پختونوں کی تاریخ کیا کیا پہاڑ جیسی اولوالعزم شخصیات کے ذکرِ زریں سے عبارت ہے ۔ ان ہستیوں میں ایک خان عبدالصمد خان اچکزئی المعروف خان شہید بھی ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ حضرت آج کے بے باک سیاستدان ،جمہوریت کے بے لوث سپاہی اور مظلوم و محکوم عوام کے نڈر ترجمان محمو دخان اچکزئی کے والد گرامی تھے۔تاریخ کا یہ انمول ریکارڈ ہے کہ انگریز استعمار کے خلاف ایک ہی وقت میں برسرپیکار دو عظیم شخصیات حضرت باچاخان اور حضرت عبدالصمد خان ہمہ جہت خوبیوں کےمالک تھے ۔خان شہید ایک قوم پرست، جمہوریت پرست، ایک معلم، ایک قلمکار، آزادی پسند رہنما، انسانی حقوق کے علمبردار اورایک لبرل سماج کے متلاشی تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے22 سال سلاخوں کے پیچھے اس لیے گزارے تھے کہ ان کی قوم آزادی، جمہوریت اور چین کی زندگی گزار سکے۔ 1907 عبدالصمد بابا کی پیدائش کا سن ہے۔آپ نے اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ پشتو، عربی، فارسی زبانیں بھی سیکھ لی تھیں اور فقہ، احادیث کا تفصیل سے مطالعہ کیا۔ ۔ عبدالصمد خان اچکزئی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز، فرنگی سامراج کی مخالفت سے شروع کیا تھا۔ خان شہید کو 2دسمبر 1973 کو صبح چار بجے جب وہ کوئٹہ میں اپنی رہائش میں محوِخواب تھے دو دستی بم گرا کر شہید کیا گیا۔
محمود خان اچکزئی نے سیاست کا آغاز اپنے والد کی شہادت کے بعد کیا اور اس پارٹی کےسربراہ منتخب اور 2 فروری 1974ء کو ضمنی انتخاب میں بلوچستان صوبائی اسمبلی کے رکن بنے۔ وہ قلعہ عبداللہ اور کوئٹہ سے کئی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔محمود خان اچکزئی پشتون، سندھی اور بلوچ قوم پرست جماعتوں کے اتحاد پونم اور آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ(اے پی ڈی ایم) کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔بلو چستان کے پشتونوں میں محمود خان اچکزئی کی مقبولیت کی ایک وجہ بلوچ مخالف سوچ بھی رہی ہے۔ 25جون 2012 کو کوئٹہ کے صادق شہید پارک میںجلسے سے خطاب کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے اپنی تقریر کے دوران کہا تھا ’’ہم پشتون برابری کی بنیاد پر اپنا حق مانگتے ہیں۔چترال سے بولان تک متحدہ قومی وحدت کی تشکیل تک 125سال پرانا صوبہ بحال کیا جائے۔ بلوچ ہمیں مجبورنہ کریں کہ جرگہ بلا کر الگ صوبے کا اعلان کریں‘‘۔ تاہم اب وہ پشتون بلوچ اتحاد کے داعی کے طورپر جانے جاتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے ساتھ کامیاب مخلوط حکومت اس امر کی گواہی بھی دیتی ہے۔وہ پنجاب مخالف رہنما کے طور پر بھی مشہور ہوئے ، لیکن میاں نوازشریف کے ساتھ اتحاد کے بعد اب ان کے خیالات میں میانہ روی آئی ہے۔کہتے ہیں کہ اس میں جہاں نواز شریف صاحب کی سابقہ سیاست سے رجوع کا عمل دخل ہے ، تو وہاں میاں نواز شریف کی جانب سے اچکزئی صاحب کی اکثر سیاسی لائنوں کی پیروی بھی شامل ہے۔جب میاں صاحب نے حالیہ دنوں میں تکرار کے ساتھ خلائی مخلوق کا ذکر کیا ، تو اور تو اور چوہدری نثارعلی خان بھی بول پڑے کہ میاں صاحب اچکزئی صاحب کی زبان بولنے لگے ہیں، یا د رہے کہ خلائی مخلوق کی اصطلاح جہاندیدہ اچکزئی صاحب کی ہی مرہونِ منت منظر عام پر آئی۔ نواز شریف صاحب سے تعلقات کے حوالے سے خود اچکزئی صاحب نے رواں سال ایوب ا سٹیڈیم میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ہمیں طعنہ دیا جا رہا ہے کہ آپ میاں صاحب کو یہاں لا رہے ہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آئی جے آئی کے جلوس کا ہم نے سیاہ جھنڈوں سے استقبال کیا تھا ۔