• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آئیں جھاز بانڈہ اور کٹورا جھیل کی سیر کریں

جھاز بانڈہ اور کٹورا جھیل

سیر وسفر کا شوق زندگی کی علامت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سفر وسیلۂ ظفر اور علم میں بھی اضافہ کا ذریعہ ہوتا ہے، اس سے سوچ کے نئے دریچے بھی کھلتے ہیں ۔ہمارا ملک پاکستان خوش قسمتی سے فطری حسن وجمال کے مظاہر سے بھرا ہے۔ قدرت کے بے شمار خوبصورت، حسین اور دلکش تحفوں میں قدیم وادی دیر میں واقع ’’جھاز بانڈہ اورکٹورا جھیل‘‘ شاید اپنی خوبصورتی اور رعنائی میں سب سے منفرد ہیں، یہاں کے ندی نالے اور گنگناتے آبشار کائنات کے فطری حْسن و جمال کے حقیقی مظہرہیں۔اگر آپ کو رنگینی، دل کشی، رعنائی اور حْسن کے مفہوم کو سمجھنا اور اُن کا راج دیکھنا ہو تو اس وادی کا سفرلازمی کریں۔یہ دل نشین مقام ذہنی،دماغی اور جسمانی طور پر آپ کو مضبوط کرکے روحانی سکون ،دلوں میں نئی اْمنگ پیدا کرتا ہے ،جو یہاں کا رْخ کرتے ہیں وہ ان منفرد مناظر میں کھوکر رہ جاتے ہیں۔

’’جھاز بانڈہ‘‘ پاکستان کے درجنوں پہاڑی مستقر میں سے ایک اہم دریافت ہے،جو ضلع دیر بالا،خیبر پختونخوا میں واقع ہے۔ان پہاڑوں پر سال کے زیادہ عرصے برف جمی رہتی ہے ۔ دیر کے شمالی علاقوں میں ایک اہم سڑک بھی ہے، جووہاں کے لوگوں کے لیے ملک کے میدانی علاقوں تک رابطہ پیدا کرتی ہے ۔یہ علاقہ پہاڑوں کے دامن میں سطحِ سمندر سے 11500 فٹ بلند ہے۔ یہ وادی لوگوں اور کوہ پیماؤں کے لئے ایک دلچسپ اور دلفریب مقام ہے، یہاں کے گھنے جنگلات اور آبشار میں زندگی کا ایک نیا پن ہے۔ جھاز بانڈہ جانے کے لیے راستوں میں شیرنگل، پاتراک، بریکوٹ، بیار اور کلکوٹ کے دیدہ زیب علاقوں سے گزر ہو تاہے۔ سارے علاقے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہاں آپ کو راجہ کی راجدہانی، کے اثرات بھی ملیں گے۔ بریکوٹ کے نام سے تو سوات اور افغانستان میں گاؤں آباد ہیں، یہاںمقامی زبان گا وری اب معدوم ہوتی جارہی ہے۔ جھاز بانڈہ کے لیے آپ کو تھل سے پہلے دائیں طرف دروازو، جسے مقامی طور پر درانوٹ کہا جاتا ہے ،کی طرف جانا ہوگا، اسی راستے پر سیدھا جائیں تو تھل آجائے گا، یہاں سے آگے کمراٹ ویلی کی طرف راستہ جاتا ہے، جس کے ندی نالے اور گن گناتے آبشار بھی حسن فطرت کا خزانہ ہیں۔دروازو کے بعدسے پھتریلے اور مشکل راستے میں سفر کرتے ہوئے، جو پہلا گاؤں آتاہے، اس کا نام لاموتی ہے، جسے مقامی زبان میں ’’کینو لام‘‘ کہتے ہیں،جب کہ یہاں رہنے والوں کو ’’ کینور‘‘ کہا جاتا ہے’’ لام‘‘سے مراد گاؤں ہے اس طرح کینولام کا مطلب کینور کے رہنے والے ہیں۔لاموتی پہنچنے کا ایک دوسرا راستہ بھی نکلتا ہے، جو مردان سے کلام براستہ باڈگوئی ٹاپ جاتا ہے، یہاں سے ہی سیاح لاموتی آتے ہیں۔ راستے میں مدین اور بحرین دیکھنے کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہے کہ گلیشئیر کو باڈگوئی میں سڑک کے قریب سے دیکھ سکتے ہیں، جو کمراٹ اور جہاز بانڈہ میں دُور دُورتک نظر آتے ہیں۔ 

