• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن… آصف ڈار
ان دنوں ساری دنیا کو فٹبال کا بخار چڑھا ہوا ہے اور درجنوں ممالک کے لاکھوں شائقین اس بخار کو اتارنے کیلئے روس کے مختلف شہروں میں موجود ہیں۔ جن کو اپنی پسندیدہ ٹیم کا میچ دیکھنے کیلئے ٹکٹ مل گیا تو وہ خوش نصیب ٹھہرا، جس کو نہیں ملا وہ بھی کسی پب، ریستوران یا پھر کھلے میدان میں لگی بڑی سکرینوں پر میچ دیکھ کر اپنی ٹھرک پوری کررہا ہے۔ سنا ہے کہ پاکستان سے بھی شائقین کی بڑی تعداد روس میں موجود ہے۔ ورلڈ کپ کے دنوں میں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں بھی ہر کوئی فٹبال کا دیوانہ ہے۔ کراچی خصوصاً لیاری میں جشن کا سماں ہے اور سارے لوگ نہ صرف اپنی ٹیموں کو سپورٹ کررہے ہیں بلکہ خود بھی فٹبال میچز کھیل کر دنیا کی ٹیموں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی اپنی قومی ٹیم ورلڈ ریکنگ میں کہیں نظر نہیں آتی؟ وہ اس قدر نچلے درجے پر ہے کہ اسے ٹیموں کی فہرست میں ڈھونڈنے کے لئے باقاعدہ زمین کے اندر دھنسنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے آس پاس کے مسلمان ممالک ہیں کہ کئی دہائیوں سے کم از کم ورلڈ کپ کے اندر کھیل ضرور رہے ہیں۔ اس مرتبہ بھی سعودی عرب، ایران، تیونس، مراکش اور مصر کی ٹیمیں موجود ہیں اور ایران کی ٹیم تو بہترین کارکردگی بھی دکھا رہی ہے۔ میں چونکہ خود فٹبال کھیلتا رہا ہوں، اس لئے یہ کھیل میرے اندر رچا بسا ہوا ہے۔ میرے بچے بھی اس کھیل میں غیرمعمولی دلچسپی ظاہر کرتے ہیں اور ہم سب اچھے میچز کو ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ ابھی دو روز پہلے ایران اور سپین کے میچ کے دوران مجھ سے میری ایک بیٹی نے سوال کیا کہ’’پاپا پاکستان میں کیا کوئی ٹیم نہیں؟ اگر ہے تو پھر وہ کبھی ورلڈ کپ جیسے میگا ایونٹ تک کیوں نہیں پہنچی؟‘‘ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا اور میں نے بات ادھر ادھر کرنے کی کوشش کی مگر بچے ٹلنے والے کہاں ہوتے ہیں، سو مجھے انہیں بتانا پڑا کہ ماشاء اللہ پاکستان کی ٹیم دن دوگنی رات چوگنی زوال کی طرف جا رہی ہے۔ فیفا ریکنگ میں 1993 میں اس کا نمبر 142تھا اور اب شبانہ روز سستی اور انتھک کرپشن کے بعد 2017میں ٹیم 201نمبر براجمان ہے۔ البتہ میں نے انہیں یہ بھی ضرور بتایا کہ پاکستان میں فٹبال کے ٹیلنٹ میں کمی نہیں اگر صرف کراچی (لیاری) سے ہی قومی ٹیم بنا کر اس کی تربیت کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ورلڈ کپ میں نہ پہنچے۔ پاکستان کے سارے شہروں میں انتہائی شاندار کھلاڑی موجود ہیں، انہیں سپر لیگ منعقد کرا کے تلاش بھی کیا جا سکتا ہے مگر اس کھیل کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس پر بعض لوگوں نے اس طرح ناجائز قبضہ کر رکھا ہے جس طرح اوورسیز پاکستانیوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر ٹٹ پونجیے قبضہ کرلیتے ہیں اور سالہاسال تارکین وطن کو الجھانے کے بعد ان کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ باوقار ممالک میں فٹبال سے محبت کا عالم یہ ہے کہ روس اور سعودی عرب کے افتتاحی میچ میں صدر پیوٹن اور سعودی ولی عہد بھی موجود تھے۔ ان ممالک میں حکومتیں بھی عوام کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے فٹبال کی نگہداشت کرتی ہیں۔ اس کے معاملات پر نظر رکھتی ہیں اور اس پر قبضہ گروپوں کو حاوی نہیں ہونے دیتیں۔ وطن عزیز میں فٹبال کا یہ عالم ہے کہ وہ ورلڈ کپ کے پہلے کوالیفائنگ رائؤنڈ میں ہی فارغ ہو جاتی ہے۔ پاکستانی حکومتوں کو اپنے اقتدار کو بچانے اور لوٹ مار سے کبھی فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ فٹبال جیسے عظیم اور غریب پرور کھیل پر توجہ دے پاتیں۔ ان حکومتوں نے پاکستان فٹبال فائؤنڈیشن کو بھی گزشتہ پندرہ برس سے بالکل اسی طرح فیصل صالح حیات کے حوالے کرکے تباہی کی آخری حد تک پہنچا دیا ہے جس طرح مولانا فضل الرحمٰن کو پاکستان کی پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کا چیئرمین بنا کر نہ مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب کوئی پیش رفت ہونے دی اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں پر ہونے والے بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے لا سکی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی فٹبال کو کرپشن سے باہر نکالا جائے اور اس کے لئے فیفا کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ کو کھلاڑیوں کی تربیت اور فلاح و بہبود کیلئے استعمال کیا جائے۔ پاکستان کے عوام فٹبال دیکھنا اور کھیلنا چاہتے ہیں انہیں یہ موقع ضرور ملنا چاہئے۔
تازہ ترین