• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزہ احتجاجی ریلیاں، حماس اسرائیل فلسطین تنازع کو دوبارہ سے عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں کامیاب

غزہ احتجاجی ریلیاں، حماس اسرائیل فلسطین تنازع کو دوبارہ سے عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں کامیاب

القدس سے راف سانچز

غزہ میں ہونے والی خونریزی نے القدس میں پیر کے روز امریکی سفارتخانے کی افتتاحی تقریب کو گہنا دیا، جہاں اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے 55 فلسطینی جاں بحق گئے، یہ 2014 کے غزہ تنازع کے بعد سے غزہ کی تاریخ کا سب سے بدترین دن تھا۔

غزہ سے صرف 50 میل کی دوری پر جہاں ایوانکا ٹرمپ اور دیگر امریکی وفود امریکا کے سفارتخانے کی افتتاحی تقریب کا جشن منارہے تھے، تاہم دوسری طرف غزہ کی سرحد کو آگ اور شورش کے مناظر دیکھے گئے جہاں ہزاروں کی تعداد میں موجود فلسطینی مظاہرین کو اسرائیلی اسناپئرز (ماہر نشانہ بازوں) کی گولیوں کا سامنا تھا۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انہوں نے (غزہ کی حکمراں جماعت) حماس کو روکنے کے لئے فائرنگ کی تاکہ ان کے مطابق حماس کو مظاہرین کو استعمال کرتے ہوئے سرحدی باڑ کو توڑنے اور اسرائیل کے اندر حملے کرنے سے روکا جائے۔

حماس کی مسلح افواج کے پاس اسرائیل کے ساتھ جنگ شروع کرنے کے لئے کافی مقدار میں راکٹوں کی کھیپ موجود ہیں۔ لیکن ان کے پاس اتنے ہتھیار نہیں کہ وہ اس جنگ کو جیت سکیں۔ حماس یہ جانتی ہے کہ اسرائیل کی طاقتور فوج کیساتھ براہ راست جنگ سے غزہ کے تباہ حال انفراسٹرکچر کو مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس سے لوگوں میں مزید غم وغصہ پیدا ہوگا۔

اسی لئے حماس کے سربراہ نے ایک نئی حکمت عملی شروع کی ہے، وہ حکمت عملی اسرائیل کے ساتھ غزہ کی سرحد پر احتجاجی مظاہرے کرنا ہے۔ مارچ کے آخر میں شروع ہونے والے ان مظاہروں کا آئیڈیا دراصل آزادی کے لئے سرگرم کارکنوں کے ایک گروپ کا تھا۔ ان متحرک کارکنوں نے احتجاجی ریلیوں کو ’’واپسی کا حق‘‘ کا نام دیا تھا، فلسطینی مہاجرین کا ہمیشہ سے ہی یہ مطالبہ رہا ہے کہ انہیں اپنے آبائواجداد کی سرزمین پر واپسی کا حق دیا جائے جو اس وقت اسرائیل ہے۔

لیکن حماس نے فوری طور پر ان مظاہروں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس کے پیچھے اپنی تنظیمی طاقت شامل کردی۔ حماس کو امید تھی کہ پیر کے روز وہ غزہ کی سرحد پر ایک لاکھ لوگوں کو جمع کرلیں گے اور اسرائیلی انٹیلی جنس کے مطابق حماس نے سیکڑوں بلکہ ہزاروں افراد کو سرحدی باڑ توڑنے کے لئے بھی بھیجا تھا۔

ایسے مظاہرے جس میں لوگوں کی انتہائی بڑی تعداد موجود ہو بظاہر حماس کے لئے مشکل نظر آرہے ہیں جس کا ارادہ ہے کہ وہ اپنے راکٹوں کی کھیپ سے ایک دن اسرائیل کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ تاہم حماس کے نقطہ نظر سے ان احتجاجی ریلیوں سے ممکنہ طور پر وہ کئی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

سب سے پہلا یہ کہ وہ غزہ کے شہریوں کے اندر موجود غم وغصے کو اسرائیل کی جانب منتقل کرنے کامیاب ہوگئے ہیں۔

غزہ کے شہری غم وغصے اور بے چینی کا شکار ہیں۔ یہ احتجاجی ریلیاں ان کے جذبات کو اسرائیل کی جانب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ’واپسی کا حق‘ ایک ایسا آئیڈیا ہے جس نے سب کو متحد کردیا ہے اور اس پر تمام فلسطینی متفق ہوسکتے ہیں خواہ وہ حماس کے حامی ہوں یا نہ ہوں۔ اور بڑی تعداد میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل اسرائیل کیخلاف غیض وغضب میں اضافہ کررہا ہے۔ ان احتجاجی مظاہروں سے فلسطین کے اندر جدوجہد میں بھی حماس کو حمایت مل رہی ہے۔

حماس کو کئی دہائیوں سے فلسطینی اتھارٹی میں اپنے مخالفین کی جانب سے مزاحمت کا بھی سامنا ہے جو مقبوضہ مغربی کنارے میں عالمی حمایت حکومتی باڈی ہے۔ ان احتجاجی مظاہروں سے حماس کو موقع ملا ہے کہ وہ خود کو اسرائیل کے خلاف حقیقی مزاحمت کے طور پر پیش کرے جبکہ اسی اثناء فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ معاشی اور سیکورٹی معاملات پر انتہائی قریبی تعاون کررہی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی ان احتجاجی ریلیوں کو انتہائی بے چینی سے دیکھ رہی ہے۔ یہ لوگ اس بات کا اقرار نہیں کرسکتے کہ وہ ان مظاہروں کی حمایت کررہے ہیں جس کے پیچھے حماس کا ہاتھ ہے۔ لیکن یہ لوگ اس بات کے بھی متحمل نہیں ہوسکتے کہ ان مظاہروں کو نظر انداز کردیں کیوں کہ وہاں انہیں انتہائی مقبولیت حاصل ہے۔

حماس نے رواں برس فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مصلحت کیلئے سنجیدہ کوشش کی ہے لیکن ان کی ان کوششوں پر مخالفین نے پانی پھیر دیا۔ حماس نے خود کو ان مقبول احتجاجی ریلیوں کا حقیقی رہنما ثابت کرکے فلسطینی اتھارٹی پر اپنی برتری ثابت کردی ہے۔

بالآخر حماس نے ان مظاہروں کے زریعے فلسطینی ایشو کو عالمی ایجنڈے میں دوبارہ شامل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔

شام میں کئی سالوں سے جاری جنگ، داعش کے عروج وزوال اور ایران وسعودی عرب کی دشمنی نے فلسطینی کاز کو پیچھے دھکیل دیا تھا اور یہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوکر رہ گیا تھا۔

یہ مظاہرے اسرائیل فلسطین تنازع پر دنیا کی توجہ دوبارہ حاصل کرنے کا زریعہ ہیں۔ حماس کو امید ہے کہ وہ عالمی سطح پر موجود اپنے حامیوں کو دوبارہ اپنے کاز کے لئے دبائو بڑھانے میں کامیاب ہوجائے گی تاکہ وہ اس کا ساتھ دیں۔ فلسطینیوں کی ہلاکتوں میں اضافے کے بعد اسرائیل پر مغربی تنقید میں بھی اضافہ ہورہا ہے جو کہ حماس کے نقطہ نظر سے ایک اور بڑی کامیابی ہے۔ ان مظاہروں کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ حماس کو وقت مل رہا ہے۔

حماس اس وقت شدید پریشانی کا شکار ہے شاید 2006 کے انتخابات میں کامیابی اور اس کے ایک برس بعد غزہ کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے یہ اس کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہو۔ اگر اس کے لئے کوئی بڑی کامیابی ہوگی تو وہ صرف یہ ہے کہ اسے مزید وقت مل جائے۔ حماس چاہتی ہے کہ وہ غزہ کے اندر موجود غم وغصے اور غیر یقینی صورتحال پر قابو پالے، حماس کی خواہش ہے کہ وہ بیرونی صورتحال کو کنٹرول کرے اور سب سے اہم یہ کہ وہ اس مشکل صورتحال میں کامیابی سے ہمکنار ہو۔ 

تازہ ترین