منا بھائی سیریز،تھری ایڈٹس ا ور پی کے جیسی بڑی ، سپر ہٹ، کام یاب اور کلاسیک فلموں کے رائٹر اور ڈائریکٹرراج کمار ایرانی سے بڑی غلطی ہوگئی، ایسی غلطی جو انھیں تو نہیں کرنی چاہیے تھی۔وہ فلم کے ٹیزر کے’’ شروع ‘‘میں سب سے اہم بات لگانا اور بتانا بھول گئے۔انھیں سب سے پہلے باآواز بلند ’’ڈس کلیمر‘‘ لگانا چاہیے تھا، جس میں لکھا ہونا چاہیے تھا، خبردار!اس ٹیزر سے پہلے اپنے بے حدضروری کام نمٹالیں،سیٹ بیلٹ باندھ لیں یا کسی مضبوط چیز کا سہارا لے لیں، کیوں کہ ٹیزر دیکھنے کے بعد آپ باقی سب کام بھول جائیں گے، جو اس فلم کا ٹیزر دیکھے گا، وہ اِسی کا ہوجائے گا، وہ پھر دیوانہ وار ٹیزر دوبارہ دیکھے گا، تو کچھ دیر کے لیے پتھر کا ہوجائے گا، پھر تیسری بار دیکھے گا، تو سب کو بتائے گا پھر فیس بک پر لگائے گا، پھر واٹس ایپ پر شیئر کر ے گا،ایک منٹ اور کچھ سیکنڈز کے ٹیزر میں ایسی گرفت، ایسا جادو، ایسا منتر، ایسا کام، ایسے الفاظ اور ایسی پرفارمنس پہلے شاید ہی ہم نے کسی فلم میں نہ دیکھی ہو ۔ سنجو ’’نام ‘‘ ہے فلم کا۔ سنجے بابا کی کہانی ہے، وہی سنجو جس کی اب تک کی پُوری زندگی سانپ زندگی کی ’’جنگ ‘‘ہے۔
کبھی اوپر کبھی’’اچانک ‘‘ دھڑام سے نیچے ۔یہ داستان ہے، اس بگڑے شہزادے کی جو بائیس سال کا تھا، تو’’گمراہ ‘‘ ہو کراتنی منشیات استعمال کی کہ پھیپڑے ختم ہوگئے، ڈاکٹرز نے بھی اس کا چیپٹر کلوز کردیا ،ہمت ایسی کہ نہ صرف ’’زندہ ‘‘ رہا، بلکہ ’’راکی ‘‘ بن کر ڈاکٹرز کو بھی غلط ثابت کیا اور ایسا ’’ طاقتور‘‘ ہوا کے لوگ نامور کھلاڑی محمد علی سے موازنہ کرنے لگے۔’’لائف ہو تو ایسی‘‘ کہ چارٹرڈ طیاروں میں اکیلے وی آئی پی سفر بے شمار کیے، لیکن حالات ایسے بھی دیکھے جب بس کا ’’مسافر ‘‘ بننے کے لیے ایک ٹکٹ کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ’’سڑک‘‘ پر بیٹھ کر بھیک بھی مانگی۔ دنیا کے مہنگے ترین شہروں کے مہنگے ترین ہوٹل میں رہنے والا ’’ہیرو‘‘جو اپنے کمرے کی کھڑکیوں سے پُورا شہر دیکھتا تھا، لیکن جب جیل جا کر’’ کھل نائیک‘‘ بنا تو ایسی کال کوٹھری میں رہنا پڑا جہاں کھڑکی تودور کی روشنی کے لیے چھوٹا ساسوراخ بھی نہیں تھا۔
یہ ’’کارتوس‘‘بے بس ہوا تو پولیس والوں نے جھانپڑ بھی مارا ،خطرہ ایسا کہ انڈر ورلڈ نے مروانے کے لیے سپاری بھی نکالا۔’’لَک ‘‘ ایسی کہ کلائی پر سجنے والی مہنگی خوب صورت گھڑیاں بھی پہنیں، وقت پلٹا تو ان گھڑیوں کی جگہ قیدی والی ہتھکڑیاں بھی پہنیں۔300سے زائد ’’محبوبہ ‘‘کے ’’ساجن ‘‘ بننے، ایسے حالات نہیں دکھائے جو’’خطروں کے کھلاڑی ‘‘ کو ایک ’’ ہتھیار ‘‘ اے کے 56 رائفل کی وجہ سے جھیلنے پڑے۔
کتنی آسانی سے جھٹ پھٹ راج کمار ہیرانی اور ابھیجات جوشی کی تحریر کو رنبیر کپور ، سنجے دت بن کر ایک منٹ میں آپ کے دل میں بسادیتے ہیں۔ اِسی ایک منٹ کے بعد نوجوان سنجے کے روپ والے رنبیر کپور ٹیزر دیکھنے والوں کو ’’ خبردار ‘‘ کرتے ہیں کہ’’ سب سیٹ بیلٹ باندھ لیجیے‘‘ لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے، کیوں کہ ٹیزر تو پہلے فریم سے دیکھنے والوں کو قابوکرچکا ہوتا ہے ۔قابو ہونے والے بھی دیوانے ہوچکے ہوتے چاہتے ہیں۔ شکنجہ اور کَس دیا جائے ۔
