سب سے پہلے سیدھی بات کہ پاکستانی نئی فلم’’ موٹر سائیکل گرل‘‘ فیملی کے ساتھ’’ دیکھنے‘‘ والی ہے۔سیدھی بات کے بعد اب بہت سارے سوالات،کیا فلم ’’کیک‘‘ سے اچھی ہے ؟ کیا فلم ون گرل ٹو وہیلز والی ’’زینتھ عرفان‘‘ کی حقیقی کہانی پر بنائی گئی ہے؟فلم کے رائٹر اورڈایئر یکٹر نے فلم بنانے کے لیے فکشن کا کتنا سہارا لیا؟کیا سوہائے علی ابڑو نے اس فلم میں بہت اچھا کام کیا ہے؟ کیا اس سے پہلے پاکستان میں ویمین اورینٹیڈ فلمیں بنی ہی نہیں؟کیا فلم میں لوکیشن ہی لوکیشن ہے؟کیا فلم میں برانڈز بہت ضروری ہیں؟فلم میں پیغام کتنا ضروری ہے؟فلم دل کے کتنے قریب ہے ؟فلم کا مین آف دی میچ کون ہے؟ آئیے مل کر اپنے زاویے سے فلم کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو کہ دوسروں کی رائے سے مختلف ہوسکتا ہے ۔
فلم’’موٹر سائیکل گرل‘‘ دیکھنے ے لیے جانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں تو ساری کہانی پہلے سے معلوم ہے اور وہ اُس کہانی کو سینما کی بڑی اسکرین پر دیکھنے آئے ہیں، لیکن ایسا ہر گز نہیں۔ فلم کے رائٹراور ڈائریکٹر عدنان سرور نے زینتھ عرفان کی کہانی میں سسپنس سمیت کئی فلمی مسالے ڈالے، کہیں وہ کام یاب، لیکن کہیں سمجھوتے کر گئے ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ زینتھ اپنے سفر پر اکیلی نہیں تھیں اور یہ بات زینتھ نے فلم کی ریلیز سے پہلے بھی کئی بار دہرائی اور اس سے بڑی بات فلم بنانے والوں نے بھی نہیں چھپائی ۔
فلم شروع ہونے سے پہلے ’’ ڈس کلیمر‘‘ میں بھی یہ بات تحریر کی شکل میں دکھائی گئی کہ ’’کچھ واقعات حقیقی زندگی سے متاثر کچھ فکشن بنا کر ‘ ‘فلم کو جوڑا گیا۔ عدنان نے زینتھ کی کہانی کو اپنے زاویے سے پیش کیا ہے۔ فلم میں زینتھ یعنی سوہائے علی ابرو اپنے مرحوم بابا کا خواب پورا کرنے کے لیے لاہور سے خنجراب تک اکیلے موٹر سائیکل پر سفر کرتی ہے۔ فلم میں سفر اور منزل نہیں اس سے پہلے کی مشکلات کو ’’ہائی لائٹ ‘‘ کیا گیا ہے۔
ہر فلم میکر کا اپنا زاویہ اور سوچ ہوتی ہے، تو شاید کوئی اور فلم میکر ہوتا تو وہ زینتھ اور بھائی سلطان دونوں سے ’’انسپائر‘‘ ہو کر فلم بناتا، لیکن اس فلم کو ایک ’’میسج‘‘ اور’’ کمرشل‘‘ بنانےکے لیے فکشن زیادہ استعمال کیا گیا۔ کسی کی اصل زندگی پر فلم بنانا اتنا آسان نہیں اور اگرصرف زینتھ کے کردار اور سفر کی بات کی جائے تو کیا رائٹر ڈائریکٹر نے ان کی پہلے سفر والی موٹر بائیک جیسی موٹر سائیکل استعمال کی ؟کیا دونوں کی نمبر پلیٹ بھی ایک ہی تھی؟کیاسوہائے نے فلم کے لیے صرف بائیک چلانی سیکھی اور زینتھ کی طرح کے کپڑے پہنے یا ان کی طرح بول چال اور انداز بھی اپنایا ۔ سوہائے کا ’’خَنجراب‘‘ تو شاید زینتھ والا ہو، لیکن انھوں نے لفظ اور،لاہور اور عورت زینتھ کے انداز میں نہیں بولے۔
سوہائے کے لیے آفس اور منگنی والے’’ فِکشن‘‘ سے دیکھنے والوں کے لیے ہمدردی تو بڑھی، لیکن آفس سے ’’ٹرمینیشن‘‘ اور دفتر کے ساتھی کی ’’ریجیکشن‘‘ کے بعد خود بے بسی میں منگنی کے لیے راضی ہونا اور پھر منگیتر کی اجازت سے خنجراب جانا اور پھر جس وجہ سے وہ منگیتر اکیلا سوہائے کو لینے ہنزہ آتا ہے اور جو وہاں ہوتا ہے، وہ ’’فِکشن‘‘ ہضم نہیں ہوتا، کیوں کہ یہ سوہائے کے کردار کی خود غرضی کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسری طرف امریکی پاکستانی’’انویسٹمنٹ بینکر‘‘کا کوئی منفی پہلو بھی نہیں دکھایا گیا، جس سے اس کی خلاف دیکھنے والے نفرت محسوس کرتے، جیسے اس کی وہاں خفیہ شادی یا کچھ اور عدنان سرور ایک ’’اسمارٹ‘‘ رائٹر ،ڈائریکٹر اور ایکٹر ہیں، یہی وجہ ہے شاید فلم میں سب سے ’’اسمارٹ ‘‘ وہ خود نظر آتے ہیں،ان کا کردار پوری فلم میں دیکھنے والوں میں’’الجھن‘‘ پیدا کرتا ہے ۔
ان کا کردارڈھابے میں پیچھے بیٹھے ’’ڈی فوکس ‘‘ اورفوکس ہوتا ہو یا بائیک پر ٹشن دکھاتا شاعری کرتا، لیکچر دیتا اور یہاں تک کے فلمی انداز میں بائیک دور روک کر پتھروں پر شاہ رخ والے انداز میں انٹری دیتا ہو شدید’’ بے چینی‘‘ پیدا کرتا ہے۔
سب دیکھنے والے سوچتے اور بولتے ہیں’’یار یہ کون ڈراما ہے‘‘مگر آخر کے پانچ منٹ میں ساری محبت یہی کردار ’’چُرا‘‘ کر لے جاتا ہے۔وہ الگ بات ہے کہ دی اینڈ سے پہلے لیکچر کا سین آتے ہی فلم دیکھنے والے آدھے لوگ اپنی گاڑی کی وجہ سے یہ سوچ کر سینیما سے چلے جاتے ہیں کہ کہانی تو اب ختم ہوہی چکی۔ یہ لیکچر کون سنے، لیکن ڈائریکٹر اپنی بند مٹھی بالکل آخر ی سین میں کھولتا ہے، یہی فلم کا سب سے بڑا سرپرائز ہے، جو یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ فلم دل کے قریب ہے۔
فلم میں پرفارمنس کی بات ہو تو ’’مین آف دی میچ‘‘ سرمد کھوسٹ ہیں، دیکھنے والوں کو ان کی اداکاری بھلی لگتی ہے ۔ ہمارے خیال سے دوسرا نمبر سوہائے کی دوست کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ کا آتا ہے۔ سرمداور علی کاظمی دونوں نے جو کردار نبھائے ہیں، وہ ہر اداکار شاید کرنا بھی پسند نہ کرے، لیکن دونوں نے بہادری دکھائی۔ ثمینہ پیرزادہ اور شمیم ہلالی تو ہیں ہی سینئر اسٹار، انھوں نے اپنے اپنے کرداروں میں اثر چھوڑا۔سوہائے نے اِس فلم میں اچھا کام کیا ہے۔ انھوں نے اس کردار کے لیے محنت بھی اچھی خاصی کی۔
یہ فلم ان کے کیریئر کو بطور کردار آگے ضرور بڑھائے گی۔ کم اسکرین ،لوگوں کا فلم دیکھنے کا رجحان،مہنگے ٹکٹ ،بڑا رسک مارجن اور باقی رائٹس کے پیسے کم ہونے کی وجہ سے یقینا فلم میں برانڈز کی مارکیٹنگ بلکہ اشتہاروں کو برداشت کیا جانا چاہیے اور یہ ان برانڈز کا بھی بڑا پن ہے کہ وہ فلموں کو سپورٹ کر رہے ہیں، لیکن کہیں کہیں سپورٹ اور مجبور کرنے میں بھی فرق نظر آجاتا ہے۔
اب جس طرح فلم کے ایک پروڈیوسر کو دوسری فلموں کو’’آئٹم سانگ‘‘ پر اعتراض ہے۔ اس طرح کا اعتراض کوئی اُن کی فلم میں ’’جبرا ایڈ‘‘‘ پر بھی کرسکتا ہے، حالاں کہ حالات کے حساب سے دونوں کا استعمال کرنا غلط نہیں، کیوں کہ ایک طرف فلم کی لاگت کی مجبوری ہے، تو دوسری طرف کہانی کی ڈیمانڈ بھی ہوسکتی ہے اور سب سے بڑی بات فلم بنانے والوں کی مرضی بھی۔
فلم کا ٹریٹمنٹ بہت سلو ہے اور یہ اچھی خاصی ایڈیٹ بھی کی جاسکتی تھی۔ اسی پہلو کو شاید فلم کے ’’نان لینئر‘‘ اسٹائل یعنی دو تین زمانے کی انٹر کٹنگ سے قابو رکھنے کی بھی کوشش کی گئی ہے ۔ فلم کے گانے بہت موزوں اور پر اثر ہیں، لیکن بیک گراؤنڈ اسکور متاثر نہیں کرتا۔ فلم کے شروع میں جب سوہائے آفس جانے کے لیے اٹھتی ہے، اس وقت بیک گراؤنڈ میوزک کا’’ لیول‘‘ بھی زیاد ہ ہے۔کہیں کہیں جب اس کا استعمال ضروری تھا، وہاں بیک گراؤنڈ میوزک غائب بھی ہے۔
علی کاظمی جب پہلی بار سوہائے کے گھر آتے ہیں، ایک ’’شاٹ‘‘ میں ان کے ہونٹ ہلتے ہیں، لیکن آواز نہیں آتی، اب معلوم نہیں یہ سینما کا فالٹ تھا،ایڈیٹنگ کا۔ فلم میں لوکیشن کم اور ایموشن زیادہ ہیں اور یہ اچھا ہے، کیوں کہ اس طرح کی لوکیشن فلم بین ’’چلے تھے ساتھ‘‘ میں بھی دیکھ چکے تھے۔فلم میں سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی دونوں پہلو دکھائے گئے کہ کس طرح زینتھ نے ان کو استعمال کر کے اپنے فینز کے دلوں میں گھر بنایا۔
دوسروں کو حوصلہ دلایا اور کس طرح ان کو پسند نہ کرنے والے ان کو نازیبا الفاظ سے پکارتے تھے۔ ظاہر ہے ایک فلم میں سب کچھ سمونا اور ہر ایک کے زاویے کے حساب کو دیکھنا نا ممکن ہے، پھر بھی ایک طرف عدنان نے وین میں ہراسمنٹ ، ڈرائیور کا رویہ،ڈھابے کی حالت ،سوہائے کا موٹر بائیک پر وین سے آگے نکلتے ہوئے اشارہ سب منظر’’شائستگی ‘‘سے سمجھا بھی دیے ۔
دوسری طرف گجرات کے باتھ روم کی آوازوں کا لمبا سین اور علی کاظمی کا اپنے بچپن کی باتوں کا خواتین کے سامنے مخصوص الفاظ کے سنانا ساتھ کچھ اچھا نہیں لگا۔ ایک طرف ڈیپارٹمنٹ اسٹور میں پرفیوم خریدنے کے دوران فلم دیکھنے والوں کو ’’میسج‘‘ دیا گیا، دوسری طرف پوری فلم میں ’’لائسنس‘‘ پر یا اس کی اہمیت پر ایک جملہ بھی نہیں۔ ہنزہ کے’’لٹریسی ریٹ‘‘ اور وہاں پر خواتین کی برابری سے سب آگاہ ہیں خاص طور پر فلم کا ’’ٹارگیٹ آڈینس‘‘ لیکن یہی فلم بین وجاہت ملک کو بطور ہنزہ کا باشندہ کیسے تسلیم کرے، خاص طور پر جب پورا گاؤں دکھایا جاتا ہے ۔
یہ بھی دل چسپ بات ہے کہ فلم کا سب سے زوردار ڈائیلاگ بھی وجاہت ملک کی جھولی میں آگرا جس میں زینتھ عرفان اور فلم کا فلسفہ بھی ہے اور پیغام بھی’’ کیا ہے یہ امیزنگ کہ ہم یہاں برابری سے رہتے ہیں ،اپنی بیوی اپنی بیٹی اپنی بہن کو آگے بڑھتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ،ان پر فخر کرتے ہیں۔ ہم اتنے چھوٹے لوگ نہیں کہ اپنی عورت کو اپنا غرور بھی نہ بناسکے‘‘۔