دہلی میںایک جیب کترا تھا،جس کا انگوٹھا قینچی کے پھل کی طرحدودھارا تھا اور کلمے کی انگلی پتھر پر گھس گھس کر شیشے کی مانند سخت کرلی تھی۔بس جہاں ان اس کی انگلی لگ جاتی تو قینچی کو پیچھے چھوڑ دیتی تھی۔ایک صاحب کوئی باہر کے، خواجہ حسن نظامی کے ہاں آئے اور شکایت کی۔
“دہلی کے جیب کترے کی بڑی دھوم سنی تھی۔آج ہمیں دہلی کے بازاروں میں پھرتے چار دن ہو گئے ہیں لیکن کسی کو مجال نہیںہوئی کہ ہماری جیب کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ لیں۔“
خواجہ صاحب نے اس چٹکی باز کو بلوایا اور ان صاحب سے اس چٹکی باز کا آمنا سامنا کرایا۔اس ہنر مند نے مسکرا کر کہا،
“خواجہ صاحب! میرے شاگردوں نے ان صاحب کا حلیہ بتایا تھا۔چار دن سے انگرکھے کی اندر کی جیب میںپیتل کی آٹھ ماشیاں (آٹھ ماشا وزن کے سکے) ڈالے گھوم رہے ہیں اور وہ بھی گنتی کے چار۔اب آپ ہی بتایئے کہ کون جعلی سکوں پر اپنی نیت خراب کرے گا۔“
(اخلاق احمد دہلوی)