ٹیزر میں سنجے دت کی زندگی کے مختلف دور اور اسٹائل دکھائے گئے، ٹیزر میں منا بھائی،راکی،کھل نائیک،سڑک،واستو اور ابھی آخری بار جیل سے باہر آنے والے سنجے دت پر فوکس کیا گیا ہے۔ فلم میں سنجے دت کا کردار رنبیرکپور نے ادا کیا ہے ۔رنبیر کی فلمیں سپر ہٹ ہو یا فلاپ، ان کی اداکاری لاجواب ہوتی ہے۔ راک اسٹار ، تماشا اور جگا جاسوس سمیت وہ جو کردار ادا کرتے ہیں ۔ اس کو اپنے اوپر طاری کرلیتے ہیں۔ سنجے دت کا کردار ادا کرنا بڑے بڑے ہیروز کے لیے آسان نہیں ہوتا ۔ رنبیر کپور کو چھوڑ کر عامر خان ہی ایسے اداکار ہیں، جو اپنی محنت سے کردار میں ڈھل جاتے ہیں۔ اب چاہے اس میں دن لگے یا سال ۔عامر خان تو اپنے قد کاٹھ کی وجہ سے سنجے نہیں بن سکتے تھے، لیکن رنبیر کا قد کاٹھ بھی سنجے جیسا ہے اور شکل کے کافی ’’فیچرز‘‘ بھی۔ رنبیر نے مسلسل محنت کر کے نہ صرف اپنے جسم کو سنجے کی طرح بنایا۔ان کی طرح بول چال کو اپنایا بلکہ سنجے کی روح کو اپنے اندر بسالیا، باقی کام میک اپ آرٹسٹ اور کاسٹیوم ڈیزائنر نے پورا کردیا ۔
ہر دور کا سنجے بننے کے لیے رنبیر اور راجو کمار اینڈ ٹیم نے کتنی محنت کی ہوگی، اس پر ایک کتاب بھی لکھی جائے تو کم ہوگا۔ ایک اور دل چسپ اتفاق کہ رنبیر اور سنجے دت دونوں اسٹار کڈز ہیں، ایک نرگس جی اور سنیل دت کے بیٹے ہیں، تو دوسرے رشی کپور اور نیتو سنگھ کے۔دونوں کی گرل فرینڈز کی کہانی بھی لگ بھگ ایک ہی ہے ۔ٹیزر دیکھتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے سامنے سنجے ہیں یا رنبیر۔ ڈائریکٹر اور رائٹر راج کمار ہیرانی تو ہیں ہی’’ استادوں کے استاد‘‘ خوداتنی محنت کرتے ہیں ،اتنا ٹائم لگاتے ہیں،ایسا کام کرتے ہیں کہ بڑی سے بڑی مشکل بات آسانی سے چٹکی بجا کر سمجھا دیتے ہیں۔ منا بھائی سیریز، تھری ایڈٹس اورپی کے ایک ایک سین،مکالمے ،کردار سب کو زبانی یاد ہیں ۔
مسکراہٹ ہو یا آنسو ان کی فلمیں جذبات سے ’فُل‘‘ ہوتی ہیں۔ دل فلم سے ایسا جُڑتا ہے کہ کبھی الگ نہیں ہوتا۔ فلم میں کتنی ہی متنازع بات ہو، وہ ایسے پیش کی جاتی ہے کہ آٹھ سے اسی سال کی عمر کے سب مَن لگا کر ان کی بات سنتے اور سمجھتے ہیں۔ان کی ٹیم کمال کی ہے، جن میں سب سے اوپر ان کے ساتھی رائٹر ابھیجات جوشی کا نام آتا ہے۔
راجو کا کہنا ہے کہ سنجے کی کہانی پر زندگی بنانا آسان نہیں تھا، کیوں کہ سنجے ایسی شخصیت ہیں، جن کو دُنیا پہلے سے بہت اچھی طرح جانتی ہے۔ راجو کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ بھی تھا کہ وہ اپنی باقی فلموں کی طرح اس فلم میں وہ آزاد نہیں بلکہ محدود تھے، کیوں کہ ان کو سنجے کی زندگی کی باؤنڈری میں رہتے ہوئے کام کرنا تھا ۔سنجے دت کی زندگی بیک وقت اتنی مشکل اورخوب صورت ہے کہ انھیں بے شمار واقعات فلم کے لیے چھوڑنے پڑے۔
ان میں سے ایک وہ ہے جب اوباما نے امریکی صدر بننے سے پہلے 2004میں شکاگو میں منا بھائی کی مقبولیت اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ تین بار شادی ، سیکڑوں گرل فرینڈز، بہت کم لوگوں سے دوستی کچھ سے دوستی کے بعد ناراضی کچھ سے ہمیشہ کی دشمنی ، بار بار جیل کی سیر، سنجو( ون مین مینی لائیوز) کا ٹیزر دیکھنے اور سننے کے بعد سنجے کی کہانی کا انتظار 29جون تک تو کرنا ہی ہوگا۔
راجو اور سنجو کی دوستی بہت پرانی ہے ، شاہ رخ نے اپنی کمر کے درد کی وجہ سے منا بھائی فلم چھوڑی تھی اور اس کے بعد سنجے دت ایسے منا بھائی بنے کہ راجو نے انھیں اپنی اب تک چار میں تین فلموں میں کاسٹ کیا۔ تھری ایڈیٹس کے ’’وائرس‘‘ یعنی بمن ایرانی اب تک واحد ایسے اداکار ہیں، جو راجو کی ہر فلم میں نظر آئے ہیں اور سنجو میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ فلم میں سنجے کے ساتھ ان کے دوست سلمان خان اور گرل فرینڈ مادھوری بھی ہیں، آئیے جانتے ہیں کون، کون سا کردار ادا کر رہا ہے۔