اگرشام میں فضائی حملے نےہمیںکچھ سیکھایا ہے تو وہ یہ ہے کہ جب شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کی حمایت کی بات ہوتو روس کاغذی شیر سے بھی بہت کمزور نظر آتا ہے۔ صرف کچھ دن قبل کریمیلن میں پروپیگنڈہ میں ماہر افراد نے ہرکسی کواس بات پریقین دلانے کیلئے دہشت زدہ کرنے کی کوشش کی کہ کسی بھی مغربی فوجی مداخلت کی وجہ سے شام میں تیسری جنگی عظیم چھڑجائے گی۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے ایک پیغام دیا گیاکہ ان کواعتماد میں لینے کے لیے تیاری کی جارہی ہے جبکہ نیوز بلیٹن میں خبردار کیا کہ شام میں تیسری عالمی جنگ شروع ہونے والی ہے۔
’’شایدپیوٹن اپنی بے وقوفی سے دمشق میں اپنے اتحادیوں کو بچانے میں ناکام ہوچکے ہیں اس کے باوجود وہ کسی بھی طریقے سے مغربی ممالک کو نیچا دکھانے کے لئے پر عزم ہیں ۔ جیسا کہ بحیرہ روم میں ہونے والے حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے۔ روس کا مغربی ممالک کے اعلیٰ فوجی طاقتوں سے کوئی مقابلہ نہیں۔ ‘‘
اب امریکہ،برطانیہ اور فرانس نے کامیابی کے ساتھ اپنا مشن پوراکرلیا تاکہ بشار الاسد کی حکومت کی کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیتوں کو ختم کیا جاسکے۔ دوسری جانب روس کا شام میں امریکی میزائل حملوں کے بعد بامشکل ہی سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔
ادھر روسی صدر ولادی میر پیوٹن اب بھی دوسروں کی طرح ہمیں یہ یقین دلارہے ہیں اور دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کے فضائی دفاعی نظام نے ہفتے کی صبح، شام میں 100سے زائد میزائل کو مار گرایا ہے۔ ان کی جھوٹ کا پول اس وقت کھول گیا جب بشار الاسد کے اتحادی میڈیا کومیزائل کے ملبےکی تصاویرفراہم کرنےمیں ناکام رہے۔
اس حوالے سےماسکو کی جانب سےنہ صرف غیر متوقع فوجی انتباہ صریحا جھوٹا ثابت ہوابلکہ کیمیائی ہتھیاروں میں ملوث کے الزامات سے خود کو دور رکھنے کے لیے روس نے ہرممکن کوشش کی۔ روس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ برطانوی حکامSalisbury poisoning کے ذمہ دار ہیں۔ اور جب ماسکو کو منہ کی کھانی ہوئی تو اس نے ایک اور دعویٰ کیا کہ برطانوی انٹیلی جنس نےشام کے دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے دوما میں باغیوں کے زیر اختیار حصوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
روس کے لیے افسوس ناک بات ہے کہ برطانوی سیاسی رہنما جرومے سائبرن اور ڈیانے ایبٹ اور قریبی اتحادی کے علاوہ کسی نے بھی ان کی باتوں پر کان نہیں دھرا۔ کسی نے بھی ان کے دعوؤں کو اہمیت نہیں دی۔ روس پروپیگنڈے کے باوجود امریکہ کو شام میں فضائی حملے سے باز رکھنے میں بری طرح ناکام رہا۔ یہاں تک کہ مغربی ممالک نے روس کو جھوٹا قرار دے دیا اور اب پیوٹن اور ان کے اتحادیوں نے خود کو عالمی سطح پر ایک مذاق بنا دیا ہے۔
برطانوی وزیراعظم تھریسامے اور بورس جانسن ، جنہوں نے شام میں حکومتی موقف کو نمایاں طور پرواضح کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان دونوں کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ دونوں کریمیلن کے پروپیگنڈے سےمتاثر نہیں ہوئے اور شام میں معصوم شہریوں پر کالعدم ہتھیاروں کے استعمال پر بشار الاسد حکومت کو جواب دہ ہونے کے معاملے پراپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔
