ڈاکٹر حافظ محمد ثانی
’’اسلام میں’’ماں‘‘کی اطاعت و فرماں برداری ایک دینی و معاشرتی فریضہ ہے
زندگی کا ہر لمحہ اس کی عظمت پر نثار اور خدمت کے لیے وقف ہے
دینِ رحمت نے ’’ماں‘‘کی عظمت، خدمت اوراطاعت و
فرماں برداری کا جو درس دیا، وہ سب سے منفرد اور بے مثال ہے‘‘
اسلامی معاشرے میں مسلم تہذیب و ثقافت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار و روایات کے مطابق …’’ماں‘‘… مہر و محبت،ایثار و مروت، صبرورضا اور خلوص و وفا کی ایک روشن مثال ہے۔ یہ ایسا شجرِ سایہ دار ہے، جس کی گھنی چھائوں کبھی کم نہیں ہوتی اور نہ اس پر خزاں آتی ہے۔ ماں کی گود انسانیت کا سب سے پہلا مکتب ہے۔ یہ تہذیب و شائستگی کا گہوارہ اور کائنات کا سب سے پُرخلوص رشتہ ہے۔ ماں ہی زندگی کی تاریک راہوں میں روشنی کا مینار ہے۔ ماں ہی وہ مقدس ہستی ہے، جس کے قدموں تلے جنّت ہے۔’’ماں‘‘ خاندانی نظام کی اساس اور اسلامی تہذیب کا بنیادی نشان ہے۔ یہ اسلام کی اعلیٰ اخلاقی اور معاشرتی قدروں کی امین اور پُرخلوص سچے جذبوں کی آئینہ دار ہے۔
’’ماں‘‘وہ عظیم نام ہے، جس کے لیے دنیا کی مختلف زبانوںاور عالمی تہذیبی ورثے اور زبان و ادب میں جو الفاظ تخلیق کیے گئے، وہ اس کے بلند مقام کا استعارہ اور ماں سے عقیدت و محبت کا حسین اظہار ہیں، جب کہ دینِ فطرت اور دینِ رحمت نے ’’ماں‘‘کی عظمت، خدمت اور اس کی اطاعت و فرماں برداری کا جو درس دیا، وہ سب سے منفرد اور بے مثال ہے۔ اسلام میں خالقِ حقیقی رب العالمین کے بعد خالقِ مجازی ’’ماں ‘‘اور اس کی مامتا کو سب سے عظیم گردانا گیا ہے۔ خالقِ کائنات نے خلوص و وفا اور ایثار و محبت کی اس پیکر کو پوری انسانیت کے لیے رحم و کرم اور اُنس و محبت کا منبع بنایا ہے۔
یہ ماں کی شفقت اور مامتا کی عظمت اور محبت کا اظہار ہی تھا کہ محسنِ انسانیت، نبیِ رحمت محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’’اگر ننھے اور معصوم بچّوں کو ماں کا دودھ نہ پلایا جارہا ہوتا، بوڑھے اور عمر رسیدہ افراد اپنے رب کے حضور عبادت میں جھکے نہ ہوتے اور معصوم جانور میدانوں میں چر نہ رہے ہوتے تو یقیناً تم پر سخت عذاب نازل ہوتا۔‘‘ ماں کائنات کی سب سے قیمتی متاع اور سب سے عظیم سرمایا ہے۔ اس کی شفقت و محبت اور خلوص و وفا کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ ہر مذہب اور ہر تہذیب نے ’’ماں‘‘ کی عظمت کو تسلیم کیا ہے، لیکن فخرِ موجودات، سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺ جو مثالی دین اور ابدی ضابطۂ حیات لے کر تشریف لائے، اس میں ’’ماں‘‘ کو سب سے زیادہ عظمت دی گئی ہے۔ آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے، ’’جنت مائوں کے قدموں تلے ہے‘‘۔
صحابیٔ رسول حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا، یارسول اللہﷺ! میرے حُسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا! ’’تیری ماں!‘‘ انہوں نے عرض کیا،پھر کون۔ آپﷺ نے فرمایا ’’تیری ماں‘‘ انہوں نے عرض کیا، پھر کون۔آپﷺ نے فرمایا، ’’تیری ماں۔‘‘ چوتھی مرتبہ سوال کرنے پر آپﷺ نے فرمایا ’’تیرے والد‘‘(صحیح بخاری،کتاب الادب)
حضرت مغیرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا’’اللہ نے یقیناً تم پر مائوں کی نافرمانی اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا حرام قرار دیا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری؍باب حقوق الوالدین)
اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سنی، میں نے سوال کیا کہ یہ کون ہے؟ جو قرآن کریم کی تلاوت کر رہا ہے؟ فرشتوں نے جواب دیا کہ یہ حارثہ بن نعمانؓ ہیں۔‘‘ یہ بیان فرمانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا‘‘(یعنی ماں کی خدمت اور اس سے حُسن سلوک کا یہ صلہ ہے) حضرت حارثہ بن نعمانؓ اپنی والدہ کی خدمت اور ان سے حُسنِ سلوک کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے تھے۔ ماں کی خدمت، اس سے حُسنِ سلوک، اس کی عظمت اور تقدس کو اجاگر کرنے اور اس کی اہمیت کو بیان فرمانے والے امام الانبیاء، سید المرسلین، رحمۃ اللعالمین، محسنِ انسانیت ﷺ کا اسوہ اور عمل ملاحظہ فرمائیے۔
ایک موقع پر رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’اگر میری ماں حیات ہوتیں اور میں حالتِ نماز میں ہوتا، پھر وہ مجھے پکارتیں،اے محمدؐ، تومیں ان کی صدا پر لبیک کہتا اور نماز کوتوڑ کر ان کی خدمت اور فرماں برداری میں مصروف ہو جاتا۔‘‘
ایک مرتبہ ایک بزرگ خاتون حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو آپﷺ نے ان کی بڑی تعظیم و تکریم فرمائی اور اپنی چادرِ مبارک ان کے لیے بچھا دی۔ بعد ازاں صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ کون خاتون تھیں،جن کی آپﷺ نے اتنی تعظیم و تکریم فرمائی۔ آپﷺ نے فرمایا ’’یہ میری رضاعی ماں حضرت حلیمہ سعدیہؓ ہیں۔‘‘ آپﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی آپﷺ، حلیمہ سعدیہؓ کو دیکھتے تو میری ماں، میری ماں کہہ کر ان کی طرف دوڑتے ہوئے تشریف لے جاتے۔
ماں کی عظمت اور خدمت کا ایک اور نقش ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت اویس قرنیؓ کو اسلامی تاریخ میں ماں کی خدمت، اطاعت اور حُسنِ سلوک کے حوالے سے خاص شہرت حاصل ہے۔ ایک موقع پر ماں کے سوال کرنے پر کہ اویس، تم مدینہ منورہ جا کر رسول اللہ ﷺ کی زیارت اور صحبت سے شرف یاب کیوں نہیں ہوتے؟
والدہ کی یہ بات سن کر حضرت اویس قرنیؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے‘‘ میں اس جنت کو کس طرح چھوڑ دوں۔ آخر والدہ کے بے حد اصرار پر مدینۃ النبیؐ میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ ان دنوںمدینے میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے اس موقع پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر میرے اختیار میں ہو تو میں پوری زندگی مدینے میں رہوں اور آپﷺ کے دیدار اور صحبت سے شرف یاب ہوں، لیکن یہ میرے اختیار میں نہیں، میری ماں بوڑھی اور خدمت کی طلب گار ہیں،انہوں نے مجھے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے اور جلد واپس یمن آنے کی تاکید کی تھی، لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے یہ عاشق صادق فوراً یمن روانہ ہوگئے اور زندگی بھرماں کی خدمت میں مصروف رہے، اسی بناء پر اسلامی تاریخ میں انہیں بلند اور منفرد مقام حاصل ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ اویس قرنیؓ جب مدینہ تشریف لائیں تو ان سے دعا کی درخواست کرنا۔مرادِ رسولؐ، خلیفۂ دوم حضرت عمرفاروقؓ کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر سال حج کے موقع پر مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے حجاج سے معلومات حاصل کرتے کہ کیا تم میں یمن کے قبیلے قرن سے تعلق رکھنے والے اویس قرنیؓ موجود ہیں؟ ایک سال جب حج کے موقع پر تشریف لائے تو حضرت عمرؓ نے رسول اکرمﷺ کی وصیت کے مطابق ان سے دعا کرائی۔ اویس قرنیؓ کو اسلامی تاریخ میں یہ مقام اور امتیاز ماں کی خدمت کے صلے میں عطا ہوا۔
