پتہ نہیں کیوں یہ لگتاہے کہ ڈائیٹنگ کی بات کریں تو خواتین ہی ذہن میں آتی ہیں حالانکہ ڈائٹنگ کی ضرورت مردوں کو بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ خواتین کو ، لیکن خواتین چونکہ اپنے سراپے ، صحت اور اچھا دکھائی دینے کے بارے میں زیادہ فکر مند رہتی ہیں اسی لیےہم نے اس لفظ ڈائیٹنگ کو خواتین سے وابستہ کردیاہے۔ چلیں کوئی بات نہیں ، خواتین کے کندھے پر رکھ بہت سی اشیائے صرف فروخت ہورہی ہیں تو یہ ڈائٹنگ بھی سہی!اب چونکہ ڈائٹنگ کی ایک ایک شکل کیوٹوجینک ڈائٹنگ بھی سامنے آچکی ہے تو پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ
کیوٹو جینک ڈائٹنگ کیا ہے ؟
یہ تاثر بہت عام پایا جاتا ہے کہ غذا میں زیادہ چکنائی کا مطلب زیادہ موٹاپا ہے۔ اسی لئے تو ڈاکٹر بھی مرغن غذاؤں کو کم سے کم رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات یقیناً حیرت کا باعث ہے کہ آج کل ایک ایسی ڈائیٹ بہت مقبول ہو رہی ہے جس میں روغنیات کی کثرت ہونے کے باوجود یہ موٹاپے کا بہترین علاج قرار دی جا رہی ہے۔ کیٹوڈائیٹ (Keto Diet) کے نام سے مشہور اس غذا کا رجحان پاکستان میں تقریباً ایک سال قبل شروع ہوا اور اب تو یہ بہت مقبول ہوچکی ہے۔ اگر آپ ’کیٹو جینک ڈائیٹ پاکستان ؛لکھ کر گوگل پر سرچ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اس خوراک کے ذریعے وزن کم کرنے کی بے شمار کہانیاں اس گروپ پر موجود ہیں۔ سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو کیٹو جینک ڈائیٹ ایسی خوراک ہے جس میں چکنائی کی مقدار بہت زیادہ اور کاربوہائیڈریٹ کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔ اس میں تقریباً 70 فیصد چکنائی، 25 فیصد پروٹین اور تقریباً 5 فیصد کاربوہائیڈریٹ ہوتے ہیں۔کیٹون توانائی کے چھوٹے چھوٹے مالیکیول ہوتے ہیں جو کہ چکنائی کی مدد سے جگر میں پیدا ہوتے ہیں اور توانائی کا متبادل ذریعہ ہیں۔ کیٹون کی وجہ سے ہی اس ڈائیٹ کو ’کیٹو ڈائیٹ‘ کہا جاتا ہے۔
جب آپ کے جسم کو کیٹون سے توانائی حاصل ہوتی ہے تو آپ پروٹین اور انتہائی کم مقدار میں کاربوہائیڈریٹ کے ساتھ بھی اچھا جسمانی میٹابولزم قائم رکھ سکتے ہیں۔ یعنی اس خوراک کا استعمال کرتے ہوئے آپ کا جسم توانائی کی تقریباً تمام ضروریات چکنائی سے پوری کررہا ہوتا ہے۔ جب آپ کے جسم میں کیٹوسس کا پراسیس جاری ہوتا ہے تو جسم میں موجود فالتو چربی بھی توانائی میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔ آپ کاربوہائیڈریٹ والی غذائیں کم بھی استعمال کریں تو آپ کو توانائی کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ چربی توانائی میں تحلیل ہوتی ہے تو موٹاپا خودبخود کم ہونے لگتا ہے۔
یادداشت اچھی ، زندگی لمبی
امریکا کے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کم کاربوہائیڈریٹ والی کیٹوجینک ڈائٹ خوراک یادداشت اور لمبی زندگی کی ضمانت ہے، بک انسٹی ٹیوٹ آف ایجنگ نوواٹو کے ماہرین ایرک ورڈن اور جان نیومن کی جدید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کیٹوجینک غذاؤں سے جہاں بہت سے دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں وہیں حافظہ بہت اچھا ہوتا ہے اور یہ طویل زندگی میں بھی اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ کیٹوجینک غذائیں مصنوعی رنگوں اور ملاوٹ سے پاک قدرتی غذاؤں کو کہا جاتا ہے جن میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار بہت کم ہوتی ہے جبکہ چکنائی زیادہ اور پروٹین بھی خاصی مقدار میں موجود ہوتے ہیں، کیٹو کے اثرات عین روزے یا فاقے کی طرح تھے اور اس کے علاوہ یہ دل کے افعال کو درست رکھنے، گلوکوز کو اعتدال پر رکھنے اور دماغی صحت پر اچھے اثرات میں بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں،ماہرین کے مطابق کیٹوغذائیں جسم میں بی ٹا ہائیڈروکسی بیوٹریٹ کی مقدار بڑھاتی ہیں جس سے دماغی سرگرمی، یادداشت اور کام کرنے کی صلاحیت بڑھتی جبکہ بی ایچ بی بڑھاپے کو دور رکھتی ہے اور اہم اعضا اور ٹشو کو بھی درست حالت میں رکھتی ہے،کیٹوجینک غذا میں لحمیات اور پروٹین زیادہ جبکہ کاربوہائیڈریٹس بہت کم کھائے جاتے ہیں،ان غذاؤں میں گھاس چرنے والے مویشیوں کا گوشت، گھی، تیل، زیتون کا تیل، چکنائی والی مچھلی، انڈے، مغزیات، پھلیاں، خشک گری دار میوے، ایواکاڈو، زمین سے اوپر اگنے والی سبزیاں اور دیگر اشیا شامل ہیں۔
ایک ماہ میں 10 کلو وزن کم
ایک ویب سائٹ کے مطابق کیٹو جینک غذا سے محض ایک ماہ میں 10 کلوگرام وزن کم کرنے والی ایک پاکستانی لڑکی نے اس ڈائیٹ کی افادیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ”میں نے اس غذا کے ساتھ ہر طرح کے میٹھے کا استعمال بند کردیا جبکہ کاربوہائیڈریٹ والی غذائیں مثلاً روٹی، چاول اور آلو وغیرہ کا استعمال بھی بہت کم کردیا۔ میں نے اس غذا کو بہت مفید پایا لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ غذا حاملہ خواتین کے لئے نہیں ہے اور اسی طرح ذیا بیطس کے مریضوں کو بھی اس کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ عمومی طور پر کسی بھی شخص کو اس نوعیت کی غذا سے قبل ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کرلینا چاہیے۔
میں صبح آٹھ بجے سیب کے سرکے کا ایک چمچ دو چمچ سادہ پانی میں ملا کر پیتی تھی۔ سوا آٹھ بجے ایک لٹر پانی، سوا 9 بجے دو انڈوں کا آملیٹ اور تھوڑا سا پنیر، 11 بجے سبز چائے کا ایک کپ، ایک بجے سلاد اور سبزی، چار بجے سٹرابیری، بادام اور سبز چائے کا کپ، سات بجے مکھن چکن، قیمہ شملہ مرچ، پالک پنیر او ربعض اوقات بھنڈی اور کریلے اور آٹھ بجے سبز چائے لیموں کے ساتھ استعمال کرتی رہی۔ میں تمام کھانے دیسی گھی یا مکھن میں پکاتی تھی اور دن بھر میں تین سے پانچ لٹر پانی ضرور پیتی تھی۔