ہم روس کو شام کے معاملے میں ان کے مضحکہ خیز انداز پر اس کوبے عزت کرچکے ہیں لیکن اس کاقطعی مطلب یہ نہیں کہ ہم ان کے عزائم سے بچ سکتے ہیں۔ انہوں نے دوسرے معاملے پر بھی اپنی مہم جاری رکھی ہے۔
شایدپیوٹن اپنی بے وقوفی سے دمشق میں اپنے اتحادیوں کو بچانے میں ناکام ہوچکے ہیں اس کے باوجود وہ کسی بھی طریقے سے مغربی ممالک کو نیچا دکھانے کے لئے پر عزم ہیں ۔ جیسا کہ بحیرہ روم میں ہونے والے حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے۔ روس کا مغربی ممالک کے اعلیٰ فوجی طاقتوں سے کوئی مقابلہ نہیں ۔ اس لئے پیوٹن اپنے روایتی طریقےسے سائبر حملے سے ان پر وارکرینگے۔
شام میں فضائی حملے کے فور اہی نیشنل سائبر سیکورٹی سینٹر نے روس کی جانب سے سائبر حملے کے خطرات سے خبردار کیا۔ ممکنہ طور پرروس ایسا کربھی سکتا ہے کیونکہ شام میں امریکہ کے میزائل حملے کے بعد کریمیلن حکام نے ایک فیک نیوز کے ذریعےاپنی مہم تیز کردی اور دعویٰ کیا کہ روسی دفاعی فضائی سسٹم نے ہمارے میزائل مار گرائےہیں ۔ حکام نے خبردار کیا کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ماسکو برطانیہ کی اہم انفراسٹرکچر ،انرجی، نیٹ ورکس، ایمرجنسی سروسز اور مسلح افواج سمیت دیگر شعبوں میں سائبرحملے کرنے کی تیاری کررہا ہے۔
کسی کو بھی روس کے سائبر حملے کی صلاحیت پر شک نہیں کیونکہ وہ پہلے بھی یورپ اور امریکہ کے کئی ادارےجرمن بنڈس ٹیگ سے لے این ایچ ایس کو سائبر حملے کا نشانہ بناچکا ہے۔اس وقت روس کویہ مسئلہ درپیش ہے کہ یور پ اور امریکہ نے سائبرحملوں کا پتہ لگانے اور اس کے خلاف اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت کوبہتر بنالیا ہے۔ مجھے حکام نے بتایا کہ یورپ اور امریکہ نے اپنی دفاع کرنے کی صلاحیتیوں کو بھی بہتر بنالیا ہے جس سے پورے روس میں بڑے پیمانے پر تباہی مچ سکتی ہے ۔ چلیں اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ شام میں کریمیلن کے اتحادی ممالک ،مغربی ممالک کے ساتھ محاذ آرائی میں دلچسپی نہیں رکھتیں لیکن پھر بھی روس کو کہیں زیادہ سنگین نتائج کا سامنا کرناپڑے گا۔
درحقیقت حکام نے اب روس کے خلاف کھلم کھلا باتیں کرنی شروع کردی ہیں ، روس کےسرد رویے سے واضح ہوتا ہے کہ ولا دی میر پیوٹن کی قیادت میں روس بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا ریاست بن گیا ہے اس لئے روس کے ساتھ اسی طرح رویہ اختیارکرنے کی ضرورت ہے۔
واشنگٹن پہلے ہی روس کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کیلئے سخت اقدامات کرچکا ہے اور چند لوگوں کی حکومت کے خلاف سخت پابندی عائد کردی گئی ہے جو پیوٹن کے قریبی اتحادی ہیں۔
اس کے برعکس برطانیہ کو چندلوگوں کی حکومت جیسے اولیگ ڈیریپاسکا Oleg Deripaska کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کرنا ہے،اولیگ ڈیریپاسکا EN+ انرجی کمپنی کے مالک ہیں ،ان کو گزشتہ سال کے آواخر تک لندن اسٹاک ایکسچینج میں رسائی کی اجازت دی گئی تھی۔
شاید محدود فوجی مداخلت سے بشارالاسدکی کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیتیں ختم کی جاسکتی ہےلیکن بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنےوالی ریاستیں جیسے شام اور روس کی جانب سےبڑے پیمانے پر جاری مہم کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