر شخصیات لندن میں زیر تعلیم یا مقیم رہیں ۔ آج بھی دنیا کے مختلف ممالک سے بوجوہ جلا وطنی اختیار کرنے والوں کا مسکن لندن ہی ہے۔ لندن کارل مارکس کی آخری آرام گاہ ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال سمیت تحریک آزادی کے کئی رہنماؤں کی میزبانی کا شرف لندن کو حاصل رہا ہے ۔ نو آبادیاتی تسلط سے آزادی کی تحریکوں اور سامراج مخالف تحریکوں کے زیادہ تر قائدین کی پرورش لندن نے کی ۔ اس طرح تاریخ کے ایک طالبعلم اور سیاسی کارکن کی حیثیت سے اس شہر کے ساتھ رومانوی تعلق محسوس ہوتا ہے ۔
دنیا نے یہاں برصغیر کی ترقی پسند مصنفین کی تحریک کو پروان چڑھتے دیکھا ۔ سجاد ظہیر اور دیگر ترقی پسند رہنماؤں کی یادیں لندن نے سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں ۔ جمہوری تحریکوں کیلئے میں نے یہاں منصوبہ بندی ہوتے دیکھی اور اس حوالے سے پاکستان کے بڑے سیاسی قائدین کے ساتھ لندن میں ہونیوالے اجلاسوں میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل ہوا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے مابین تاریخی میثاق جمہوریت پر اسی شہر میں دستخط ہوئے ۔ تاریخ میں بہت اتار چڑھاؤ آئے لیکن لندن سیاسی طور پرہمیشہ متحرک رہا ۔ اس وقت پوری دنیا سیاسی تھکن یا غیر سیاسی رویوں کا شکار ہے ۔ لیکن لندن کے سیاسی مزاج میں آج بھی ہمیشہ کی طرح جوش اور ولولہ موجود ہے ۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ اور اسکی اتحادی سامراجی طاقتوں کے نیو ورلڈ آرڈر اور دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ کے دوران دنیا بھر میں ترقی پسند اور سامراج مخالف تحریکیں کمزور ہوئیں اور سیاسی جمود طاری ہوا لیکن ہم نے دیکھا کہ عراق پر امریکی حملے کیخلاف لندن میں لاکھوں افراد سڑکوں پر آگئے۔ عالمی امن کیلئے آواز وہیں اٹھی ۔ آج بھی عالمی طاقتوں کی استبدادی حکمت عملیوں کیخلاف سب سے بلند اور با اثر آواز لندن سے ہی اٹھتی ہے ۔ یہ ایک حیرت انگیز شہر ہے ۔ جہاں قدم رکھتے ہی لاتعلقی اور بے گانگی کا احساس معدوم ہو جاتا ہے ۔
ایک شام Que'ens Counselبیرسٹر صبغت اللہ قادری کے گھر پر دوستوں کیساتھ بڑی یادگار نشست رہی ۔ 75 سالہ صبغت اللہ قادری بہت عظیم آدمی ہیں وہ آج بھی پرجوش ہیں ۔ ایوب خان کے دور حکومت میں وہ طالبِ علم سرگرمیوں میں پہلے سیاسی قیدی تھے ۔ اسی زمانے میں انہیں جبری جلا وطنی اختیار کرنا پڑی ۔ اس وقت کے نوجوان صبغت اللہ قادری نے لندن کو مسکن بنایا ۔ یہاں انہوں نے اپنے روزگار کیساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں ۔ انکی اہلیہ اور ہماری بھابھی پولینڈ کی کمیونسٹ پارٹی کی سرگرم کارکن رہی ہیں ۔ وہ پاکستانی خواتین سے زیادہ مہمان داری کرتی ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کریتا بھابھی پاکستانی کھانے اپنے ہاتھ سے بنا کر مہمانوں کی تواضع کرتی ہیں ۔ صبغت اللہ قادری آج بھی لندن میں مظلوم قوموں اور مظلوم طبقات کیلئے وہاں ہونیوالی جدوجہد کی علامت ہیں ۔ وہ پاکستانی سیاست کے اتار چڑھاو اور سیاسی تحریکوں کے امین ہیں۔ بیرسٹر قادری جمہوری اور انسانی حقوق کی تحریکوں میں آج بھی بہت آگے رہتے ہیں اور پاکستان سمیت تیسری دنیا کے سیاسی حلقوں میں ان کا بڑا احترام ہے۔اس شام کی نشست میں شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور انتہائی قابلِ احترام سابق جج آغا رفیق، پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی کامیاب بیوروکریٹ اور کامیاب سیاستداں امتیاز شیخ ، تھرڈ ورلڈ سالیڈیرٹی کے مشتاق لاشاری ، لیاری کراچی کے پرجوش نوجوان سیاسی لیڈر حبیب جان ، سندھ سے تعلق رکھنے والے سینئر بیورو کریٹ ثاقب سومرو اور دیگر بہت سے لوگ بھی موجود تھے ۔ لندن میں بیٹھ کر عالمی سیاست اور ملکی سیاست کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کی کتاب ’’ Governing the Ungovernable ‘‘ اور چوہدری شجاعت حسین کی کتاب ’’ سچ تو یہ ہے ‘‘ پر بڑی عالمانہ بحث رہی ۔ ڈاکٹر عشرت حسین پاکستان میں کئی حوالوں سے انتہائی معتبر نام ہے۔ وہ ایک بیورو کریٹ، اکنامسٹ اور بینکر بھی ہیں۔ عالمی بنک میں بھی رہے تھے چناچہ معیشت میں authority سمجھے جاتے ہیں۔ اس نشست کے علاوہ اور بھی بہت سی شخصیات سے ملاقاتیں رہیں اور ایک نئے وژن کیساتھ وہاں سے واپس لوٹا ۔
میں اپنی جوانی کے دور سے لندن جا رہا ہوں اور اب تو کچھ زیادہ ہی جانا پڑتا ہے کیونکہ میری صاحبزادی بینش وہاں مقیم ہیں ۔ وہ ماہر نفسیات ہیں اور وہیں کام کرتی ہیں ۔ اس نے سوال کیا کہ لندن میں ہر جگہ لوگ پڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں پاکستان میں کیوں نہیں؟ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میں ہر مرتبہ لندن جا کر کچھ باتوں پر حیرت زدہ ہوتا ہوں اور ان کے اسباب تلاش کرتا ہوں ۔جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ لندن کے سماج میں سیاسی لاتعلقی پیدا نہیں ہوئی۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں سیاسی جمود اور تھکن کے باوجود وہاں کی تحریکوں کو ان ملکوں کے لوگوں نے لندن میں زندہ رکھا ہوا ہے ۔ دوسری حیرت کی بات یہ ہے کہ انگلستان کو اشرافیہ کا معاشرہ قرار دیا جاتا ہے ، جہاں اشرافیہ کی خاندانی اور اخلاقی قدریں اور روایات پہلے کی طرح موجود ہیں ۔ دنیا میں یہ قدریں اور روایات دم توڑ چکی ہیں لیکن میں نے لندن مین کبھی کسی پروٹوکول کی گاڑی کے ’’ ہوٹر ‘‘ کی آواز نہیں سنی اور سڑکوں پر اسلحے سے لیس سیکورٹی گارڈوں کی ہٹو ہٹو کی آواز نہیں سنی۔ وہاں سڑکوں پر پولیس بھی نظر نہیں آتی ۔ تیسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب نے دنیا کے اکثر ملکوں میں لائبریوں کو ختم یا ویران کر دیا ہے لیکن لندن کی نہ صرف پرانی لائبریوں میں مزید توسیع کی جا رہی ہے اور کتابوں ، تاریخی ریکارڈ ز اور دستاویزات کی دولت سے مالا مال کیا جا رہا ہے بلکہ نئی لائبریاں بھی بن رہی ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ خان عبدالولی خان جب اپنی کتاب لکھ رہے تھے تو انہوں نے اس کیلئے لندن کی لائبریوں سے استفادہ کیا ۔ دولتانہ ، بھٹو اور بعد میں بینظیر بھٹو بھی وہاں جاتے رہے ہیں۔ آج بھی دنیا بھر کے محققین ان لائبریوں میں پائے جاتے ہیں مگر ہمارے رہنما نہ صرف کتاب پڑھنے سے گریزکرتے ہیں بلکہ اخبار بھی پڑھتے نہیں سنتے ہیں ۔ ایک اور حیرت کی بات یہ ہے کہ آبادی میں اضافے اور شہر میں توسیع کے باوجود لندن کا ٹریفک انتہائی منظم ہے ۔ وہاں افراتفری نہیں ہے ، جیسا کہ امریکہ اور یورپ کے بعض شہروں میں کچھ کم اور ہمارے جیسے ملکوں میں بہت زیادہ نظر آتی ہے۔ کسی بھی گھر میں generator نہیں اور بجلی بھی کبھی نہیں جاتی۔ انہوں نے اپنے ریلوے کے نظام کو نہ صرف بچا کر رکھا ہے بلکہ بہتر کیا ہے ۔ ہمارے ہاں ریلوے کا حیرت انگیز نظام انگریزوں نے بنایا تھا اور ریلوے لائن بچھنے پر کارل مارکس نے کہا تھا کہ ہندوستان میں کمیونزم کی بنیاد پڑ گئی ہے لیکن ہم نے یہ نظام اور انگریزوں کا بنایا ہوا دیگر انفرا سٹرکچر تباہ کر دیا ہے ۔ وہاں صدیوں پرانے انفراسٹرکچرز موجود ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کے ساحل بھی ایسے ہی صاف ستھرے ہیں ، جیسے آبادی نہ ہونے کے وقت تھے ۔ گھروں کے نلوں میں پانی بلکل صاف آتا ہے اور پینے کے لئے موزوں ہے۔ سالوں بعد جانے کے بعد بھی لندن کے پہلے سے دیکھے ہوئے علاقے ویسے ہی ہوتے ہیں ، جس طرح سالوں پہلے تھے ۔ ان علاقوں کی قدامت اور پرانی شان و شوکت کی وجہ سے ان علاقوں سے بے گانگی محسوس نہیں ہوتی ۔ جس طرح ہمارے اپنے شہر کے علاقوں میں ایک ماہ بعد جاکر ہوتی ہے کیونکہ وہاں ہر چیز تبدیل ہوتی ہے ۔ یہ واقعی ایک حیرت انگیز شہر ہے ۔ وہاں جا کر لاتعلقی ، بے گانگی ، فکری جمود ، تھکن کا وہ احساس ختم ہو جاتا ہے ، جو ہمارے ملک کے اندر ہمارے وجود پر بوجھ بن جاتا ہے ۔ ثقافتی تنوع ( Cultural Diversity ) جس قدر لندن میں ہے ، وہ دنیا کے کسی اور شہر میں نہیں ۔ مختلف مذاہب ، قوموں ، تہذیبوں اور ثقافتوں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں اور وہاں آزادی کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ کسی کے معاملے میں مداخلت نہ کرو اور کسی کو تکلیف نہ دو ۔ اگرچہ سامراج ، نو آبادیاتی تسلط اور استحصال کے خالق بھی اینگلو سیکسن نسل کے لوگ ہیں لیکن سامراج ، نو آبادیاتی تسلط اور استحصال اور نسل پرستی سے نفرت بھی ہم نے ان لوگوں سے سیکھی ۔ آزادی ، جمہوریت اور بنیادی حقوق کے انقلابی تصورات بھی انہی لوگوں نے دیئے ۔ کاش ہم انگریزوں کی دوسری باتیں بھی سیکھتے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین