• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپی یونین نے تھریسامے بریگزٹ آئرلینڈ بارڈرحل مسترد کردیا

یورپی یونین نے تھریسامے بریگزٹ آئرلینڈ بارڈرحل مسترد کردیا

تحریر:پیٹرفوسٹر،ایڈیٹریورپ

برسلزمیں اب تک اس حوالے سے تیکنیکی مذاکرات کے پانچ دور ہوچکے ہیں۔

یورپی یونین نے آئرلینڈ کی سرحدپر ’سخت بارڈر ‘یعنی سرحد پر آرپارآنے جانے والی اشیأ اورافرادکی سخت جانچ پڑتال، سے بچنے کی کوشش پر مبنی برطانوی حکومت کی تجاویز کو مکمل طورپر مستردکردیا ہے،یہ اقدام برطانیہ کی کسٹم یونین کو چھوڑنے کی صلاحیت کے حوالے سے سنگین شکوک وشبہات پیداکرے گا۔یہ بات دی ٹیلی گراف(برطانوی روزنامے)کو معلوم ہوئی ہے۔

اعلیٰ سفارتی ذرائع نے بتایا ہے کہ محترمہ تھریسا مے کا شمالی آئرلینڈ میں ’سخت سرحد‘سے بچاؤ کا منصوبہ رواں ہفتے کے دوران سینئریورپی حکام اوراولی روبن،برطانیہ کے بریگزٹ سے متعلق اعلیٰ مذاکرات کار کے مابین ملاقات میں’’سسٹم میٹک اورفارنزک اینی ہیلیشن‘‘کے طورپر پیش کیا جانا تھا۔

برسلزمیں بدھ کے روزہونے والی اس ملاقات میں براہ راست بریفنگ لینے والے ذریعے کا مزید کہنا ہے کہ ’’یہ (یورپی حکام کا اقدام‘‘ ایک مکمل اورفارنزک استرداد(ردکرنے والا عمل) ہے،‘‘۔یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ برطانیہ کا کوئی بھی کسٹم آپشن (حل)کارآمدنہیں رہے گا،ان میں سے کوئی بھی نہیں ۔‘‘

برسلز میں تیکنیکی مذاکرات کے پانچ دورہونے کے بعد برطانیہ کی اس بریگزٹ کسٹمز پالیسی کا خاتمہ ہوگیا جسے محترمہ تھریسامے نے گزشتہ ماہ مینشن ہاؤس کی اپنی تقریر میں پیش کیا تھا ۔

اب یہ اس برطانوی کابینہ اوروائٹ ہال(ویسٹ منسٹرلندن میں واقع شاہراہ پر قائم عمارتیں بشمول برطانوی شاہی محل )کی تجاویزکو واپس ڈرائنگ بورڈبھیج دیتا ہے اوراس سنجیدہ اورسنگین امکان کو بڑھاوادیتا ہے کہ محترمہ تھریسا مے کے پاس اپنی مرضی کا کوئی آپشن(حل) نہیں بچا ہے سوائے اس کے کہ وہ اگرشمالی آئرلینڈمیں ’سخت بارڈر‘‘نظام سے بچنا چاہتی ہیں تو انہیں یورپی یونین کے کسٹم یونین میں موجود رہنا پڑے گا۔

موجودہ برطانوی حکومت کو ہاؤس آف لارڈزمیں یورپی یونین کی پسپائی سے متعلق بل پر ہونے والی پہلی شکست کے بعد یہ نیا دھچکا لگا ہے،جہاں برطانوی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات برطانیہ کے اس کسٹم یونین میں موجودرہنے کی حمایت میں ایک ترمیم کے لئے رائے دینے کے عمل کا انتہائی باریک بینی یا گہرائی سے جائزہ لے رہی تھیں۔

برطانوی لیبرپارٹی کے رہنما برسلز میں یورپی یونین کے بریگزٹ سے متعلق اعلیٰ مذاکرات کارمائیکل بارنیئرکے ساتھ متعدد ملاقاتیں کرچکے ہیں،جس میں جیریمی کوربن کا وہ منصوبہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ اگروہ اقتدارمیں آئے تو برطانیہ کو یورپ کے کسٹمزیونین میں برقراررکھے گا۔

