دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو یا یونانی،پاکستانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹریا ڈرامہ کسی نہ کسی صورت میں ضرور موجود رہا ہے۔ڈرامے میں گفتار کی بجائے کردار زیادہ اہمیت رکھتا ہے لیکن محض کردار پر مضبوط گرفت ہی ڈرامے کی کامیابی کی ضمانت نہیں بلکہ اس کی اجزائے ترکیبی میں پلاٹ، آغاز، کردار، مرکزی خیال اور نکتہ عروج جیسے فنی لوازم کی یکساں طور پر تکمیل ضروری ہوتی ہے۔ڈرامے کی بات ہو اور ایسی خاتون کا ذکر نہ ہو جس نے اپنے ڈراموں کے ذریعےمعاشرے کی ناہمواریوں کے خلاف آواز اٹھائی اور ہر سطح پر معاشرے کی اصلاح کی تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی۔ جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں ٹی وی اور اسٹیج کی معروف اداکارہ مدیحہ گوہر کی جنہوں نے اپنے فن کی بدولت نہ صرف ڈرامہ انڈسٹری کو عروج دیا بلکہ مختلف سماجی مسائل کوبھی اجاگر کیا۔
مدیحہ گوہر 21ستمبر 1956ءکو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ان کی پرورش ایک علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی۔ ان کی والدہ خدیجہ گوہر خود بھی قلم کار اور آزاد خیال خاتون تھیںجنہوں نے پاکستان کے بننے کے وقت لندن سے تعلیم حاصل کی تھی جب بہت کم خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان تھا۔ ان کے والد بھی ایک روشن خیال انسان تھے۔1978ءمیںمدیحہ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی زبان و ادب میں ایم اےکرنے کے بعد یونیورسٹی آف لندن (برطانیہ) سے تھیٹر سائنسز میں ڈگری حاصل کی۔ 1983میں پڑھائی مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے ملک میں واپس آگئیں اور لاہور میں رہائش اختیار کرلی جہاں انہوں نے اپنے شوہر شاہد ندیم کے ساتھ مل کر اجو کا تھیٹر کی بنیاد رکھی۔اجوکا تھیٹر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں سوشل تھیٹر کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے ۔اس تھیٹر گروپ کا خمیر جنوبی ایشیا کے عوامی تھیٹر سے اٹھایا گیا تھا۔
مدیحہ گوہر کا رجحان زمانہ طالب ِ علمی سے ہی اداکاری و تھیٹر کی طرف رہا۔ کنیئرڈ کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور کے ڈرامیٹکس کلب سے وابستہ رہیں۔انہوں نے اپنے ڈراموں کا سفر بادل سرکار کے لکھے ڈرامہ ’’جلوس‘‘ سے شروع کیا۔ اجوکا تھیٹر کے پلیٹ فارم سے’’ کون ہے یہ گستاخ؟‘ ‘،’’دارا‘‘،’’ لو پھر بسنت آئی‘‘،’’ انی مائی دا سپنا‘‘،’’ بُلھا‘‘،’’چاک چکر‘‘ اور’’چیرنگ کراس‘‘ سمیت کئی اہم کھیل پرفارم کئے گئے جنہیں عوام میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی ۔
اجوکا تھیٹر کے گروپ نےمدیحہ گوہرکی سرپرستی میں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے ساتھ ساتھ یورپ کے کئی ممالک میںاپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہمیشہ سے ان شوز کا بنیادی مقصد معاشرے میں انصاف، انسانیت اور برابری کو فروغ دینا رہا اور آج بھی ہے۔ گوہر نے تھیٹری تکنیکوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی اخلاقی، سماجی اور سیاسی حقائی کی عکاسی کی۔انہوں نے خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور معاشرتی برائیوں کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔
مدیحہ بہت کم عمر میںہی تھیٹر انڈسٹری سے وابستہ ہوگئی تھیں۔ انہوں نے نوٹنکی اور بھانڈ کی روایت کو اپنے تھیٹر کے ذریعے شاندار طریقے سے آگے بڑھایا۔ مغربی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود انہوں نے مغربی تھیٹر کی تکنیکوں کو استعمال نہیں کیابلکہ اپنے ہی ملک کی روایات کو ہم عصر جذبات کے ساتھ ملا کر پیش کیا۔
