• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
26 شامی روڈ (تیسری قسط)

تقسیم کے وقت اپنے والد کی تلاش میں بارڈر تک روزانہ جانے اور دھول گرد میں اَٹے واپس لوٹنے کی تکرار نے انھیں دمے کا وائمی مریض بنا دیا۔ جب وہ معائنہ انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر سیال کوٹ تعینات ہوئے، گو وہاں کا موسم صحت بخش تھا ،مگر یہ کہہ کر انکار کر آئے کہ اولاد پر محنت کرنا چاہتا ہوں۔ ’’یہ بھی چراغ تلے اندھیرے والی بات ہوئی کہ دوسروں کے بچّوں کو پڑھاؤں، مگر اپنے بچّے میری توجّہ سے محروم رہ جائیں۔‘‘ اولاد کی تعلیم پر اس حد تک توجّہ دیتے کہ بچّوں کو صرف خاص تعلیمی استعداد والے دوست بنانے کی اجازت تھی۔ایک مرتبہ ایک برخوردار گھر لوٹے، تو ساتھ میں ایک ایسا دوست تھا، جو طبیعت میں کچھ آزادمنش تھا۔ برخوردار کے قیاس کے مطابق اس وقت میاں صاحب کو گھر نہیں ہونا چاہیے تھا۔چناں چہ والد کو گھر پاکربرخوردار خاصے بدحواس ہوگئے۔ اُدھر میاں صاحب کا چہرہ بھی غصّے سے سرخ ہونے لگا۔ برخوردار نے حالات بھانپ کر دوست کو دروازے سے یہ کہہ کر رخصت کردیا کہ میری پھوپھی فوت ہوگئی ہیں، اس لیے والد صاحب پریشان ہیں،بعد میں آنا۔ اگردرست تناظر میں دیکھا جائے، تو ایسا رویّہ اعتدال اور توازن کے پیمانوں سے سوا ہوتا ہے، مگر یہاں اعتدال پر جنون اور شوق غالب آجاتا تھا، جن کی کوئی حدود نہیں۔ وہ اولاد کو خوش حال اور کام یاب دیکھنا چاہتے تھے اور یہی اُن کی زندگی کا جنون بن کر رہ گیا تھا۔ ابتدائی معاشی مشکلات کا ازالہ تب ہوا، جب اُنھیں ماڈل ٹاؤن لاہور میں 31-Fکا چارکنال کا پلاٹ اور دیگر جائداد کلیم کے نتیجے میں الاٹ ہوئی۔ زندگی کے بارے میں اُن کے نظریات ذاتی تجربات کا نچوڑ اورحقیقی عمیق سوچ کا نتیجہ تھے۔ چند خیالات معمول سے ہٹ کر بھی تھے۔ اُن کا نظریہ تھا کہ دولت کے حصول کا لالچ، ضرورت کے تحت نہیں ہوتا۔اِنسانی ضرورت اس لالچ سے کہیں کم پر بھی پوری ہوسکتی ہے۔یہ دراصل انسانی خواہشِ کثرت کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔آپ میچ ایک گول سے بھی جیت سکتے ہیں، مگر زیادہ گول آپ کے جذبہ فتح کو کہیں زیادہ سرشاری عطا کرتے ہیں۔اسی طرح انسانی مزاج دولت کے ذاتی ارتکاز اور اسے جمع کرنے کو، خرچ کرنے سے کہیں زیادہ پسندیدہ پاتا ہے۔ حصولِ کثرت بنیادی انسانی جبلّت کا حصّہ ہے۔

جب لاہور کی شہری آبادی کی اکثریت گلیوں، محلّوں میں آباد تھی، ایسی زندگی کو بہتر جانتی تھی اور قریب جڑے رہنے کو دُکھ درد بانٹنے کا ذریعہ اور اجتماعی زندگی کو تحفظ کی علامت سمجھتی تھی، وہ چھاؤنی کے کھلے اور نسبتاً بے آباد علاقے ’’شامی روڈ‘‘ پر منتقل ہوگئے۔ عمومی خیال کے برعکس وہ محلّوں اور گلیوں میں آباد لوگوں کے بیچ غیر صحت مندانہ مسابقت، منافقت اورحسد کو عام ہوتا ہوا جذبہ سمجھتے تھے اور اس کے منفی اثرات کے اظہار سے قطعاً نہ کتراتے تھے۔ اُن کو ساری زندگی یہی قلق رہا کہ وہ اکلوتے رہ گئے اور سردوگرم چشیدہ حالات میں چارہ سازی کے لیے کسی بھائی یا بہن کا ساتھ میسّر نہ رہا۔ اسی تنہائی نے اُن میں خبط بھی بھر دیا اور وہ مَردم گریز رہے۔ بہت کم دوست بنائے اور دوستی کا معیار اتنا بلند رکھا کہ کم ہی لوگ اس پر پورا اُترپائے۔ دوستی یاری کو وقت کا زیاں سمجھا اور دُورپار کے رشتے داروں سے بھی رسمی ساتعلق رہا۔ بیوی سے بھی رسمی تعلق تھا، البتہ اولاد سے تعلق میں شدّت بہت تھی، مگر یہ اُن کے خود ساختہ خول سے باہرکم ہی جھلکتی۔اُن کی زندگی میں کئی محبتیں تھیں۔ اُن میں سے ایک تو اسٹوری تھی میری اور اُن کی لو اسٹوری۔ ’’دادا اور پوتے کاپیار۔‘‘ انتہائی ذاتی۔ دیسی گھی کی طرح خالص، دیسی گلابوں کی پتّیوں کی طرح کومل،خوشبودار اور چاندی کے ورقوں کی طرح نازک۔اس ذاتی تعلق کو میں نمایاں کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ مستنصر حسین تارڑ نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’دُنیا میں سب سے بے لوث تعلق دادا، دادی، نانا، نانی کا ہوتا ہے۔‘‘ماں باپ کو تو پھر اولاد سے بڑھاپے کا سہارا یا تشنہ خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بننے کی اُمید ہوتی ہے، ان رشتوں کو تو کوئی ایسی توقع بھی نہیں ہوتی، یہ خوب جانتے ہیں کہ سحر ہونے تک کون سی شمع فروزاں رہتی ہے اور کون سا چراغ گُل ہوتا ہے۔

جب کبھی گرمیوں میں گھنگھورگھٹائیں آسمان کو ڈھک لیتی ہیں، دِن میں شام کا ساسماں ہوجاتا ہے اور آندھی جھکّڑیوں چلتے ہیں، گویا درختوں کو جڑوں سے اُکھاڑدیں گے‘ گرد کا طوفان میدانوں میں اورگلی، محلّوں میں رقص کرتا ہے، پتے اور جھاڑجھنکاڑ مٹیالی گرد میں اُڑتے چکراتے دیوانہ وار فضا میں بلند ہوتے ہیں، کواڑبجتے ہیں، لوگ باگ گھروں کے دروازے بند کرنے کو بھاگتے اور کھڑکیوں کی چٹخنیاں لگانے کو لپکتے ہوتے ہیں کہ یہ طوفان تھم جاتا ہے اور بارش کی موٹے موٹے جامنوں ایسی کڑیاں زمین پر ٹپ ٹپ ٹپک پڑتی ہیں، تو ایسے میں دادا جی بے تحاشا یاد آتے ہیں۔ یاد تو وہ تب بھی آتے ہیں، جب کوئی خوانچہ فروش، خستہ باقرخانیوں کی صدا بلند کرتا، کسی تنگ گلی میں سائیکل کی گھنٹی بجاتا چلا جاتا ہے۔ کسی چھوٹے سے بچّے کو بزرگ کی انگلی تھامے، مزے سے لہکتے، جھومتے چلتے جاتے دیکھ کر نہ جانے کیوں خیال آتا ہے، تو دادا جی کا۔ ایک روز میرے والد صاحب میرے بڑے بیٹے کو چومتے ہوئے نہال ہورہے تھے کہ یک دم مجھ سے پوچھ بیٹھے کہ کیا میرا بیٹا اُنھیں یاد رکھے گا اور کیا مجھے اپنے دادا جی یاد ہیں۔ تو میرا دِل آنسوؤں سے لب ریز ہوگیا اور میں دل میں والد صاحب کی درازیٔ عمر کی بے اختیار دعا کرتے ہوئے بولا۔’’ابو جی! وہ مجھے بھولے کب ہیں۔‘‘اور سچ تو یہ ہے کہ جوں جوں عمر پیما میں روز وشب دانہ دانہ گرتے ہیں، توں توں رشتوں کے خط وخال واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مَیں، جو دادا جی میں سے ہوں، اپنے اصل کو بھول بھی کس طرح سکتا ہوں کہ وہ میری شکل میں زندہ ہیں۔کہتے ہیں کہ میرے کان میں اذان دادا جی نے دی تھی۔ اُن کا پہلا لمس اور پہلا تاثر، جو مجھے یاد ہے وہ ایک دُھندلا سا تاثر ہے، جب میں اُن کی گود میں بیٹھا ہوں اور وہ شامی روڈ والی آبائی کوٹھی کے سامنے والے برآمدے میں اپنی مخصوص نشست پر بیٹھے مالی کو ہدایات دے رہے ہیں۔اُن کے بدن سے ایک مخصوص مہک اُٹھ رہی ہے۔یہ اُن کے بدن کی مخصوص مہک تھی۔ ہر انسان کے بدن کی مخصوص مہک ہوتی ہے، جسے لطیف حواسِ خمسہ والے انسان اور جانور پہچان لیتے ہیں۔ وہ مہک آج بھی میری یادداشت میں پوری طرح موجود ہے۔جس طرح مٹی کی ہنڈیامیںپکے پکوان کا ذائقہ، دیگر برتنوں میں پکے کھانے سے مختلف ہوتا ہے، اسی طرح غسل کے لیے رکھے گئے لوہے کے ٹب میں ٹھنڈے پانی کا جِلد پر احساس، پلاسٹک کی بالٹی میں بھرے پانی سے مختلف ہوتا ہے۔ دادا جی کے جسم کی مخصوص مہک ،شاید اُن کی جِلد ٹھنڈی رہتی تھی، تواُس ٹھنڈے پانی کی مخصوص خوشبو، ٹیلکم پاؤڈر،اولڈ اسپائس آفٹر شیو لوشن اور ناقابلِ بیان مخصوص مہک کا ملغوبہ تھی۔سردیوں میں جب وہ گرم کوٹ پہنے ہوتے، تو اس مہک میں فینائل کی گولیوں کی ہلکی سی بو شامل ہوجاتی۔وہ سحر خیز تھے اوراُن کی مخصوص عادت تھی کہ کوٹھی کے بیرونی برآمدے میں اپنی مخصوص نشست پربیٹھ جاتے۔سامنے لوہے کا سیاہ گیٹ کھلا ہوتا، جہاں سے سامنے سے گزرتی شامی روڈ نظر کے سامنے رہتی۔ ابھی یہ ایک پتلی سڑک تھی جو فورٹریس اسٹیڈیم کے سامنے سے نکلتی اور دادا جی کی کوٹھی کے سامنے سے ہوتی ہوئی جیل روڈ والی سڑک کو کاٹتی، چاند ماری کے کھلے میدان کے سامنے سے،جس کے بیچ پانی کی بلند و بالا ٹینکی اِستادہ تھی، گزرتی،مسکین شاہ کے چھوٹے سے مزار کے آگے دم توڑتی چلی جاتی۔کیولری گراؤنڈ، ڈیفینس وغیرہ ہنوز آباد نہ ہوئے تھے۔مسکین شاہ کا مزار بھی ایک خاموش چھوٹا سا درختوں میں گِھرا پرُسکون گوشہ تھا۔ مَیں اکثر اپنے چچا کے ساتھ وہاں چلا جاتا۔ چارپانچ برس کی عمر ہوگی میری۔ مزار کے اندر قبر کے اِردگرد کبوتر غڑغوں کرتے، پھڑپھڑاتے کندھوں پر آن بیٹھتے یا پھر دانہ چگتے رہتے۔ سارے صحن کی زمین اُن کی بِیٹوں سے لپی رہتی۔صحن زیادہ وسیع نہ تھا، اسی لیے بیچ میں اُگے گھنے درخت کی گندھی شاخوں کے گہرے اور سبز پتّوں کے لرزتے سائے اس کے گھیراؤ کو سایہ دار کیے رکھتے۔مٹی کے پیالے قبر کے احاطے کے گرد تعمیر چھوٹی سی دیوار پر دھرے رہتے، جن میں گدلا پانی سوکھتا رہتا۔ قبر کے ساتھ میں گدی تھی۔گدی کیا تھی ایک بڑا سا کمرا تھا، جس میں قالین اور دریاں بچھے ہوتے۔ دیواروں کے ساتھ گاؤ تکیے لگے رہتے۔میں نے اُس کمرے کی کوئی کھڑکی کبھی کھلی نہ دیکھی۔اسی لیے ایک ٹھنڈااندھیراکمرے میں بھرا رہتا، جس میں دیواروں پر لگے کم وولٹ کے ایک دو بلب اپنی لرزتی کم زور روشنی سے پرُاسراریت میں اضافہ کردیتے۔کمرے میں اگر بتیوں کا دھواں حزن آمیز خوشبو پھیلاتا رہتا۔ چچا کی مزار کے متولّی سے دوستی تھی۔وہ اندر کمرے میں متولّی کے ساتھ بیٹھ جاتے اور میں صحن میں اپنے ننھے قدموں سے کبوتروں کا پیچھا کرتا رہتا یا درختوں میں چھپی چیلوں کو کھوجتی نگاہوں سے دیکھتا رہتا۔ تھوڑی دیر میں آواز لگتی۔ میں اندر کمرے میں چلا جاتا۔ وہاں متولّی مجھے اپنی گود میں بٹھا کر دم کرتے اور ہاتھوں میں میٹھی سونف یا مصری تھما دیتے۔ میں اپنے چچا کی پیٹھ کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتا۔ وہ دونوں کافی دیر تک میری سمجھ سے ماورا باتیں کرتے رہتے۔ کمرے کی ٹھنڈی پراسراریت میرے اندر جذب ہوتی رہتی۔ یہاں تک کہ وہ دونوں اُٹھ کر معانقہ کرتے اور چچا میری انگلی تھامے مجھے باہر لے آتے۔ باہر کی کھلی اور روشن فضا میں آکر آنکھیں چندھیاجاتیں۔ میں واپسی پر اپنی توتلی زبان میں چچا سے کئی سوال کرتا رہتا، جن کا وہ مقدور بھرجواب بھی دیتے تاآنکہ ہم گھر پہنچ جاتے۔سامنے داداجی باغ میں کھڑے مالی کو ہدایات دے رہے ہوتے۔ دادا جی کو باغ بانی سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔آج جب میں تصور کے آئینۂ معکوس سے اپنے بچپن کی جانب نگاہ دوڑاتا ہوں، تو مجھے اپنے بچپن کے ابتدائی الفاظ میں کھرپا، رمبا اور شیرا مالی کے الفاظ بھی یاد آتے ہیں۔

غالباً گلزار یاکلدیپ نائرنے کہیں لکھا ہے کہ اُن کے آبائی شہرمیں بچپن کے قبل از تقسیم مکان کے احاطے میں ایک قبر تھی اور ایک بہت بڑا پتھر تھا، جس پر وہ کھیلا کرتے تھے۔تقسیم کے فسادات کے دوران اُنھیں نقل مکانی کرکے ہندوستان جانا پڑا۔وہاں اُنھیں اپنا مکان بے طرح یاد آتاتھا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات خواب میں بھی اُنھوں نے وہ مکان دیکھا۔بہت دہائیاں گزرنے کے بعد جب وہ پاکستان آئے اور دینہ میں اپنے آبائی مکان پہنچے، تو حیران رہ گئے۔ وہ ایک معمولی سا مکان تھا، جس کے چھوٹے سے صحن میں گو قبر تو برابر کردی گئی تھی، مگر وہ پتھر، ایک چھوٹا سا پتھر کونے میں دھنسا پڑا تھا۔وہیں اُن کا بچپن کے گھر کا رومان بھی برابر ہوا۔ بہت برس بعد، جب میں اُسی بچپن کے پرہیبت مزار میں دوبارہ گیا، تو سامنے ایک معمولی سا، ہندوستان کے ہزاروں مزاروں جیسا عام سا مزار موجود تھا۔شاید اسی لیے بچپن کے تحیّر کو برقرار رکھنے کے لیے اُس کی جانب نہ لوٹنا ہی قرینِ مصلحت ہے، ایسے ہی جیسے اپنی ابتدائی محبّت کی جانب رجوع کرنا اُس کے تخیلاتی طلسم کو توڑ دیتا ہے۔ دادا جی ایک خوب صورت آدمی تھے۔ گورے چٹے، چوڑے شانوں اور خون کی سرخی سے سرخ ہوتے گالوں والے آدمی۔ آخری عمر تک اُن کے سر پر سارے گھنے بال موجود رہے۔ وہ عموماً گھر میں سفید شلوار کُرتے میں ملبوس ہوتے۔آواز میں گرج تھی۔جب کبھی گھر سے باہر جانا ہوتا، تو کوٹ پینٹ کے اوپر جناح کیپ پہن لیتے۔شخصیت میں ایسا وقار اور اعتماد تھا کہ کسی بھی محفل میں جلد مرکزِ نگاہ بن جاتے۔اُن کو بھی اِس بات کا بہ خوبی علم تھا، اس لیے کبھی کبھارمزاج میں رعونت بھی رنگ دکھا جاتی۔ کچھ شاعری اورنثری ادب سے رغبت کے باعث اور کچھ فطرتاً حُسن پرستی اُن کے مزاج کا لازمی حصہ تھی۔کسی محفل میں حسین خواتین ہوتیں تو کھل اٹھتے۔ بولتے تو کچھ نہیں، بلکہ لیے دیئے رہتے، مگر چہرے کی چمک چغلی کھا ہی جاتی۔ایسے میں اُن کے مزاج کی شگفتگی قابلِ دید ہوتی۔حُسن پرستی صرف خواتین تک محدود نہ تھی بلکہ کوئی بھی دیدہ زیب منظر یا پلا ہوا اچھا جانور بھی اُن کی کم زوری تھے۔ لاہور چھاؤنی کو اُس دور میں ابھی شہر سے باہر کا حصّہ سمجھا جاتا تھا۔ اس تک میں برطانوی راج کا رنگ نمایاں تھا۔زمین کی قلّت نہ تھی، اس لیے وسیع کوٹھیوں کی حدود پر کم ہی معاملہ اُٹھتا۔کئی مرتبہ حدود کا تعین ٹیپ وغیرہ کے بجائے ’’ڈانگوں‘‘ یعنی بانسوں وغیرہ سے بھی کرلیا جاتا۔ کوٹھیوں کے بیچ خاصے رقبے بے آباد پڑے ہوتے، جن میں کہیں کہیں قدِآدم گھاس اور سبزہ رنگ دکھاتا۔ چوری چکاری کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔چھاؤنی کے مکین اِس حد تک ایک دوسرے سے واقف تھے، گویا ایک گھر کے افراد تھے۔ انگریزی طرز کی بیرکوں کے ساتھ کہیں ہٹ نما گھروں میں شیشے کی بڑی کھڑکیوں کے پیچھے اہلِ خانہ خانگی امور میں مصروف، سڑک پر گزرتے راہ گیر کو نظر آجاتے۔ بہت سے گھروں کے باہر حفاظتی دیوار کی جگہ خوب صورتی سے تراشیدہ باڑھیں ہوتیں۔کبھی تو یوں لگتا کہ کسی برطانوی قصبے کو اُٹھا کر لاہور کے پہلو میں رکھ دیا گیا ہے۔ ابھی یہاں جم سیٹھ جی کی عمارت میں زندگی جاری تھی۔پارسی عورتیں اور مرد مخصوص انداز میں ہاتھ تھامے چہل قدمی کرتے یا پرانی مورس کار میں جاتے نظر آجاتے۔اُن کی عورتیں دیدہ زیب پھولوں والے فراکس میں ملبوس ہوتیں اور مرد، پینٹ بُش شرٹ میں۔ چند ایک پڑھے لکھے، سلجھے مسیحی ہمارے ہم سائے میں بھی رہتے تھے۔ان میں کچھ چرچ کے زیرِ اہتمام چلنے والے کالجز، ایف سی وغیرہ میں پڑھاتے، چند ایک فوج سے اچھے عہدوں سے ریٹائر ہوئے تھے اور خواتین عموماً کیتھڈرل جاتی نظر آتیں۔ ایک اہم چرچ کے حوالے سے گرجا چوک آج بھی معروف ہے۔ چند گھرانوں سے پراسراریت وابستہ تھی۔ ہمارے گھر سے کافی فاصلے پر بوڑھے انگریز میاں بیوی تقسیم کے بعد واپس اسکاٹ لینڈ جانے کے بجائے، وہیں ایک وسیع کوٹھی میں رہتے تھے۔ ان کے بوڑھے انگریز رشتے دار بھی اُن سے ملنے آتے رہتے۔ اُن کے گھرانے سے عجیب داستانیں وابستہ تھیں کہ وہ لوگ زیرِ زمین مدفون خزانے کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کے ہاں بجلی کا بھی استعمال نہیں تھا۔ بلکہ وہ پرانی طرز کے لیمپ روشن کرکے رہتے۔ یہ داستانیں بہت حد تک خیالی تھیں۔اُس گھرانے کے آخری انگریز کو بھی بیسویں صدی کے اواخر میں جائداد پر قبضے کے لیے لاہورکے مقامی بدمعاشوں نے قتل کردیا۔ اسی طرح وہاں جو صحیح معنوں میں بیکری تھی، جہاں باقاعدہ کیک وغیرہ بیک کیے جاتے وہ مدت ہوئی بند ہوچکی۔البتہ اس بیکری سے ڈبل روٹی، رس وغیرہ ایک چھابے میں ڈال کر سائیکل پر بیچنے والے صاحب نے ایک چھوٹی سی بیکری شروع کی، جو ان کی شبانہ روز محنت سے راحت کے نام سے معروف ہوئی۔ اس بیکری کے باہر پہلی مرتبہ کون آئس کریم متعارف کروائی گئی، جو لوگ دُور دُور سے کھانے آتے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین