فنکار کسی بھی ملک اور قوم کے ثقافتی نمائندے ہوتے ہیںاور لوگوںکو اصلاحی تفریح فراہم کرنے میں بڑااہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بچوں کے لئے ادب لکھنا، ڈرامے بناناایک مشکل اور محنت طلب کام ہے کیونکہ بچوں کی ذہنی سطح پر آکر اور ان کی عمر کو سامنے رکھ کر ایسے تفریحی ڈرامے بنائے جاتے ہیںجو سبق آموز بھی ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جو فنکاربچوںکے ڈرامے لکھتے ہیں اور اس میں اداکاری کرتے ہیں، انہیں حکومت اور سول سوسائٹی وہ مقام نہیں دیتی جس کے وہ حقدار ہیں۔
ہم آج آپ کو ایک ایسے فنکار سے ملواتے ہیں جو پچھلے چالیس سال سے بچوں کی تفریح کے لئے اداکاری کر رہے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی صلاحیتوں کی حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو فنکار بچوں کی تفریح کے لئے کام کرتے ہیں، ان کی حکومتی سطح پر پذیرائی ہونی چاہئے۔ ہم بات کر رہے ہیں عینک والا جن کے معروف کردار حامون جادوگر (حسیب پاشا)کی جو آج بھی بچوں کی تفریح کے لئے الحمرا آرٹس کونسل میں اپنی خدمات انجام دیتے ہوئےڈرامہ ’’جن اور جادوگر‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھارہے ہیںجن کو بچے آج بھی بہت پسند کرتے ہیں۔ہم نے ان سے کچھ بات چیت کی جو قارئین کی نذر ہے۔
جنگ:کیرئیر کا آغاز کیسے ہوا؟
حسیب پاشا:ہمارے خاندان میں میرے تایا آصف جاہ اپنے وقت کے مشہور کامیڈین تھے، جنہوں نے شیخ چلی، چودھری اور لیلا جیسی بےشمار فلمیں بنائیں۔ میں تب بہت چھوٹا تھا اور ان کے گھر جایا کرتا تھا۔ میں وہاں اس وقت کے سپر ہیروز منور ظریف، ناصرہ، اکمل، شیریں اور مظہر شاہ کو بڑی حسرت سے دیکھتا تھا تو میں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ میں بھی کوشش کروں ایکٹر بننے کی۔ میرے تایاکہتے تھے کہ تمہارا ناک موٹا ہے، قدچھوٹا ہے، تم بہت جلد ہی گنجے ہوجائو گے۔لہٰذا تم ایکٹر نہیں بن سکتے ۔ ان کی ایسی باتیں سن کر میں اداس ہو کر وہاں سے نکل آتا تھا۔ خیر میں دعا کرتا رہا، چھوٹے موٹے رول کرتا رہا۔ پھر میں نےحفیظ طاہر کے ایک ڈرامے’’تلاش‘‘ میں کام کیا۔ اس ڈرامے کی تین قسطیںہوئیں تو یہ ڈرامہ بہت ہٹ ہوگیا۔ پھر جب ’’عینک والا جن‘‘ کا سکرپٹ آیا تب میں یاورحیات صاحب کا ڈرامہ لانگ پلے کرکے نکل کررہا تھا۔ حفیظ طاہر نے مجھ سے کہا کہ یار! میں بچوں کا ایک ڈرامہ ’’عینک والا جن‘‘ شروع کررہا ہوں تو اس میں تم نے’’حامون جادوگر‘‘ کا رول ادا کرنا ہے مجھے یہ سن کر بہت برا لگا۔ میں نے سوچا کہ میں تو گھر سے ہیرو بننے نکلا ہوں تو یہ لوگ اب مجھے جادوگر بنادیں گے اور یہ بچوں کا ڈرامہ میں کیوں کروں؟ خیر میں نے کہا کہ اچھا سر! میں کل آجائوں گا۔ پھر میں بھول گیا کیونکہ میرا موڈ ہی نہیں تھا یہ ڈرامہ کرنے کا۔ اگلے دن مجھے حفیظ طاہر کے اسسٹنٹ کا فون آگیا کہ آج ریہرسل ہے آپ نے آنا تھا۔ میں نے سوچا کہ فون پر انکار کرتے ہوئے برا لگے گا، میں جاکر معذرت کرلیتا ہوں۔ میں وہاں پہنچا تو ساری ٹیم ریہرسل کررہی تھی۔ حفیظ طاہر نے مجھے بھی سکرپٹ دے دیا کہ اس میں حامون جادوگر کا رول پڑھو۔ میں نے سوچا کہ جب ریہرسل ختم ہوجائے گی تو معذرت کرلوں گا کہ میں نہیں کرسکتا۔ ہوا یوں کہ جب میں نے وہ سین پڑھا تو وہاں موجود تمام لوگ سن کر ہنس پڑے۔ سب نے بہت انجوائے کیا اور داد دی۔ حفیظ طاہر نے کہا کہ مجھےیہی کردار چاہئے تھا۔ میں نے سوچا کہ لگتا ہے میں پھنس گیا ہوں۔ میں میک اپ مین افضال دادا کے پاس گیا میں نے ان سے کہا کہ میرا ایسا گیٹ اپ کرو کہ حسیب پاشا کو کوئی نہ پہچانے۔ اس نے کہا کہ شاہ جی بالکل فکر نہ کرو۔ اس نے مجھے ایسا ہیوی گیٹ اپ کیا کہ حسیب پاشا دور دور تک نظر نہیں آتا تھا۔ میں نے سوچا کہ ایک قسط ریکارڈ کروا کر بھاگ جائوں گا۔ جب میں کیمرے کے سامنے گیا تو واقعی 200سال کا جادوگر لگ رہا تھا جس میں کامیڈی بھی تھی اور دہشت بھی۔ ریکارڈنگ کے بعد پورے ہال نے تالیاں بجائیں۔ اس وقت کے جی ایم رفیق وڑائچ اپنے کمرے میں مونیٹر پر سارا کچھ دیکھ رہے تھے وہ ایک دم اسٹوڈیو میں داخل ہوئے اور انہوں نے پوچھا کہ حامون کا کردار کون کررہا ہے، تو سب نے کہا کہ ’’حسیب پاشا‘‘۔ تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہتے کہ تم بہت اچھا رول کررہے ہو، تم تو آنے والے وقت کے قوی خان ہو۔ میں نے ان کے پائوں کو ہاتھ لگایا کہ نہیں سر! قوی خان بہت بڑا نام ہیں، ہم تو ان کے پائوں کی خاک بھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں یار تم نے کمال کردیا ہے۔ کیمرہ مین کو بلوا کر انہوں نے میرے ساتھ تصویریں بنوائیں۔ میں نے سوچا کہ اب 2،4قسطیں کرنی پڑیں گی، جنرل مینجرنے تعریف کردی ہے ۔ لیکن چوتھی قسط تک’’عینک والا جن‘‘ اور اس کا کردارحامون جادوگر اپنے منتروں کی وجہ سے سپرہٹ ہوچکا تھا۔
جنگ: ماضی کے اور آج کے ڈراموں میں کیا فرق ہے؟
حسیب پاشا:فرق تو میں نہ بھی بتائوں تو لوگوں کو صاف نظر آرہا ہے ماضی کا وقت وہ وقت تھا جب ’’جوگ سیال‘‘، ’’سونا چاندی‘‘، ’’وارث‘‘، ’’آنچ‘‘ جیسے ڈرامےچلتے تھے۔ یہ وہ ڈرامے تھے جنہوں نے باقاعدہ دکانیں بند کروادی تھیں کہ لوگ یہ دیکھنا چاہتے تھے۔ اب نہ دکانیں بند ہوتی ہیں، نہ لوگوں کا اس طرح کا ذوق و شوق ہے۔ ڈرامہ ہم اب بھی اچھا بناسکتے ہیں لیکن اب ہم نے باہر سے پروڈکشنز شروع کردی ہیں۔ سب چینلز بات تو بہت کرتے ہیں کہ بچوں کے لئے کام نہیں ہورہا ہے لیکن کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ بچوں کے لئے’’نسطور کی واپسی‘‘ تیار کیا گیا۔ نسطور (قیصر شہزاد) اسے لے لے کر بھٹک رہا ہے، وہ ہر چینل کے پاس گیا لیکن کوئی اس کو لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ بچوں کا سلاٹ ہی کوئی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ ریکارڈ ہے کہ جب عینک والا جن چلتا تھا تو ایک وقت میں 36اشتہارات ہوتے تھے۔ ابھی بھی بچوں کی بےشمار پروڈکٹس ہیں لیکن ان کے لئے ڈرامہ کوئی نہیں ہے۔
جنگ:ماضی کے فنکاروں میں زیادہ ٹیلنٹ تھا یا آج کے فنکاروں میں؟
حسیب پاشا:ٹیلنٹ اب بھی ہے لیکن آپ اپنے ماضی کو نہ بھولیں۔جن لوگوں کو پرائڈ آف پرفارمنس ملا ہوا ہے، وہ آج گھر میں بیٹھے ہیں۔کیا یہ آرٹسٹ نہیں ہیں؟ آپ جب نئے فنکاروں کو رکھتے ہیں تو ان کو بھی رکھنا چاہئے۔خیام سرحدی اور سہیل احمد کو میں حقیقی فنکار مانتا ہوں۔ ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں جو فلم یا ڈرامہ بنتا ہے اس میں پرانے فنکاروں کو اس میں شامل کرنے کے لئے گھر سے لایا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میںیہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے پرانے فنکار بےکار ہوگئے ہیں۔ ہم بےکار نہیں ہیں، ہمیں کام چاہئے۔ بل بتوڑی ، غیور اختر، زکوٹا، اے حمید، کرنانی چڑیل(نجمہ بیگم) یہ سب کسمپرسی کی حالت میں مرگئے۔ حکومت نے ا ٓرٹسٹ سپورٹ فنڈ شروع کیا جس سے فنکاروں کو10سے 25ہزار تک ملتے تھے۔ چھ سال ملتے رہے اب چھ ماہ سے اس کا بھی کوئی پتہ نہیں۔ ہم فنکاروں کو بھکاری نہ بنائیں ہمیں کام دیں۔ کیا کوئی چینل ہمارے لئے پچاس منٹ کا ایک ڈرامہ نہیں شروع کرسکتا۔ جیسے صحافیوں کے لئے پریس کلب ہے ویسے ہی فنکاروں کے لئے کوئی ایسی جگہ، ایسی کینٹین بنادیں جہاں ایک روپے کی چائے اور پانچ روپے کا کھانا ہو۔ وہاں سارے فنکار اکٹھے ہوجائیں گے اور پھر سے تازہ دم ہوجائیں گے۔ وہاں سے ان کو سلیکٹ کرکے ڈرامے کریں سٹیج کریں فلم کریں ۔ صحافی کالونی کی طرح فنکاروں کے لئے بھی کالونی بنائی جائے جہاں کم از کم 3مرلے کے گھر ہی دے دئیے جائیں۔
جنگ:آج کے ڈرامے بہت بولڈ ہیں کیا یہ دکھائے جانے چاہئیں؟
حسیب پاشا:پیمرا ایک سنسر اور مونیٹرنگ کا ادارہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ آپ نے کس حد تک جانا ہے۔ اس کو انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی طرف دھیان دینا چاہئے۔ گوکہ آج کے ڈراموں میں زندگی کی تلخ حقائق دکھائی جاتی ہیں لیکن جن چیزوں کا پردہ ماضی میں رکھا جاتا تھا ان کو پردے میں رکھا جائے تاکہ فیملیز اکٹھی بیٹھ کر ڈرامہ دیکھ سکیں۔ دوسرا قصور ہماری عوام کا بھی ہے جب عوام ایک چیز کو قبول کرتی ہے تو دکھانے والے دکھاتے چلے جاتے ہیں۔ انڈسٹری وہی کرے گی جو عوام دیکھنا چاہے گی۔ اگر عوام اس بات پر اتفاق کرلے کہ ہم نے ایسے ڈراموں اور فلموں کا بائیکاٹ کرنا ہے تو بالکل عوام کے پاس ایسا کرنے کی طاقت ہے۔