تحریر: راب کریلی
واشنگٹن میں ایک کہانی نہایت مشہور ہے جو کئی بار سنائی جاتی ہے، یہ اس وقت کی بات ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ (جو اس وقت نیویارک کے پراپرٹی ڈیلر تھے) انہوں نے روس کیساتھ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے حوالے سے مذاکراتی کمیٹی کے امریکی سربراہ کو ایک مشورہ دیا تھا۔
’’سفارت کاری کے آداب جیسےاپنے ہاتھوں کو اپنے پاس رکھنا، جتنا ممکن ہو شائستگی سے گفتگو کرنا اور وقت پر پہنچنا ہی ایک فن ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ جانتے ہیں کہ جب تک دونوں فریقین باہمی اقدام کیلئے ان شرائط پر متفق نہیں ہوجاتے۔ کیسے پرخلوص دعوت نامہ تعلقات کو استوار کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ بظاہر یہ کام خود کرنا چاہتے تھے اس لئے وہ جرمنی میں امریکی سفارت کار رچرڈ برٹ کو دل سے اپنی مہارت منتقل کرنا چاہتے تھے، یہ اس وقت کی بات ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ 1989 میں ایک شادی کی تقریب کے دوران ایک تقریب میں شریک تھے۔
انہوں نے مذکورہ سفارت کار کو کہا کہ وہ آئندہ اجلاس میں اپنے روسی مذاکرات کاروں کو انتظار کروائیں اور جب وہ تاخیر سے وہاں پہنچیں توان کو چاہیے کہ وہ اپنے سویت یونین کے ہم منصب کے سینے پر ہاتھ رکھیں اور ان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کریں۔
اس کہانی کے کئی پہلو زیر گردش ہیں لیکن صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہر بار ایک بات سننے کو ملتی ہے۔ جی ہاں بالکل!اس طرح سفارت کاری نہیں کی جاتی۔ بے عزتی،طشنام طرازی کے مقابلے میں موقع شناس،باریک بینی اور دوراندیشی سے بہتر سفارت کاری کی جاسکتی ہے۔
سفارت کاری کے آداب جیسےاپنے ہاتھوں کو اپنے پاس رکھنا، جتنا ممکن ہو شائستگی سے گفتگو کرنا اور وقت پر پہنچنا ہی ایک فن ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ جانتے ہیں کہ جب تک دونوں فریقین باہمی اقدام کیلئے ان شرائط پر متفق نہیں ہوجاتے۔ کیسے پرخلوص دعوت نامہ تعلقات کو استوار کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
’’ہر امن معاہدے میں اس قسم کے خطرے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ چاہے آئی آر اے (آئرش ریپبلک آرمی، باغی گروپ) کے ساتھ مذاکرات ہوں یا لیبیا کے سابق صدرکرنل معمر قذافی کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جوہری ہتھیاروں سے دستبردار کرنے پر آمادہ کرنا ہو‘‘
کیا آپ نے فرق کو محسوس کیا؟
کیا ڈونلڈ ٹرمپ واقعی سردجنگ میں اسلحہ کی دوڑ کی شدت کو کم کرنے کے لئے اپنی پالیسی لانا چاہتے ہیں یا صرف خاموشی کا مظٓاہرہ کررہے ہیں، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے سفارت کار کے نقطہ نظر پر انحصار کریں۔
آپ سفارتکاری کے لئے ان کی براہ راست رسائی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ اسی سفارت کاری نے ہی جنوبی اور شمالی کو ریا کے درمیان پیش رفت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کم جونگ ان کی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی وجہ سے پیدا والے بحران کو ختم بھی کم کرسکتا ہے۔
امریکا کی نیشنل سیکورٹی ،اسٹبلشمنٹ اور آزاد میڈیا کے نقادوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان ،جو چاہتے تھے انہوں نے وہ حاصل کرلیا ہے اور اس حوالے سے تاحال انہوں نے ہار نہیں مانی ہے۔
ان کے جوہری تجربات کوترک کرنے کا وعدہ بے معنی ہے جبکہ وہ پہلے سے ہی ایٹمی ہتھیار تیار کرچکے ہیں اور ان کے جوہری تجربات کا مقام بظاہر پہلے ہی تباہ ہوچکا ہے۔
وہ پہلے ہی عالمی اجلاسوں میں شرکت کرچکے ہیں اور اب امریکی صدرسے برابری کی سطح پر ملاقات کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ حالانکہ ان کی ’’جوہری پروگرام میں تحفیف ‘‘کی پیشکش تاحال غیر واضح ہے۔
عالمی طور پرقانونی حیثیت کا بہت بڑا تحفہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہی ہے اور ابھی تک انہوں نے کچھ بھی ترک نہیں کیا ہے۔
اس تناظر میں یہ معاملہ ختم ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے، ٹرمپ کی جانب سے حکمت عملی کی غیر موجودگی جو کہ خطرناک ہوسکتی ہے کی وجہ سے کم جونگ ان کو اپن زندگی اور اپنی ظالمانہ حکومت کو طول دینے کا موقع مل گیا ہے، اور سوال یہ بھی ہے کہ آیا گیری کاسپوروف (جو کہ سابق ورلڈ چیز چیمپئن اور اس وقت انسانی حقوق کے مہم جو ہیں) کس طرح اس معاملے کو آگے لے جاسکتے ہیں۔
ہر امن معاہدے میں اس قسم کے خطرے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ چاہے آئی آر اے (آئرش ریپبلک آرمی، باغی گروپ) کے ساتھ مذاکرات ہوں یا لیبیا کے سابق صدرکرنل معمر قذافی کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جوہری ہتھیاروں سے دستبردار کرنے پر آمادہ کرنا ہو۔
یہ تصور کرنےمیں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ اگر باراک اوباما خطرہ مول لیتے اور پیانگ یانگ کی مذاکرات کی دعوت قبول کرلیتے تو ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرنے والے باراک اومابا کو بہادر اور حوصلہ مند قرار دیتے۔
دوسری جانب شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان، کے لئے بھی خطرہ موجود ہے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ قذافی حکومت کی اپنی جوہری پروگرام ترک کرنے کے بعد کیا ہوا۔
اگر انہوں نے گزشتہ برس غم وغصے کے ساتھ دھمکی نہ دی ہوتی تھی۔ تو کیا وہ اپنی شعوری کوشش کا آغاز کرسکتے تھے یاجمعے کو جنوبی کوریا کے صدر سے ملاقات کرسکتے تھے؟کیا وہ مذاکرات کے ذریعے اپنے طریقے سے دھونس جماسکتے ہیں جبکہ کم جونگ ان کو ٹرمپ کے بارے میں کوئی آئیڈیا نہیں ۔ٹرمپ کے بعد اب امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن وائٹ ہاؤس میں شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کے بارے میں بیانات دے رہے ہیں۔ اب دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے؟
جب عالمی سطح پر بہترین سفارت کاری کی بات ہوتی ہے تو کئی ،جابرحکمرانوں کی طرح کم جونگ ان ،اپنی طاقت پر غرورکرنےیا دھونس جمانے،برا رویہ اختیار کرنےاور تاخیری حربے استعمال کرنے کے ماہر ہیں۔ جھوٹی تسلی کے ساتھ سر ہلاتےرہنا ان کے بس کی بات ہے۔ جتنا اس معاملے کوطول دیا تو بہتر ہے ۔ نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاریوں میں جاری رکھنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو ان کے پیش رووں کیا کرتے تھے وہ لوگ مخصوص انداز سے کچھ نہ کرنے کے لیےمذاکرات کرنے کا طریقہ اپناتے تھے۔
روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے لے کر شام کے صدر بشار الاسد تک کے جابر اور جارح حکمرانوں کیساتھ روایتی سفارتکاری میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے جو کہ سرد جنگ کے پرانے نظریات یا جو اقدار وہ ہمیں دیتے ہیں پر عملدرآمد کے پابند نہیں ہیں۔ حکمت علمی کے ماہر افراد اس طریقہ پر عمل در آمد نہیں کررہے جب سفارت کار پہلے ہی سے پوری طرح بازی پلٹنے کے لیے تیار ہے۔
ان پرانے قوانین نے خاموشی توڑ دی ہے غالباً ٹرمپ اس وقت غیر نظریاتی،غیر دانشوارنہ اورخودپسند شخص ہیں۔
یہ نہ ہی مہذب ہے طریقہ ہے اور نہ اصلاحی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شائستگی اور سفارتکاری سے دوری اور دلوں میں بغض رکھتے ہوئے صرف ہاتھ ملانا اور گلے ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ٹرمپ نے سیاست سے منافقت کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ حالانکہ وہ ہمیشہ واشنگٹن میں اس وعد ے کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے یہ وہی زبان ہےجو زبان میں شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان سمجھتے ہیں۔