مدیحہ کو اپنے کیریئر کے دوران کئی تنازعات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔2007ءمیں اجوکانے ایک ڈرامہ ’’برقعہ ویگنزا‘‘ پیش کیا جسے نہ صرف مدیحہ نے خود لکھا بلکہ اس ڈرامے کی ہدایتکار بھی وہی تھیں۔ اس ڈرامے نے کئی تنازعات کو جنم دیا ۔ ملک کی پارلیمنٹ کے ارکان نے اس ڈرامے پرپابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا اور وزیر ثقافت نے بھی اس پر پابندی لگانے کی دھمکی دی لیکن حقوق نسواں کے علمبرداروں اور غیر سرکاری تنظیموں نے پابندی کے باوجود اس کا انگریزی ترجمہ کرکے عالمی سطح پر پیش کیا۔ اجو کا نے عورتوں میں شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مدیحہ گوہر کی اداکاری میں بناوٹ نہیں تھی۔ وہ جو بھی کردار نبھاتیں، اس میں خود کو ڈھال لیتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی اداکاری کو نہ صرف پاکستان میں پسند کیا جاتا تھا بلکہ ان کے مداح کی بڑی تعداد بھارت میں بھی تھی جو ان کے فن کی بہت قدر کرتے تھے۔ انہوں نے متعدد سٹیج ڈراموں کے سکرپٹ بھی لکھے۔
مدیحہ کی بہن فریال گوہر ادب، آرٹ اور کلچر میں اپنا خاص مقام رکھتی ہیں اور شوہر شاہد محمود ندیم پاکستانی میڈیا کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔مدیحہ گوہر کچھ عرصہ کے لیے تدریس کے شعبہ سے بھی منسلک رہیں لیکن ضیاالحق کے دور میں انہیں سرکاری نوکری سے برخاست کر دیا گیا اور پاکستان ٹیلی ویژن پر ان کے ڈراموں پر پابندی لگا دی گئی ۔
لوگ ان کو بطور ایکٹر،تھیٹر ڈائریکٹراور حقوق نسواں کی علمبردار کے طور پرتو جانتے ہیںلیکن وہ گھر کے معاملے میں بھی اتنی ہی دلچسپی لیتی تھیں جتنی پروفیشنل لائف میں۔ ان کو گھر سجانے کا بہت شوق تھا۔ دوسرے ممالک سے نوادرات اور ایسی چیزیں لاتی تھیں جو مختلف ثقافتوں کی عکاسی کرتی تھیں۔ لوگ ان کاگھر دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ ایک میوزیم لگتا ہے۔اس کے علاوہ وہ بچوں میں کافی دلچسپی لیتی تھیں۔ ان کے کپڑے، ہر چیز حتیٰ کہ ان کی ذہنی نشوونما میںبھی ان کا بڑا اہم کردار تھا۔
انہیں روایتی لباس بہت پسند تھے۔ وہ ساڑھی بہت شوق سے پہنتی تھیں۔وہ بہت محنتی خاتون تھیں۔علم و ادب اور ٹی وی ڈراموں کے حوالے سے انہوں نے بے شمار خدمات انجام دیں۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کومتعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ انہیں فرسٹ انڈس ڈرامہ ایوارڈ 2005 کے لئے نامزد کیا گیا۔ 2006میں ان کو ہالینڈ سے پرنس کلاس ایوارڈ جبکہ 2007میں انٹرنیشنل پاسٹا ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں صدارتی تمغہ برائےحسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔
2015ء میں مدیحہ بھارت میں ایک اسٹیج تھیٹر کے لئے گئیں جہاں انہیں پہلی بار تکلیف ہوئی۔پھر انہیں کینسر جیسا مہلک مرض لاحق ہوگیا جس میںوہ تین سال تک مبتلا رہیں۔ پچھلے دو ماہ سے ان کی حالت کافی تشویشناک ہوگئی تھی اور گزشتہ ہفتے وہ خالق حقیقی سے جاملیں۔آخری وقت میں اجوکا تھیٹر کے زیر اہتمام ہونے والے ڈراموں کے لئے خود چیزیں آرگنائز، ڈائریکٹ اور پروڈیوس کرنا کافی مشکل ہوگیا تھا۔ پھر اجوکا کے نوجوان ممبرز نے ساری ذمہ داریاں بخوبی سنبھال لیں۔ ان کا ڈائریکٹ کیا گیا آخری پلے ’’چاک چکر‘‘ 21اپریل کو اسلام آباد میں پرفارم کیا گیا۔آخری چند روز سے پہلے تک وہ کسی نہ کسی طرح ان ایکٹیویٹیز میں شامل رہیں اور کام کو جاری رکھا۔ آج معاشرے کی ناہمواریوں کے خلاف اٹھنے والی آواز تو خاموش ہوگئی لیکن ان کا نظریہ فن اور دنیائے تھیٹر سے محبت رکھنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا ۔