بہرحال برطانوی مذاکرات کاربرطانیہ کے ان منصوبوں کے بارے میں یورپی یونین کے شکوک وشبہات سے مکمل طورپر آگاہ تھے،یورپی کمیشن اوریورپی یونین کی رکن ریاستوں کی جانب سے یہ مکمل طورپر غیر لچکداررویہ قابل فہم ہے جس نے انہیں(برطانوی مذاکرات کاروں کو) سخت صدمے سے دوچارکردیا ہے۔

بریگزٹ مذاکرات میں یہ موجودہ تعطل ایک بارپھر مملکت متحدہ(برطانیہ)کی یورپی کسٹمز یونین کی رکنیت کے حوالے سے بحث کے دروازے کھول دے گا جسے برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اورسرکردہ بریگزٹ مذاکرات کار بریگزٹ (معاہدے)کے ساتھ ایک ’’غداری‘‘ قراردیتے ہوئے مستردکرچکے ہیں۔رواں ہفتے بورس جانسن نے خبردارکیا ہے کہ اگربرطانیہ کو اپنے ٹیرف(محاصل)مقررکرنے کی آزادی نہ دی گئی تو ’’بریگزٹ کے بہت کم یا نہ ہونے کاامکان‘‘رہ جائے گا۔

بریگزٹ مذاکرات میں اس’’ تعطل ‘‘ سے،دی ٹیلی گراف یہ سمجھتا ہے کہ مسٹربارنیئرنے یورپی یونین کے سفیروں کو بتادیا ہے کہ انہوں نے یورپی یونین اورمملکت متحدہ(برطانیہ) کے تجارتی معاہدے کے مستقبل سے متعلق یورپی یونین نے فریقین کے مابین بات چیت اپنی جانب سے معطل کردی ہے،جوبرطانیہ سے مزیدرعاتیں دینے کے لئے مزید دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے۔

جون میں یورپین کونسل کے مجوزہ اجلاس کے انعقاد میں صرف دس ہفتے رہ گئے ہیں،اب گھڑیا ل کی سوئیاں ان مذاکرات میں پیشرفت کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔

ان ناکام مذاکرات کے بعددی ٹیلی گراف سمجھتا ہے کہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے کو اب اپنی اندرونی بریگزٹ ’’جنگی کابینہ‘‘کے ساتھ ہفتہ وارملاقاتوں کی صدارت کرنا ہوگی ،جن کا آغازفی الفورآئندہ ہفتے سے ہوسکتا ہے دوسری جانب وائٹ ہال(برطانوی اقتداراعلیٰ ) متبادل حل تلاش کرنے کے لئے ہاتھ پیر ماررہا ہے۔

وزیراعظم تھریسامے تواترکے ساتھ یہ وعدہ کرچکی ہیں کہ وہ شمالی آئرلینڈ میں ایک ’’سخت سرحد‘‘کی واپسی کی ہرگزاجازت نہیں دیں گی اورنہ ہی آئرلینڈ کی سمندرتک کسٹمز بارڈرکی اجاز ت دی جائے گی جو کہ برطانیہ کی علاقائی سالمیت کے لئے ایک خطرہ بنے گا ،لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یورپی یونین کی کسٹمز یونین سے نکل جانے کا وعدہ بھی کرچکی ہیں۔

مینشن ہاؤس میں خطاب کے موقع پر گزشتہ ماہ،محترمہ تھریسا مے نے کہا تھا کہ یورپی یونین کے کسٹمزیونین کا حصہ بن کر رہنا ’’ایک بامعنی آزادتجارتی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھ پائے گا،‘‘اورشمالی آئرلینڈ میں ’سخت بارڈر‘سے بچنے کے لئے دو متبادل حل تجویزکیے جبکہ اس دوران انہوں نے ٹیرف مقررکرنے کی اپنی صلاحیت برقراررکھنے کا اعادہ کیا۔

سب سے پہلی تجویزایک’’کسٹم شراکت داری‘‘کی تھی جس میں مملکت متحدہ (برطانیہ) یورپی یونین کی جانب سے اس کے رکن ملکوں میں جانے والے سامان پر لاگو محصول (ڈیوٹیز) وصول کرے گا۔