لیکن آج میاں صاحب آئین ، قانون کی بالادستی کیلئے نکلے ہیں ،میںاور تمام پشتون ان کا ساتھ دیں گے۔ اگرچہ اچکزئی صاحب اپنے بیانات بالخصوص قومی اسمبلی میں تقاریر کے حوالے سے کافی متنازع رہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اچکزئی صاحب ہی تھے کہ جن کی تقاریر کو سب سے زیادہ پذیرائی ملی، اسکی وجہ اُن کا منفرد لب ولہجہ، پروقارانداز ، معروضی صورتحال کا علمی ، تاریخی اورسیاسی انداز میں تجزیہ، اس کے حل کیلئے بے لاگ تجاویز اور آمریت بیزار خیالات ہیں ، جو وہ عوام و اراکین کے دلوں میں جاگزیں بناگئے ۔ اچکزئی صاحب جب روایتی فکر انگیز اسٹائل میں بار بار چادر سمیٹتے،ہاتھوں کو باہم ملاتے، کبھی استغراق میں نیچے دیکھتے، پھر ایک کھر ے انسان کی طرح کھلی پیشانی کے ساتھ سینہ چوڑا کرتے ہوئے اسمبلی میں بولتے تھے، تو اسمبلی میں سنا ٹا چھا جاتا تھا، اراکین پورے انہماک سے متوجہ ہوتے،چونکہ آپ کی زیادہ تر تقاریر چونکا دینے والی ہوتی تھیں، تو بسا اوقات بعض اراکین بیچ میں مداخلت کرتے ، لیکن اچکزئی صاحب جیسے طوفانی بارش کی طرح برستے ہی چلے جاتے۔ملاحظہ فرمائیں،جب پور ا پاکستان فاٹا پختونخوا انضما م کی حمایت میں رطب اللسان تھا،جناب اچکزئی مخالفت میں کیا موقف لائے۔فرمایا’’ میں پاکستانی شہری ہوں اور کسی چیز کی حمایت یا مخالفت کرنا میرا جمہوری حق ہے، 1947 کے آزادی ایکٹ کے مطابق فاٹا پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔انہوں نے تاریخی حوالے دیتے ہوئے کہا کہ برصغیر کی تقسیم سے قبل انگریز حکمرانوں اور قبائلی عمائدین کے درمیان بہت سے معاہدے ہوئے، جن میں فاٹا کے عوام کو ’آزاد لوگ‘ ظاہر کیا گیا، قبائل کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ خطرناک نتائج لائیگا‘‘سینٹ انتخابات کے حوالے سےقومی اسمبلی میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ سینٹ انتخابات میںخرید و فروخت کیلئے منڈی لگی ہوئی ہے ، سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایسے لوگ کھڑے کئے گئے ہیں کہ جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، مجھے غدار ابنِ غدار کہا گیا،مجھ پر الزام لگانے والوںکے والدین انگریزوں کے گھوڑے پالتے رہے ، میں وطن فروش اور ضمیر فروش نہیں ہوں‘‘ سچ بھی یہ ہے کہ مخالفین خواہ کچھ بھی کہیں، محمود خان( مشر) نہ تو ضمیر فروش ہیں اور نہ وطن فروش....مخالفین یہ الزام تو لگاتے رہے ، کہ آپ نے گورنر شپ، اور وزارتوں وغیرہ میں اپنے خاندان کو نوازا ، لیکن کرپشن و بدعنوانی سے آلودہ مروجہ سیاست میں ایک بھی مخالف آپ کی شخصیت پر کوئی
داغ لگانے کی ہمت نہیں کرسکا،ایسا لگتا ہے کہ فیض صاحب نے اچکزئی صاحب کیلئے ہی یہ اشعار کہے تھے۔
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اِس عشق نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت
خلاصہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ایوان نے جہاں بغض و عناد، الزامات اور تنقید برائے تنقید پر مبنی تقاریر سنیں، وہاں اچکزئی صاحب کی قومی ایشوز بالخصوص آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، افغانستان میں عدم مداخلت اور آمریت بیزار تقاریریادگاریاد رہینگی۔ خدا کرے کہ انتخابات ہوں ، اور اچکزئی صاحب ایک بار پھر اسمبلی میں پہنچ کر جلال وجمال سے آراستہ اپنی بصیرت افروز تقاریر سے اراکین اور عوام کو مستفید کریں، ہماری دعاہے...
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)