ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، لاہور
’’ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی وہ معرکۃ الآرا کتاب ہے، جسے قرآن فہمی کا ایک اہم ماخذ تسلیم کیا جاتا ہے۔ 136 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں مصنّف نے الٰہ، ربّ، عبادت اور دین جیسی بنیادی قرآنی اصطلاحات کو لغوی اور شرعی تناظر میں انتہائی جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ کتاب لاکھوں کی تعداد میں شایع ہو کر شائقینِ علومِ قرآن سے سندِ قبولیت حاصل کر چکی ہے۔ جماعتِ اسلامی کی خاتون رہنما، محترمہ سمیحہ راحیل قاضی نے اس کی انتہائی خُوب صورت تلخیص کی ہے، جو جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کے استفادے کے لیے شایع کی جا رہی ہے۔
اگر امّتِ مسلمہ کے زوال کے اسباب پر غور کیا جائے، تو قرآنی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالنا، اس زوال کا بنیادی سبب قرار پائے گا۔ ہم اپنے مسائل کے حل اور ترقّی کی راہیں دنیا بَھر کے افکار و نظریات میں تلاش کرتے پِھرتے ہیں، لیکن خود اس نسخۂ شفا سے استفادہ نہیں کرتے، جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نازل کیا ہے۔ پھر یہ کہ اگر ہم قرآن مجید پڑھتے بھی ہیں، تو اس کے معنی و مفہوم پر غور نہیں کرتے، جس کی وجہ سے قرآنی تعلیمات سے بے بہرہ ہی رہتے ہیں۔ الٰہ، ربّ، دین اور عبادت، یہ چار الفاظ بار بار قرآنِ کریم میں آئے ہیں اور اس کی پوری تعلیم انہی الفاظ کے گرد گھومتی ہے۔ مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے ان اصطلاحات کی کچھ یوں تعریف کی ہے۔
الٰہ
معانی و مفہوم: ٭ حاجتیں پوری کرنے والا ٭خطرات اور مصائب میں پناہ دینے والا٭ بے قراری میں قرار اور سکون دینے والا٭ بالاتر ذات، طاقت وَر اور زبردست، اقتدار اور قدرت والا٭ اس کی ساری کارفرمائی سربستہ راز ہے۔ اس کے سارے کاموں میں رفعت کے ساتھ پوشیدگی بھی شامل ہے٭ جس کی طرف انسان شوق و وارفتگی کے عالم میں بڑھتا چلا جائے، توجّہ کرتا چلا جائے، انسان کا اس کی طرف مشتاق ہونا۔
اہلِ جاہلیت کا تصوّرِ الٰہ: ٭ بُتوں کو مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لیے پکارتے تھے۔٭ سفارشی بنا کر اللہ سے مدد مانگتے تھے۔ ٭ ان کی ناراضی سے خوف زدہ رہتے تھے۔ ٭ اللہ تعالیٰ کے حکم کو قانون نہ ماننا اور اس کے اوامر و نواہی کی اطاعت نہ کرنا۔ ٭ حلال کو حلال اور حرام کو حرام نہ جاننا۔ ٭ اپنے نفس کو الٰہ بنانا۔
قرآن کے استدلال کے نتائج: ٭ حاجت روائی کے لیے وہ اقتدار درکار ہے، جو پوری کائنات کے نظام کو چلا سکتا ہو۔ ٭ یہ اقتدار ناقابلِ تقسیم ہے اور ایک ہی فرماں روا کے قبضے میں ہے۔٭ جب اقتدار اس کے پاس ہے تو الوہیت کا مستحق بھی وہی ہے۔ اس کے معاملات میں کوئی دخل اندازی اور سفارش نہیں کی جاسکتی۔ ٭ شارح و حاکم بھی صرف اس کو ہونا چاہیے۔
ربّ
معانی و مفہوم: ٭ پرورش کرنے والا، ضروریات بہم پہنچانے والا، تربیت اور نشوونما دینے والا، کفیل، خبر گیراں، دیکھ بھال اور اصلاحِ حال کا ذمّے دار۔٭ سمیٹنے والا، جمع کرنے والا، فراہم کرنے والا۔ ٭ فوقیت، بالادستی، سرداری، حکم چلانا، تصرّف کرنا۔٭ وہ جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو، سردار ذی اقتدار، جس کا حکم چلے، جس کی فوقیت و بالادستی تسلیم کی جائے، جس کو تصرّف کے اختیارات ہوں۔ ٭ مالک، آقا۔ ( قرآنِ کریم ان پانچوں معانی میں اللہ کو ربّ کہتا ہے)۔
ربّ کے متعلق گم راہ قوموں کے تخیّلات: ٭ اللہ ہی ربّ العالمین، مگر دوسرے بھی اس کے ساتھ ربوبیت میں شریک ہیں۔ ٭کائنات کا مالک ہے، مگر دنیاوی امور اور معاملاتِ زندگی میں اقتدارِ اعلیٰ ہمارے پیشواؤں کو حاصل ہے۔٭ سورج، ستارے، چاند اور آگ کی بھی پوجا ہوتی تھی۔ دوسروں کو موت اور زندگی کا بھی مالک سمجھتے تھے۔
یہود و نصاریٰ: جو بزرگ ہستیاں انبیاءؑ، اولیاء، ملائکہ وغیرہ دینی حیثیت سے قدرو منزلت کی مستحق تھیں، ان کو حقیقی مرتبے سے بڑھا کر خدائی مرتبے تک پہنچا دیا گیا۔ یہاں تک کہ اُنھیں خدائی اختیارات کا مالک سمجھا گیا۔ جیسے حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت عزیرؑ کو (نعوذ باللہ) اللہ کے بیٹے ہی قرار دے دیا۔
یؤمنون بالجبتِ والطاغوت) جبت اور طاغوت پر ایمان لانا): جبت کا مطلب اوہام و خرافات، جادو ٹونہ، فال گری، سعد و نحس سے متعلق تصوّرات وغیرہ ہیں، جب کہ طاغوت سے مُراد ہر وہ شخص، گروہ، ادارہ یا حکومت ہے، جس نے اللہ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کی ہو اور بندگی کی بجائے خدائی کا عَلم بلند کیا ہو۔
مشرکینِ عرب: یہ بھی اُنہی گم راہیوں میں مبتلا تھے، جس میں قومِ نوح سے لے کر یہود و نصاریٰ تک مبتلا تھے۔
قرآن میں ربّ کا تصوّر: ٭ کائنات کا سلطانِ مطلق اور لا شریک مالک اور حاکم ہے ٭ اسی حیثیت سے ہمارا اور تمام جہان کا حاجت روا، مربّی اور پروردگار ہے ٭ اس سے وفاداری وہ قدرتی بنیاد ہے، جس پر ہماری اجتماعی زندگی کی عمارت قائم ہے اور اسی کی وجہ سے مشرق و مغرب میں بسنے والے ایک امّت کے رشتے میں پروئے ہوئے ہیں٭ ہماری اور تمام مخلوقات کی بندگی، پرستش اور اطاعت کا وہی حق دار ہے ٭ ہمارا مالک، آقا اور فرماں روا ہے۔ ( جو بھی اس معانی میں کسی اور کو شریک کرتا ہے، وہ حق کے خلاف بغاوت کرتا ہے)۔
عبادت
معانی ومفہوم: ٭خضوع اور تذلل، تابع ہو جانا، رام ہوجانا، سپردگی میں دے دینا کہ جو چاہے، خدمت لے لے۔نیز، لسان العرب میں بیان کردہ تعریف کے مطابق، عبد وہ ہے، جو کسی کی مِلک ہو، یعنی آزاد کی ضد۔ اور عبادت اس اطاعت کو کہتے ہیں، جو پوری فرماں برداری کے ساتھ ہو۔ پس، عبادت کا مطلب بندگی و غلامی، اطاعت و فرماں برداری، پوجا و پرستش، ملازمت، قیدی ہو جانا، پرستار ہونا، کسی کا دامن تھام کر نہ چھوڑنا، سَر کے ساتھ دل بھی جھکا ہونا اور اپنی آزادی سے دست بردار ہو جانا ہے۔
دراصل، عبادت بندگی و غلامی ہی کا تصوّر ہے، پھر چوں کہ غلام کا اصلی کام اپنے آقا کی اطاعت و فرماں برداری ہے، اس لیے لازماً اس کے ساتھ ہی اطاعت کا تصوّر پیدا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، غلام مالک کی برتری کا قائل اور اس کی بزرگی کا معترف بھی ہو اور اس کی مہربانیوں پر شُکر و احسان مندی کے جذبے سے بھی سرشار ہو، تو وہ اس کی تعظیم و تکریم میں مبالغہ کرتا ہے، مختلف طریقوں سے اعترافِ نعمت کا اظہار کرتا ہے اور طرح طرح سے مراسمِ بندگی بجا لاتا ہے۔ اسی کا نام پرستش ہے اور یہ تصوّر، عبدیت کے مفہوم میں اُس وقت شامل ہوتا ہے، جب کہ غلام کا آقا کے سامنے محض سَر ہی نہیں، دِل بھی جھکا ہوا ہو۔
دین
معانی و مفہوم: ٭ غلبہ و اقتدار، حکم رانی و فرماں روائی، دوسرے کو اطاعت پر مجبور کرنا، اس پر اپنی قوّتِ قاہرہ کو استعمال کرنا، اس کو اپنا غلام اور تابع امر بنانا٭ اطاعت، بندگی، خدمت کسی کے لیے مسخّر ہو جانا۔ کسی کے تحت امر ہونا، کسی کے غلبے اور قہر سے دَب کر اس کے مقابلے میں ذلّت قبول کر لینا٭ شریعت، قانون، طریقہ، رسم و عادت۔٭ جزا، عمل، بدلہ، مکافات، فیصلہ، محاسبہ۔
قرآن میں لفظ’’ دین‘‘ کا استعمال: لفظ، دین کی بنیاد میں چار تصوّرات شامل ہیں، یا باالفاظِ دیگر یہ لفظ، عربی زبان میں چار بنیادی تصوّرات کی ترجمانی کرتا ہے(1) کسی ذی اقتدار کا غلبہ و تسلّط(2) اطاعت، تعبد اور بندگی، صاحبِ اقتدار کے آگے جھک جانا۔(3) قاعدہ و ضابطہ اور طریقہ، جس کی پابندی کی جائے۔(4) محاسبہ، فیصلہ اور جزا و سزا۔
قرآنی زبان میں دین ایک پورے نظام کی نمایندگی کرتا ہے، جس کی ترکیب چار اجزا سے مل کر بنتی ہے۔(1) حاکمیت و اقتدارِ اعلیٰ(2) حاکمیت کے مقابلے میں تسلیم و اطاعت (3) وہ نظامِ فکر وعمل، جو اس حاکمیت کے زیرِ اثر ہے۔(4) مکافات، جو اقتدارِ اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری و اطاعت کے صلے میں یا سرکشی اور بغاوت کی پاداش میں دی جائے۔ سورۃ النصر اور دیگر آیات میں دین سے اعتقادی، نظری، اخلاقی اور عملی پہلوؤں سمیت پورا نظامِ زندگی مُراد ہے۔ نبی کریم ﷺ کی 23 سالہ جدوجہد کے نتیجے میں اسلام اپنی تفصیلی صورت میں ایک اعتقادی و فکری، اخلاقی و تعلیمی، معاشرتی اور معاشی و سیاسی نظام کی حیثیت سے عملاً قائم ہو گیا تھا۔ قرآنِ کریم کی ان چار بنیادی اصطلاحوں کو غور سے پڑھنے اور اس کے معانی کے جہاں کو اپنے اندر آباد کرنے سے شاید ہم قرآن کے اس پیغام کو اخذ کر سکیں، جس نے اس کی اوّلین پیروکاروں کو دنیا کا امام بنا دیا تھا۔
قرآن کے پانچ حقوق
(1) قرآن پر ایمان لائیں: ایمان تب ہی مکمل ہوتا ہے، جب زبانی اقرار کے ساتھ، دل کا یقین بھی انسان کو حاصل ہو جائے۔ جب ہمیں یقین ہو جائے کہ قرآن، اللہ کا کلام ہے اور ہماری ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے، تو پھر اس کے ساتھ ہمارے تعلق میں انقلاب آ جائے گا اور اس سے بڑھ کر کوئی دولت اور نعمت معلوم نہیں ہوگی۔
قرآن کی تلاوت کریں: قرآنِ کریم ہماری روح کے لیے غذا کا کام دیتا ہے۔ روح کو تر وتازہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم بار بار قرآنِ کریم کی تلاوت کریں اور اسے اچھے سے اچھے انداز میں پڑھنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی، وہ اس کی یوں تلاوت کرتے ہیں، جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے‘‘( البقرۃ121 )۔ چناں چہ اس کی تلاوت کو روزانہ کے معمولات میں شامل کیا جانا چاہیے۔
قرآن پر غور کریں: اگرچہ قرآنِ کریم کی بغیر سمجھے تلاوت کرنا بھی ثواب سے خالی نہیں، لیکن یہ کتاب غور وفکر کے لیے ہی نازل کی گئی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور بندگی کے عہد کی یاد دہانی ہوتی رہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ کیا ان کے دِلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘ اس لیے ہم پر لازم ہے کہ اتنی عربی تو ضرور جانتے ہوں، جس کی مدد سے قرآنِ کریم کے مطالب کو سمجھ سکیں، لیکن اگر ایسا نہ ہو، تب ہمیں ترجمے کے ساتھ تلاوت کا معمول تو بنا ہی لینا چاہیے۔
قرآن پر عمل کریں: حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ کریم کو پڑھنا اور سمجھنا اُس وقت ہی زیادہ مفید ہوگا، جب اس پر عمل بھی کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تفصیلی ہدایات اسی لیے عطا کی ہیں کہ ہم ان کے مطابق زندگی گزاریں۔ قرآن کے بعض احکام پر عمل کرنا اور بعض کی خلاف ورزی کرنا، اللہ کی نگاہ میں بہت بڑا جرم ہے۔ نیز، نبی کریم ﷺ کے نقشِ قدم پر چلنا، قرآن پر عمل کرنےہی کا ذریعہ ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک صحابی نے سوال کیا کہ نبی کریم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کیسی تھی؟ اُنھوں نے جواب دیا’’ آپﷺ کی سیرت، قرآن ہی تو تھی۔‘‘ گویا آپ ﷺ چلتے پِھرتے قرآن تھے۔
قرآنِ کریم کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچائیں: آپ ﷺ ارشاد ہے’’ پہنچاؤ میری طرف سے، خواہ ایک آیت ہی ہو۔‘‘ اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص نے صرف ایک ہی آیت سیکھی ہو، تب بھی اُسے چاہیے کہ وہ اس آیت کو دوسروں تک پہنچائے ۔