• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق

رانا مطلوب احمد

یوں تو پاکستان میں سمندر پار پاکستانیوں کو عام انتخابات میں ووٹ کا حق دینے کا مسئلہ کئی برس سے زیربحث رہا ہے، لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے اس مسئلے پر زیادہ سنجیدہ مباحث اور عملی اقدامات دیکھنے میں آرہے ہیں۔ ان اقدامات میں تیزی اور عملی کوششوں کا آغاز عدالت عظمیٰ کی طرف سے ازخود نوٹس لئے جانے کے بعد سے ہوا۔ اس دوران عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان کی سخت ہدایات کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا نے خاص طور پر جبکہ دیگر اہم وزارتوں اور اداروں نے عمومی طور پر اس حساس قومی معاملے کے تکنیکی، سفارتی، سیاسی اور عالمی امور کا جائزہ لے کر نہایت جانفشانی، قومی جذبے اور مہارت سے اپنی سفارشات تیار کرکے عدالت عظمیٰ میں پیش کردی ہیں، جن کی عملی صورت میں نفاذ کو ممکن بنانے کے لیے جناب چیف جسٹس نے نہایت احسن قدم اٹھاتے ہوئے تمام متعلقہ فریقوں کا موقف سننے اور انہیں اس نہایت اہم قومی مسئلے پر وسیع تر مشاورت کے عمل میں شریک کرنے کے لیے 12اپریل 2018ء کو سپریم کورٹ آڈیٹوریم میں بلایا، جہاں نادرا کی طرف سے چیئرمین نادرا عثمان مبین نے سمندر پار پاکستانیوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے طریقہ کار کے تکنیکی اور عملی پہلوئوں پر ایک جامع بریفنگ پر پریزنٹیشن کا اہتمام کیا۔ 

اس اہم موقعے پر جہاں الیکشن کمیشن آف پاکستان نادرا اور وزارت خارجہ ،خزانہ و دیگر متعلقہ اداروں اور سول سوسائٹی نے شرکت کی، وہیں جناب چیف جسٹس کی دعوت پر تمام اہم قومی وسیاسی جماعتوں نے بھی اپنے پارلیمنٹرین اور منجھے ہوئے سیاستدانوں کے ذریعے اس موقعے پر موثر نمائندگی کی۔ اس بریفنگ سے یہ تاثر ملاکہ نادرا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اجتماعی اور پرخلوص کاوشوں سے الیکشن 2018ء میں سمندر پار پاکستانی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکیں گے۔ اس دوران سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور آئی ٹی ماہرین نے مختلف تکنیکی معاملات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔مندرجہ بالا تمام تکنیکی پہلوؤں کا ہمہ جہت جائزہ لینے کے لیے 19اپریل کوسپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایات کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کی سہولت دینے کے معاملے پرڈاکٹر محمد منشا دستی صاحب کی سربراہی میں ایک سات رکنی انٹرنیٹ ووٹنگ ٹاسک فورس تشکیل دے دی ہے ،تاکہ اس معاملے پر مزید مشاورت اور غوروخوض کے بعد عظیم تر ملکی مفاد میں کوئی فیصلہ کیا جاسکے۔

راقم کااس معاملے کے سیاسی پہلوئوں اور انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کے تکنیکی معاملات سے نہ تو کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں مہارت اور تجربہ حاصل ہے لیکن بحیثیت عمرانیات کے ایک ادنیٰ طالب علمی، متعلقہ وزارت میں 30 سال کے عملی تجربے، تارکین وطن خاص طور پر سمندر پار پاکستانیوں سے دنیا کے 32 ممالک میں براہ راست مختلف موضوعات پر بات کرنے اور بحیثیت سفارت کار سعودی عرب میں کام کرنے کی بنیاد پر میں سمجھتا ہوں کہ اس قومی معاملے پر چند مودبانہ گزارشات پیش کروں،جو مجھے امید ہے اس سلسلے میں معاملات کو سمجھنے میں متعلقہ فریقین کے لیے بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مفید ثابت ہوسکیں گی۔

اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل مائیگریشن رپورٹ 2017ء کے مطابق اس وقت دنیا میں تارکین وطن کی کل تعداد 258 ملین ہے جو اس وقت دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 3.4% ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2017 میں پاکستانی تارکین وطن کی دنیا میں کل تعداد 6 ملین تھی ،جو ہمارے مختلف قومی اداروں مثلاً وزارت خارجہ، وزارت سمندر پارپاکستانی، OPF، نادرا اور دیگر اداروں کے پیش کردہ اعدادوشمار سے تقریباً ایک تہائی یا 30% کم ہے۔ لیکن ہم قومی سطح پر ان حقائق کو دنیا کے سامنے چیلنج کرنے سے اس لیے قاصر ہیں کہ تمام تر دعوئوں کے باوجود ہماری تمام حکومتوں نے ایک طرف تو سمندر پار پاکستانیوں کا قابل بھروسہ سائنسی بنیادوں پر ڈیٹا تیار کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی تو دوسری طرف مستقل طور پر واپس آنے والے پاکستانی تارکین وطن کا ریکارڈ رکھنے کا کوئی نظام وضع نہ کرسکے، جس کی وجہ سے ہماری مختلف وزارتیں اور ادارے سمندر پار پاکستانیوں کے بارے میں اپنے اپنے حقائق اور اپنے اندازے رکھتے ہیں جس کا اندازہ ان اداروں کی ویب سائٹس دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اگر ہم سمندر پار پاکستانیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے پیش کردہ اعدادوشمار کو درست تسلیم کرلیں توان میں تقریباً 1 ملین 18 سال کےکم عمر بچے بھی شامل ہوں گے، جبکہ متوقع ووٹرز کی کل تعداد تقریباً 5 ملین رہ جائے گی۔ 

اگر قیام پاکستان کے بعد سے ہی پاکستانی شہری بسلسلہ روزگار، تعلیم، سیاحت و علاج دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں جانا شروع ہوگئے تھے۔ جہاں انہوں نے اپنے میزبان ممالک کی تعمیر و ترقی میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے، لیکن 1947ء سے 1971ء تک سمندر پار پاکستانیوں کے بارے میں حکومت کے کسی اداروںکے پاس کوئی حقائق موجود نہیں اور ان کی تعداد کے بارے میں محض غیرسائنسی اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں۔

جب ستر کی دہائی میں پاکستانیوں نے امیر عرب ممالک کا رخ کرنا شروع کیا تو 1971ء میں ملازمت کے لیے بیرون ملک جانے والے تارکین کے معاملات کو قانونی طور پر کنٹرول کرنے اور ان کا مصدقہ ریکارڈ رکھنے کے لیے حکومت پاکستان نے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کا ادارہ قائم کیا۔

1971ء سے مارچ 2018ء تک تقریباً 10.2 ملین پاکستانی بسلسلہ روزگار بیرون ممالک جاچکے ہیں۔

اسی عرصے کے دوران تقریباً 9.7 ملین پاکستانی 6 خلیجی عرب ممالک میں روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ پاکستانی خلیجی ممالک میں عمومی طو پر 2 سالہ ملازمت پر گئے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی تقریباً نصف تعداد اپنے اصل یا تجدید شدہ معاہدوں کی تکمیل کے بعد وطن واپس آچکی ہے جبکہ تقریباً 45 لاکھ سے 50 لاکھ پاکستانی اس وقت خلیجی ممالک میں کام کررہے ہیں۔

ان ممالک کے مخصوص حالات کی وجہ سے یہاں کام کرنے والے تقریباً تمام تارکین وطن کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے، ہڑتال کرنے، نعرے بازی کرنے اور غیرضروری اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور خلاف ورزی پر سخت تادیبی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔جبکہ مختلف پارٹیوں کو ووٹ ڈالے جانے کی صورت میں ان سرگرمیوں سے اجتناب ممکن نہ ہوگا۔

خلیجی ممالک میں کام کرنے والے تقریباً 80% پاکستانی تعمیرات کے شعبے میں محنت مزدوری کرنے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی اکثریت ان پڑھ ہے جن کے لیے الیکٹرانک ووٹ کا استعمال نہایت مشکل کام ہوگا اور اس سلسلے میں انہیں کسی پڑھے لکھے شخص کی مدد درکار ہوگی۔ جو ووٹ کے تقدس اور رازداری کو متاثر کرے گی۔ اس معاملے کو حتمی شکل دینے سے قبل ان ممالک کی حکومتوں کو اعتماد میں لینا بھی نہایت ضروری ہوگا۔

گزشتی دو سال کے دوران خلیجی ممالک خاص طور پر سعودی عرب کو پاکستانی افرادی قوت کی برآمد نہایت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور مجموعی طور پر 47% جبکہ سعودی عرب کو پاکستانی افرادی قوت کی برآمد 2017ء کے دوران 2015 کے مقابلے میں تقریباً 70 فیصد کم ہوئی ہے۔ 1971 سے 2015 تک سعودی عرب پاکستان افرادی قوت کا سب سے بڑا درآمد کنندہ رہا ہے اور اس عرصے کے دوران تقریباً 5 ملین پاکستانی بسلسلہ روزگار سعودی عرب گئے۔

ان ممالک میں سیاسی سرگرمیوں کی صورت میں افرادی قوت کی برآمد میں مزید کمی اور پاکستانی تارکین وطن کی تیزی سے بے دخلی کا خطرہ ہے۔

گزشتہ کئی سال سے پاکستانی ترسیلات زر کا 60 تا 65 فیصد حصہ خلیجی ممالک میں کام کرنے والے جفاکش پاکستانیوں کی طرف سے بھجوایا جارہا ہے۔

پاکستان کے علاوہ انڈیا، میکسیکو، فلپائن، بنگلہ دیش، انڈونیشیا وغیرہ جمہوری ممالک ہیں، جن کے سب سے زیادہ تارکین وطن دنیابھر میں کام کرتے ہیں ،جن میں بھارت 17 ملین کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ اس لیے سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے معاملے کو حتمی شکل دینے سے قبل مندرجہ بالا ممالک کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات اور ممکنہ پیش آمدہ خدشات کا جائزہ لینا چاہئے۔

نادرا نے صرف چند سال پہلے ملازمت کے لیے بیرون ممالک جانے والے پاکستانیوں کو NICOP جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور اس سلسلے میں سمندر پار جانے والے پاکستانیوں کے لیے نہایت غیرمنصفانہ فیس لاگو کی۔اس سلسلےمیں نادرا نے بیورو آف امیگریشن اور وزارت برائے سمندر پار پاکستانی و ترقی انسانی وسائل کی NICOP کی فیس کم کرنے کے سلسلے میں درخواستوں کی کبھی پذیرائی نہیں کی۔یہ تو جناب چیف جسٹس اور عدالت عظمی کی مسلسل کوششیں تھیں جن کی بدولت نادرا کو سمندر پاکستانیوں کی مشکلات کا احساس ہوا اور اسے NICOP اور POC کی فیسیں میںکمی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

نادرا کے پاس الگ الگ ممالک خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکا اور برطانیہ میں کام کرنے والے کتنے پاکستانیوں کا ڈیٹا موجود ہے کیونکہ ان ممالک میں کام کرنے والے تارکین وطن کی تعداد کل تعداد کا تقریباً 70 فیصد ہے اور اکثر ایک آدمی کئی بار NICOP جاری کرواتا ہے اور ان کی ایک کثیر تعداد معاہدوں کی تکمیل کے بعد واپس آجاتی ہے، جن کا ریکارڈ نادرا یا کسی حکومتی ادارے کے پاس نہیں۔

خلیج کے علاوہ دنیا کے دیگر تمام ممالک میں ملازمت کے ویزے پر جانے والے پاکستانیوں کی تعداد صرف 2 سے 3 فیصد ہے اور نادرا صرف انہی پاکستانیوں کو پاکستان سے جانے سے قبل NICOP جاری کرتا ہے جبکہ ان ممالک میں سفارت خانوں کے ذریعے جاری کیے گئے NICOP اور POC کی صحیح تعداد ریکارڈ پر آنی چاہئے۔

سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے بارے میں کسی دردمند پاکستانی کی دو رائے نہیں ہوسکتیں اور اصولی طور پر ہر شخص چاہے گا کہ ان محسنان ملک و ملت کو بھی اپنی ملکی قیادت کے انتخاب میں شریک کیا جائے لیکن موجودہ عالمی حالات، تیزی سے کم ہوتی ہوئی افرادی قوت کی برآمد اور مختلف وجوہ سے دنیا کے بیشتر ممالک کی طرف سے پاکستانیوں کی بے دخلی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روشنی میں صرف نادرا کی ہی پیش کردہ تجویز کو مسئلے کا حل سمجھنا مناسب نہ ہوگا کیونکہ یہ تجاویز صرف تکنیکی معاملات کا ہی احاطہ کرتی ہیں۔

(مضمون نگار سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ،بیوروآف امیگریشن ہیں)                    

تازہ ترین