اسلامی تاریخ میں ماں کی خدمت اور اس سے حُسنِ سلوک کے حوالے سے ایسے بے شمار نقوش ماں کی عظمت اور اس کے بلند مقام کا پتا دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ماں کائنات میں انسانیت کی سب سے قیمتی متاع، گنج گراں مایہ اور عظیم سرمایہ ہے۔ اسلام میں اولاد کی پوری زندگی ماں کے تقدس،اس کی عظمت کے اظہار اور خدمت و اطاعت کے لیے مخصوص ہے۔ اس کے لیے کسی دن کو مخصوص کرنا، اس کی روح کے منافی ہے۔ اسلام میں ہر سال، ہر مہینہ، ہر دن اور ہر لمحہ ماں کی خدمت اور اطاعت و فرماں برداری کے لیے وقف ہے۔
شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ’’اسرار خودی‘‘ میں اسلام میں ماں کی عظمت کے حوالے سے اپنی مشہور فارسی نظم ’’در معنیٰ ایں کہ بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومت اسلام است‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ماں کے منصب اور اس کے حفظ و احترام کا ضامن اسلام ہے۔
اقبال کی اس نظم کا ترجمہ پیش خدمت ہے:’’اگر ٹھیک طور پر دیکھو تو ماں کا وجود رحمت ہے، اس بناء پر کہ اسے نبوت سے نسبت ہے، اس کی شفقت پیغمبرانہ شفقت جیسی ہے، جس سے قوموں کی سیرت سازی ہوتی ہے، ماں کے جذبۂ محبت کی بدولت ہماری تعمیر پختہ تر اور اس کی پیشانی کی سلوٹوں میں ہماری تقدیر پنہاں ہوتی ہے۔ اگر تم الفاظ کے معنی تک رسائی رکھتے ہو، تو لفظ امت پر غور کرو۔ اس میں بڑے نکات ہیں۔‘‘
مقصودِ کائنات پیغمبر ﷺ نے فرمایا ’’مائوں کے قدموں تلے جنت ہے۔‘‘ ملتِ رحمی رشتے کی تکریم پر قائم ہے۔ اگر یہ نہیں تو زندگی کا ہر کام خام رہ جاتا ہے۔’’مامتا‘‘سے زندگی سرگرم ہے۔ ’’مامتا‘‘ ہی سے زندگی کے اسرار بے نقاب ہوتے ہیں۔ ہماری ملت کی ندی میں ہر پیچ و تاب ’’ماں‘‘ سے ہے۔ اس ندی میں موجیں گرداب اور بُلبلے اسی وجود کے باعث ہیں۔ ملت کو ماں کی آغوش سے اگر ایک ہی مسلمان حاصل ہوجائے، جو غیرت مند اور حق پرست ہو تو ہمارا وجود ان رنجوں سے محفوظ ہو جائے، اس کی شام کی بدولت ہماری صبحِ دنیا کو روشن کردے۔
’’مدر ڈے‘‘ کے پس منظر میں یہ حقیقت پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ پوری دنیا میں صنعتی انقلاب نے ’’ماں‘‘ کی عظمت و اہمیت اور خاندانی نظام کو بُری طرح متاثر کیا،وہاں خاندانی نظام شکست و ریخت سے دوچار ہوا، معاشرے کا شیرازہ بُری طرح بکھرا، مادی آسائشوں کے حصول اور خوب سے خوب تر طرزِ زندگی کی خواہش نے مشینوں میں جُتے ہوئے انسانوں کو مدہوش کردیا اور وہ زندگی کی دوڑ میں اس قدر منہمک اور مصروف ہوئے کہ خاندانی نظام کی اساس اور خاندان کی اکائی ’’ماں‘‘ کی عظمت، اہمیت اور تقدس کو فراموش کر بیٹھے۔ بدقسمتی سے اس قسم کے مناظر اب ہماری تہذیب اور معاشرے میں بھی نظر آنے لگے ہیں۔
پُرآسائش زندگی،مادیت کی دوڑ دھوپ اور معیارِ زندگی کی چمک دمک نے اسے ’’ماں‘‘ سے دُور کردیا ہے،آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی معاشرے میں ماں کی عظمت و اہمیت،اس کے مقام و مرتبے اور اسلام میں اس کی خدمت و اطاعت کی اہمیت کو عام کیا جائے۔اس حوالے سے اسلامی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنایا جائے۔ اسی میں خاندانی نظام کی بقا و سلامتی اور اسلامی معاشرے کی فلاح اور کامیابی کا راز مضمر ہے۔