فنونِ لطیفہ کے لوگ موسیقی کو روح کی غذا کہتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اچھی اور میٹھی موسیقی سُن کر انسان ایک سرور آمیز کیفیت سے دو چار ہوجاتا ہے۔ روح ایک ناقابل بیان تسکین و لذت سے آشنا ہوتی ہے اور اگر ایسی موسیقی کو کسی سُریلی آواز سے ہم آہنگ کرکے شاعری کے پیرہن میں سمو دیا جائے تو گیت جنم لیتا ہے۔
گیت ہماری فلموں کا ہمیشہ سے لازمی جزو رہا ہے۔ شاعر اپنے خیال کو لفظوں میں پروتا ہے، پھر موسیقار اس کی دھن مرتب کرکے اسے سازوں سے آراستہ کرتا ہے اور تیسرے مرحلے میں گائیک کی آواز شاعر کے خیال کے ساتھ موسیقار کی مرتب کردہ دُھن کے سانچے میں ڈھل کر ’’گیت‘‘ بنتا ہے۔ نئی فلموں میں شاعری اور موسیقی جیسی جاندار اصناف کو اپنی فلم سے نہایت ظالمانہ انداز میں دور دکھیل دیا ہے۔ گویا پاکستانی سینما کے نصف حسن و رعنائی کو آج کے فلم میکر نے اپنے ہاتھوں سے نوچ کر پھینک دیا ہے۔
اب عالم یہ ہے کہ 2011کے بعد بننے والی ریوائیول آف سینما کی اکثر فلموں میں فقط ایک یا دو گانوں سے کام چلایا گیا اور ان میں سے اکثر شعری حُسن اور سچویشن سے خالی اور لاتعلق سی شاعری کو گیت کا نام دے دیا گیا۔ اسی بات کا رد عمل ہے کہ فلم بینوں کی اکثریت آج کی فلم کو ’’ٹی وی ڈراما‘‘ سے تعبیر کرتی ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ عصر حاضر کے تمام فلم میکرز موسیقی و نغمات کو ترک کرنے کی بدعت پر کاربند ہیں۔ چند فلم میکرز ایسے بھی ہیں جو اپنی فلموں میں موسیقی و نغمات کو اہمیت دے رہے ہیں۔
جیسے کہ شعیب منصور نے اپنی معرکۃ الارا فلم ’’بول‘‘ ہر چند کہ بڑی حد تک ایک آرٹ فلم کے انداز میں بنائی تھی، لیکن انہوں نے فلم میں چھ نغمے رکھے تھے اور وہ بہت مضبوط اور جاندار سچویشن کے حامل تھے۔ شاعری کے اعتبار سے بھی سجاد علی کا گایا ہوا گیت ’’دل پریشان رات بھاری ہے زندگی ہے کہ پھر بھی پیاری ہے۔‘‘ اور شبنم مجید کا گایا ہوا مجرا گیت یا عاطف اور حدیقہ کا گایا ’’ہونا تھا پیار ہوا پہلی بار‘‘ وغیرہ شاعری کے اعتبار سے بھی متاثر کن تھے، جب کہ یاسر نواز کی ’’رانگ نمبر‘‘ بھی معدود چند ان فلموں میں سے ہے، جسے مکمل طورپر ماضی کی فلم تھیوری پر بناتے ہوئے تمام تر تفریحی لوازمات کے ساتھ ساتھ پانچ عدد اچھے گیتوں سے بھی آراستہ کیا گیا اور ہر گیت کی سچویشن سوجھ بوجھ کے ساتھ نکالی ہوئی نظر آتی ہے۔ ’’کنڈی دروازے کی‘‘ اور ’’ہائے یہ میری سیلفیاں‘‘ گو کہ عامیانہ شاعری کے حامل گیت تھے، لیکن عوامی مزاج کےمطابق دل چسپ اور صاف ستھرے ضرور تھے، جب کہ ان کی سچویشن بھی بہت موزوں اور معقول تھی۔ ہمایوں سعید کی ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ بھی ان چند سپر ہٹ فلموں میں سے ایک تھی کہ جس میں پانچ چھ گیت باقاعدہ موزوں سچویشنز کے تحت شامل کیے گئے تھے۔
سرمد کھوسٹ کی ’’منٹو‘‘ گو میکنگ کے اعتبار سے ایک تجرباتی انداز کی حامل فلم تھی، لیکن اس کی مختلف کہانیوں کی تماثیل میں 3 گیت شاعری، سچویشن، کمپوزیشن اور گائیگی کے اعتبار کے بے حد متاثر کن تھے۔ یُوں تو تمام شعرا نے اپنی اپنی بساط کے مطابق پاکستانی سینما کو یادگار نغمات سے مالا مال کیا۔ بالخصوص قتیل شفائی، تنویر نقوی، منیر نیازی، احمد راہی اور حبیب جالب نے شاعری کی مختلف اصناف میں شعری ادب کی بیش بہا دولت سے نوازا۔ شاعری کی سب سے حسین اور دلنشین صنف غزل ماضی میں پاکستانی فلمی موسقی کا سب سے موثر عنصر ہوا کرتی تھی۔
پاکستان کے دو عظیم شعرا فیض احمد فیض اور احمد فراز نے بھی فلم کے لیے نظمیں اور غزلیں تخلیق کیں۔ اگر آج کے فلم میکرز شعبہ فلم کو فنونِ لطیفہ سمجھتے اور مانتے ہیں تو وہ یہ بھی جان لیں کہ اس کی لطافتوں میں رچائو اور پائیداری و بے پناہ پسندیدگی، شعبہ شاعری اور موسیقی سے ہی ممکن ہے، اگر شاعری اور موسیقی سے اسی طرح لا تعلقی برتی جاتی رہی تو ریوائیول آف سینما کی جو اصل تصویر لوگوں کے تصورات میں محفوظ ہے۔ اس میں کبھی بھی سچے اور پکے رنگوں کی آمیزش ممکن نہ ہو پائے گی۔