حکومت پاکستان نے اوور سیز پاکستانیز کے مسائل و مشکلات کو حل کرنے اورانہیں پیشہ وارانہ تربیت دینے کے لیے 1978 میں اوورسیز پاکستان فائونڈیشن او پی ایف قائم کی ،لیکن اس سے وابستہ افرادتارکین وطن کے مسائل حل کرنا تو دور کی بات ہے ان سے ملنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن کے قیام کے بعد حکومت نے سفارشوں اور پارٹی کے لیے کام کرنے والوںکے لیے ایڈوائزی کونسل بھی بنائی،جس کے لیے پوری دنیا سے 135شخصیات کو ممبرمنتخب کیا گیا ہے۔ حالانکہ ان ممبران کو یہ بھی علم نہیں کہ ان کا کام اور اختیارات کیا ہیں۔ ایک سرٹیفیکٹ تھما کر انہیں خوش کردیا گیا ہے۔
میں جب چند دن قبل پاکستان سے یو اے ای آیا تو ائیر پورٹ پر OPFممبران کے لیے علیحدہ کائونٹر دیکھا، وہاں چلا گیا لیکن کائونٹر پر کوئی اہلکار موجود ہی نہیں تھا۔ میرے پوچھنے پر امیگریشن حکام نے بتایا کہ یہاں صرف بورڈ لگا ہے۔ کبھی کوئی افسر یا اہلکار بیٹھا ہوا نہیں دیکھا۔ دوسرے الفاظ میں یہ صرف دکھانے کے لیے ہے، سہولت تو درکنار وہاں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ کی بطور صحافی ان کے کسی افسر یا ذمہ دار سے بات ہو تو اپنے ادارہ کی اتنی خوبیاں بیان کرتے ہیں کہ سن کر ہنسی آتی ہے بلکہ رشک آتا ہے کیا واقعی او پی ایف اتنی سروسز دے رہا ہے ، جوکہ بالکل غلط ہے۔
اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن بورڈ آف گورنر کے چیئرمین بیرسٹر امجد ملک نے گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور دبئی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں OPACکے ممبرا ن اور کمیونٹی کے سرگردہ شخصیات سے ملاقات کی ۔ جس کا اہتمام پاکستان سینٹر شارجہ کے سابق صدر اور مسلم لیگ کے سینئر رہنما چوہدری ظفر اقبال نے کیا تھا۔ تقریب میںقونصل جنرل سید جاوید حسن کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ جنہوں نے آنے کی زحمت گوارہ نہیں کی جس کا اظہار او پی ایف بورڈ آف گورنرز کے ممبر چوہدری نور الحسن تنویر نے کیا کہ آج کے اجلاس میں قونصلیٹ جنرل آف پاکستان کے قونصل جنرل کو خود موجود ہونا چاہیے تھا۔ تاکہ ان کی موجودگی میں اوورسیز پاکستانیز کو در پیش مسائل اور مشکلات پر بحث ہوتی اور وہ ان مسائل کا از خود نوٹس بھی لیتے۔
لیکن وعدہ کے باوجود وہ تشریف نہیں لائے،لیکن پریس قونصلر عاشق حسین شیخ ویلفئیر قونصلر مسز صولت ثاقب اور مسز عاصمہ اعوان نے شرکت کی۔ کمیونٹی سے چوہدری نور الحسن تنویر، خواجہ عبدالوحید پال، امجد اقبال احمد، تابش زیدی، انیس قریشی، مخدوم شوکت قریشی، مظہر چوہدری،طاہر منیر طاہر، میاں منیر ہانس اور دیگرنے بھی شرکت کی۔ بیشتر نے اظہار خیال کرتے ہوئے اوپی ایف کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا اور کہا کہ ادارہ 40سال گزرنے کے باوجود اپنی کارکردگی اور افادیت ثابت نہیں کرسکا۔ دنیا میں 80لاکھ سےزائد پاکستانی بسلسلہ روزگار موجود ہیں کہ بات سو فی صد درست ہے کہ ابھی تک اوورسیز پاکستانیز کو OPFکی افادیت اور خدمات کا پتہ ہی نہیں ہے۔ یہ ادارہ اپنی آواز پہنچانے میں ناکام رہا ہے یا پھر یہ اپنی آواز پہنچا نا ہی نہیں چاہتا بلکہ صرف فنڈ جمع کرنے پر لگا ہوا ہے ۔
جو اس کے افسران اور اسٹاف اپنی جیبوں میں مراعات اور سہولیات کے نام پر ڈال رہے ہیں۔ او پی ایف کے افسران اپنے دفاتر سے نکل کر مسائل زدہ اوورسیز پاکستانیوں سے ملنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ اگر او پی ایف میں ایک شکایات سیل بنادیا جائے اور میڈیا کے ذریعے اس کی تشہیر بھی کی جائےتو واضح نظر آئے گا کہ کس قدر پاکستانی OPFسے شکایات رکھتے ہیں۔ سفارت خانہ پاکستان ابوظہبی اور قونصلیٹ دبئی میں کھلی کچری کا اہتمام کیا گیا تھا۔ صرف ایک دو بار منعقد کرنے کے بعد یہ سلسلہ بھی بند کردیا گیا ہے۔
چوہدری نور الحسن تنویر نے کہا کہ الفجیرہ پاکستانی اسکول کی حالت دگرونوں ہے۔ اسکول کو مقامی اداروں کی جانب سے وارننگ مل چکی ہیں، ہوسکتا ہے کہ اسکول بند ہی نہ ہوجائے ۔ ابھی تک او پی ایف نے ایک روپیہ بھی اسکول کو نہیں دیا الفجیرہ اسکول بورڈ آف گورنرز نے رکن خلیل بونیری اپنے طورپر کسی نہ کسی طریقے سے مخیر حضرات کے تعاون سے اسکول کو چلا رہے ہیں۔لیکن یہ کب تک؟
او پی ایف بورڈ گورنرز کے چیئرمین بیرسٹر امجد ملک نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اوورسیز پاکستانیز کے مسائل بہت زیادہ گھمبیر ہیں۔ مسائل کو جاننے اور ان کے حل کے لیے اوورسیز پاکستانیز ایڈوائزری کونسل کا قیام عمل میں لایاگیا تاکہ وہ مسئلے کا حل بتائیں اور مسائل کو بھی اجاگر کریں ۔ اوورسیز پاکستانیز کی فلاح و بہبود کے لیے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس سے بذریعہ بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم اور بیت المال کے ذریعے امداد دے رہے ہیں جب کہ تارکین وطن کو پانچ پانچ مرلہ کے گھر بھی بنوائے جارہے ہیں ۔اس موقعے پر او پی سی اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب اور او پی ایف اسلام آباد کا تقابلی جائزہ بھی لیا گیا اور بتایا گیا کہ او پی ایف کی کارکردگی صفر ہے، بہتر ہے کہ اس ادارہ کو ختم کردیا جائے۔