اس تجویز کو یورپی یونین نے تین بنیادی وجوہ پرمستردکردیا،پہلی یہ کہ یورپی یونین اپنی نگرانی کے طریقہ کاراورآئی ٹی نظام سے باہر کسی بھی ملک کو ہرگزیہ اجازت نہیں دی سکتی کہ وہ محصول لاگو کرے؛دوسری یہ کہ اس طرح کاروبارپرعائد ٹیرف کی وصولی کا غیر منصفانہ طورپر بوجھ ڈالا گیا ہے؛اورتیسری یہ کہ اس چینل کے یورپی یونین سائیڈ پر اس مخصوص اسکیم کا اطلاق انتہائی مہنگا پڑے گا۔

محترمہ تھریسا مے کی دوسری تجویز’’ایک انتہائی بہتر اورموثرکسٹمزانتظام‘‘سے متعلق تھی جوٹیکنالوجی اوردیگراقدامات کے ساتھ ’’قابل اعتمادتاجر‘‘ منصوبوں کو یکجا کرے گا ،جیسا کہ چھوٹے کاروباری اداروں کو استثنیٰ یا رعایت دینا ،جو شمالی آئرلینڈ میں سرحدپارتجارت کا اسی فیصد(80فیصد)حصہ ہیں۔

یہ تجویز بھی یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی جانب سے مستردکی گئی جو ترکی جیسے ممالک کے ساتھ ’’نظراندازکرنے‘‘کی نظیریں (مثالیں)قائم کرنے سے متعلق خدشات رکھتی ہیں،جبکہ اس دوران یہ واضح کیا گیا ہے کہ دیگرنظریات،جیسے ’’مجازاقتصادی ادارے ،‘‘سرحدپر کڑی نگرانی کے نظام سے بچنے کے لئے ناکافی ہیں۔

دی ٹیلیگراف کی جانب سے ایک واقعے سے متعلق حاصل کی گئی معلومات کے مطابق گزشتہ ہفتے برسلز میں ایک بریفنگ کے دوران ایک سفارتکارنے اپنا ہاتھ اٹھاکر سوال کیا کہ کیا کوئی مجھے بتاسکتا ہے کہ آئرلینڈ میں امپورٹ ایکسپورٹ کاروبارکیسے شروع کیا جاسکتا ہے ،’’کیونکہ اگروہاں کسٹمز کا روک ٹوک (کنٹرول)نہ ہو تو یہ بہت بڑھیا کاروباربنے گا۔‘‘

برطانیہ کی جانب دہرے خدشات مسٹررابنس کے لئے یورپی یونین کی واضح تنبیہات تھیں کہ اگرچہ برطانیہ کسی کسٹم یونین میں شامل بھی ہوجائے ،پھر بھی اسے یورپی یونین کے سامان اورزرعی مصنوعات سے متعلق قواعدوضوابط کے’’مکمل تعمیل‘‘کی ضرورت ہوگی ،اوریہ صرف شمالی آئرلینڈ تک محدود نہیں رہے گا۔

اس ذریعے نے دی ٹیلیگراف کو بتایا کہ’’یہ بات واضح کردی گئی کہ آپ(برطانیہ)صرف شمالی آئرلینڈ میں سامان اورزراعت سے متعلق کسٹمزنظام پر اتفاق رائے ہونے یا باقی ماندہ برطانیہ میں اس بارے متفق ہوتے ہوئے یورپی یونین سے علیحدگی اختیارنہیں کرسکتے۔اس منظرنامے میں ،آپ کے لئے بدستور بحیرہ بلفاسٹ اوربرطانیہ کی مرکزی سرزمین کی بندرگاہوں کے درمیان مکمل طورپر’’تیسرے ملک‘‘والی رکاوٹوں کی ضرورت پڑے گی۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ محترمہ تھریسامے یورپی یونین کے ساتھ کسٹمزیونین میں شامل ہونے کے لئے لچک کا مظاہر ہ کربھی لیتی ہیں ،برطانیہ کواب بھی ملک بھر میں الائنمنٹ (اتحاد) کے بلند مدارج کو تسلیم کرنا پڑے گا،اس کے نتیجے میں جو شکل تخلیق پائے گی اسے سرکرہ بریگزٹیئرز(برطانیہ کی یونین سے علیحدگی چاہنے والے)’’برائے نام بریگزٹ‘‘یا ’’برینو‘‘ قرار دے چکے ہیں۔

تازہ ترین