گلگت( مانیٹرنگ ڈیسک؍نیوز ایجنسیز) گلگت بلتستان کیلئے وفاقی حکومت کے اصلاحاتی پیکیج گلگت بلتستان آرڈر2018کے نفاذ کیخلاف گلگت بلتستان اسمبلی میں وزیر اعظم شاہدخاقان کی آمد اور گلگت بلتستان اسمبلی سے خطاب کے دوران اپوزیشن اراکین احتجاج کرتے ہوئے واک آئوٹ کرگئے۔ اسے علاوہ گلگت اور اسکردو سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ،ہڑتال اور ریلیاں نکالیں گئیں اور واک آئوٹ کر نے والے اراکین بھی شہرمیں جاری احتجاجی ریلی میں شامل ہوگئے۔ ریلی میں متحدہ اپوزیشن کے علاوہ عوامی ایکشن کمیٹی اور مرکزی انجمن تاجران کے قائدین اور کارکنوں سمیت سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد شریک تھے۔ احتجاج میں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔دوسری جانب گزشتہ روزگلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ جی بی آرڈر 2018 کے بعد گلگت بلتستان سول سروس کے قیام کی اجازت ہوگی، گورنر، ہائیکورٹ ججز اور چیف جسٹس بھی مقامی ہونگے۔انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے اپوزیشن کا حق ہے لیکن دوسروں کا موقف بھی سننا چاہئے اور اختلاف رائے اصولوں پر مبنی ہونا چاہئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج کا دن گلگت بلتستان اسمبلی کیلئے سنگ میل ثابت ہوگا اب آپ کے حقوق آپ تک پہنچیں گے ،جی بی آرڈر 2018 کی منظوری کے بعد گلگت بلتستان کو بھی وہی اختیارات حاصل ہوں گے جو صوبوں کو حاصل ہیں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے گلگت بلتستان کے حوالے سے سب سے بڑی تبدیلی یہ کی ہے کہ گلگت بلتستان میں فیصلہ کرنے کا اختیار عوام کے نمائندوں یعنی گلگت بلتستان کی اسمبلی کو دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو ملک کے دیگرشہریوں کو حاصل ہیں، حقوق کے حوالے سے تمام فرق ختم کر دیئے گئے ہیں۔ یہ دو بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے گلگت بلتستان کے عوام کو فیصلہ کرنے کا اختیار اور حقوق کی فراہمی کا کام ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے کیا ہے اگر اس حوالے سے قانون سازی کی بھی ضرورت ہوتی تو وہ بھی کرا دی جاتی کیونکہ اس مسئلہ پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج گلگت بلتستان کے رہنے والوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو ملک کے دیگر شہریوں کو حاصل ہیں اور ان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں اور اس حوالے سے گلگت بلتستان کا کوئی شہری اختلاف نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ آٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو جو حقوق حاصل ہوئے وہ تمام حقوق گلگت بلتستان کو بھی حاصل ہیں اور گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس حوالے سے قانون سازی کرے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے گلگت بلتستان کونسل اپناکردار ادا کرے گی لیکن یہ کردار صرف مشاورتی ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ حقیقت یہ ہے آج شاید یہاں دیگر صوبوں کے مقابلہ میں زیادہ اختیارات حاصل ہیں اور اس کی مخالفت پر حیرانی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے بعض دیگر بنیادی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں جن کے مطابق گلگت بلتستان کا گورنر مقامی ہوگا اور کوئی باہر سے گورنر نہیں لگایا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ برجیس طاہر بھی گلگت بلتستان کے گورنر رہے ہیں لیکن وہ آخری گورنر تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح ہائیکورٹ کے ججز اور چیف جسٹس بھی مقامی ہی ہوں گے جو پہلے نہیں ہوتے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ دیگر صوبوں کی طرح گلگت بلتستان کی سول سروس کے قیام کی بھی اجازت دی گئی ہے اور مقامی افراد آپکی خدمت کریں گے جبکہ پاکستان کی سول سروس میں بھی گلگت بلتستان کو کوٹا دیا جائیگا۔ اس کے علاوہ بھی بعض اہم اور بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کے مطابق اب تمام اختیارات گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری کے پاس ہونگے جو پہلے نہیں ہوتے تھے جبکہ فنڈز کے خرچ کرنے اختیارات بھی مقامی قیادت کو حاصل ہونگے۔