جھاز بانڈہ اور کٹورا جھیل

لاموتی گھنے جنگلات سے بھرا ہوا ہے۔یہاں کے لوگ نرم مزاج ہوتے ہیں، رہن سہن بود وباش کالام کے لوگوں کی طرح ہے، ان کے مردوں کی بڑی تعداد کراچی میں روزگار کے لیے آتی ہے۔لاموتی سے دو راستے ہیں ایک راستہ سیدھا باڈ گوئی ٹاپ کی طرف جاتا ہے۔جھاز بھانڈہ جانے کے لیے سیدھے ہاتھ پر سفر کریں گے تو آگے متول محلہ یا چھوٹا سا گائوں کہہ لیں سے گزرتے ہیں، یہاں تقریبا سو خاندان آباد ہیں۔اس سے آگے چند کلو میٹر سفر کے بعد جندرئی گائوں آتا ہے۔ یہ اس علاقے کا باقاعدہ آبادی کے لحاظ سے آخری گائوں ہے اور گاڑی کا سفر یہی تک کا ہوتا ہے۔سیاح عموما رات یہاں گزار کر آگے سفر شروع کرتے ہیں، کیونکہ اس کے بعد دُور دُور تک کم ہی انسانوں سے واسطہ پڑتاہے۔اگرآپ یہاں جائیںتو بلند پہاڑی اور ناہموار راستے آپ کی ہمت کا امتحان لے رہے ہوں گے ۔اس پورے علاقے میں کوہستانی زبان بولی جاتی ہے۔زیادہ تر کوہستانی رہتے ہیں، لیکن ایک قابل ذکر تعداد گجر قوم کی بھی ہے۔جندرئی کے لوگوں کا ذریعۂ معاش زراعت اور کھیتی باڑی ہے۔یہاں کے مقامی گرمیوں میں مال مویشیوں کولے کر جہاز بھانڈہ چلے جاتے ہیں اورسردیوں میں جب برف پڑتی ہے تو واپس آجاتے ہیں۔ 

جندرئی میں ایک خوبصورت تاریخی عجائب گھر بھی ہے، جس میں ہزاروں سال پرانے کوہستانی نوادرات، اسلحہ، برتن اورلکڑی کی بنی قیمتی چیزیں آپ کو ماضی قدیم میں لے جائیں گی ۔ یہاںکھڑاوں چپل بھی آپ کو دیکھنے کو ملے گی، جو لکڑی کی بنی ہوتی ہے۔غرض یہ میوزیم تہذیبی،ثقافتی تاریخی روایت کا عکاس ہے،اس کی تعمیر اور اس خطے کو باہر کی دنیا سے متعارف کرانے میں یہاں کی علاقائی شخصیت راجہ تاج محمد کا اہم کرداررہا ، وہ ایک سیاحت دوست اورمتحرک انسان ہیں۔ راجہ گیسٹ ہاؤس کے نام سے جھازبانڈہ کا واحد گیسٹ ہاؤس بھی ان ہی کا ہے۔وہ اکثرسیاحوں سے پیسےبھی نہیں لیتے اور کبھی لیتے بھی ہیں تو بہت کم۔ یہاں کےمقامی بھی سیاحت اور سیاحوں کو سپورٹ کرتے ہیں،بلکہ ملنساری اور عاجزی بھی ان کی خاص شناخت ہے۔راجہ کے ساتھ اس علاقے کو پروموٹ کرنے میں منیر کوہستانی کا بھی بڑا کردار ہے، جو 2010سے کمراٹ اور جھاز بانڈہ کو سوشل میڈیا پر پروموٹ کررہے ہیں۔(کمراٹ الگ ٹریک پر واقع ہے)اپر دیر سے بذریعہ جیپ دروازو 85کلو میٹراور تقریبا پانچ گھنٹے کا سفر ہے، جہاں سے جندرئی (Jandrai )کا راستہ دس کلومیٹر اور آدھا گھنٹہ کا سفر ہے۔ دیر میں ان چند سالوں میں بڑی تیزی سے سڑکوں کا جال بچھا ہے ۔خوشخبری یہ ہے کہ شیرنگل تک سڑک بھی تیار ہوگئی ہے۔ دیر سے کبھی کبھار سواری والی گاڑیاں بھی مل جاتی ہیں، لیکن بہتر یہی ہے کہ دیر سے جندرئی تک جیپ کرائے پر حاصل کرلی جائے ،جس کا کرایہ چار سے پانچ ہزار تک ہوتا ہے ۔اگر کمراٹ سے واپس آتے ہوئے یہاں آنا چاہتے ہیں تو تھل سے آسکتے ہیں، یہاں سے دو،تین ہزارروپے میں گاڑی مل جاتی ہے۔کمراٹ ویلی سے جندرئی 25کلومیٹر کاسفر ہے،اس علاقے کے لال آلو کافی مشہور ہیں،گوبھی،شلجم،سلاد کے پتے عمومی طور پر کاشت ہوتے ہیں۔ جندری سے اوپر ایک گائوں انار ہے، یہاں مقامی کوہستانیوں نے مٹر کی فصل پہلی بار لگائی تو اس میں انہیں بہت فائدہ ہوا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس گمشدہ علاقے کی اگر حقیقت دریافت ہوجائے تو یہاں بہت سے کامیاب تجربات ہوسکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہاں کے مقامی بھی نئے تجربات کرنے کا جذبہ رکھتے اور اپنے علاقے کی ترقی چاہتے ہیں۔ بس حکومت کی طرف سے وسائل اور رہنمائی کی ضرورت ہے، جو ریاست کی ذمے داری ہے۔ چندرئی اور جھاز بھانڈہ کے اردر گرد کا علاقہ دنیا کی بہترین اور نایاب جڑی بوٹیوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ شرینگل یونیورسٹی میں یہاں کی جڑی بوٹیوں پر تحقیق بھی ہوئی ہے، یہاں سے ایک ریسرچ کے لیے پانچ ہزار نمونے بھی اکھٹے کیے گئے تھے، لیکن جس میعار کی تحقیق، جس سطح پر ہونی چاہیے تھی، ویسی نہیں ہوئی۔

جھاز بانڈہ اور کٹورا جھیل

اب سفر آگے بڑھاتے ہیں، جہاں جانے کے لیے اپنے قدموں اور قوتِ ارادی کو مضبوط کرنا ہو گا، کیونکہ آگے کاسفر پیدل کا ہے، لیکن بہت خوبصورت، دلکش حسین اور سحر طاری کر دینے والا سفر۔ لیکن سفر اور خوبصورت دنیا دیگر سیاحتی مقامات کے برعکس حد نظر موجود پائیں گے، راستے میں ایک مشکل چڑھائی بھی ہے، جسے ایربی ( (Airbiکہتے ہیں، یہاں کے بارے میں مقامیوں کا کہنا ہے کہ یہ جنت کے سفرکی طرح کا علاقہ ہے۔ایربی سے مزید گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سفر کرنے کےبعد جھاز بھانڈہ آجائے گااور قدرت کے خوبصورت نظاروں میں آپ کھوجائیں گے۔ یہاں سفر کی تھکن کا احساس ختم ہوتا محسوس ہو گا، شاید آپ قدرت کا زمین پر جنت کا وہ ٹکڑا دیکھ رہے ہوں گے، جس کا نام کبھی پہلے نہ سنا ہو گا۔ یہ ایک بہت ہی زیادہ پُرکشش اور پُر فضا سیاحتی مقام ہے، جو لوگوں کی نظروں سے تاحال اوجھل ہے، اس کا شمار بھی پاکستان کے ان گمشدہ مقامات میں کیا جاسکتا ہے، جنہیں ابھی تک صحیح طرح سے دریافت نہیں کیا گیا۔ یہ بہت ہی وسیع اور عریض میدان کی مانند ہے، اس کے چاروں طرف پہاڑ ہیں، یہاں چھوٹے چھوٹے بنکر نما مکان اور سیاحوں کے لیے ایک ریسٹ ہاؤس بھی ہے، لیکن خیمے اور ٹینٹ بھی خرید کر لگائے جاسکتے ہیں۔یہاں کا پُرکشش ماحول جھاز بانڈہ کو سچ میں ایک خواب بنانے کے لیے کافی ہیں۔ جب سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے تو اس کے مناظر آپ کو مسحورکر دیتے ہیں اور آپ تصورات کی خوبصورت دنیا میں چلے جاتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو اس دنیا کی خوبصورتی کے درمیان خود کو پاتے ہیں۔ سورج کے طلوع ہوتے وقت اونچے برفیلے پہاڑ ایسے چمکتے ہیں کہ دودھیا پہاڑ نظر آتے ہیں، جبکہ غروب آفتاب کے وقت جب سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپتا ہے تو وادی میں دھیمی روشنی والی شام کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے۔ یہاں گرمیوں میں موسم خوشگوار ہوتا ہے اور سردیوں میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے۔ 

جھاز بانڈہ اور کٹورا جھیل

یہ وادی اور اس کے مکین انسان دوست محبت کرنے والے ہیں، سیاحوں اور مہمانوں کے لیے آنکھیں بچھانے والے ہیں، یہاں کےنہ صرف مقامی لوگ، پہاڑ، ندی نالے، جھیلیں، آبشار، چشمیں اور گلیشیئر، بلکہ پوری وادی موسم گرما میں سیاحوں کی منتظر رہتی ہے۔ مئی میں یہاں کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 11 اور کم از کم 3 درجہ سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ ستمبر کے اختتام تک راستہ کھلا ہوتا ہے، جس کے بعد برسات اور موسم سرما میں وادی میں نقل و حمل مشکل ہو جاتی ہے۔ جھاز بانڈہ کی دلکشی اور خوبصورتی سے آگے چھ کلو میٹر دور ’’کٹورا جھیل‘‘ ہے۔ جسے مقامی زبان میں ’’گان سر‘‘ کہا جاتا ہے، اس راستے میں ڈھنڈبانڈہ اور چھوٹی جھیل بھی آتی ہے، جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، لیکن گول کٹورے کی مانند ’’ کٹوراجھیل‘‘ دنیا کی منفرد جھیل ہے ،آبشار سے گرتا پانی اور جھیل میں تیرتے برف کے ٹکڑوں کو دیکھتے ہی سیاح دنگ رہ جاتے ہیں۔ جھیل چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑی گلیشئرز اور گھنے الپائن کے دیو قامد جنگلات میں گھری ہوئی ہے، ان جنگلات میں نایاب جانوروں کی کثرت ہے، جس میں مشہور مارخور قابل ذکر ہیں۔ جھیل سے متعلق کئی دیو ملائی کہانیاں بھی مشہور ہیں، جو مقامی لوگوں سے سننے کو ملیں گی، اگر آپ نے یہاں کا سفرنہیں کیا اور سیاحت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اپر دیر کا سفر ضرور کریں اور جھاز بانڈہ اور وادی کمراٹ کے سفر کی تیاری کریں۔ یہ سفر یقیناً آپ کی زندگی کا سب سے دلچسپ، دلکش اور منفرد اور ناقابل فراموش سفر ہو گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین