نسیم نیشوفوز
’’اگر نور کے توحیدی سمندر میں اترنا ہے تو قلم پکڑئیےاور قرآن حکیم کی خوش نویسی میں بڑے د ھیان سے مشغول ہو جایئے۔ ہوسکتا ہے کہ فقط قر آن پاک کی ایک ہی سورت آپ کی عاقبت سنوار دے…
الخطّاط ابنِ مقلہ وزیر کے نقش کردہ الف‘‘ ہسپانیہ کے قصر الحمراء کے ستونوں سے کہیں زیادہ خوب صورت ہیں۔ حرف الف اس قدر سیدھا اور لانبا ہے جیسے عالی وقار صنوبر کا درخت۔
(بہ طور تمہید) الف اپنے معنی میں اسمِ ذات یعنی ’’اللہ‘‘ ہے۔ یہی وہ حرف ہے جو اپنی جمالیاتی بالیدگی دکھلاتا ہوا28 حروف میں ٹرانسفارم (Transform) ہوگیا۔
پھر یہی 28 حروف قرآن مجید میں پروئے گئے اور سب کے سب الہام کی وجدانی رنگت میں ڈوب گئے۔
الہام خصوصاً قرأت و خطّاطی بن گیا۔ کاتبانِ وحی یعنی قرآن شریف کے خطّاط تعداد میں 24 ہیں ۔ خلفائے راشدین سرفہرست ہیں۔
مذکورہ کاتبانِ وحی اور ابن مقلہ وزیر کے چھ ا یجاد کردہ اسالیب (Styles)قرآن مجید کی آ یا ت کی خطّاطی کے لیے استعمال ہوتے رہے۔
اگر الف کہانی شروع کی جائے تو آپ کی قوتِ سماعت وبصارت کا نشہ ’’دو آتشہ‘‘ سے بڑھ کر کچھ اور ہوجائے گا۔
ادیبہ خان کراچی اسکول آف آرٹس کی ایک ہونہارآرٹسٹ ہیں۔ادیبہ حروف اَبجدکے نگارخا نے میں کب اور کیوں کر داخل ہوئیں۔یہ ایک پُراز سعادت بات ہے۔
ان کا خطّاطی سے والہانہ عشق واقعتاً نیک شگو ن ہے۔ ادیبہ کا یہ عاشقانہ پن اس لیے بھی اہم ہے کہ حروفِ ابجد ماورائی و عرشی روح پروری لیے ہوئے ہیں۔ ادیبہ خان مذکورہ روح پروری کی حصّے دار ہیں ۔
قرآنی خطّاطی بے انتہا روحانی کہانی ہے جس کا ہر رنگ لُؤ لُؤو مرجانی ہے،اس کی واہ واہ ہر لحظہ سبحانی ہے۔
معروف خطّاط حامد ناصراپنی بسملات، سورہ فاتحہ اور آیۃ الکرسی کو Park رنگوںمیں ایسا صیقل کار کرتے ہیں کہ وہ آیات خطّاطی کے شاہ کار کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں۔ حامد اپنے خاص مُوڈ میں رہتے ہیں۔اچنبھے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ادیبہ خان کو اپنا شاگرد کیسے بنالیا۔ وہ عموماً استادی، شاگردی کے جھمیلوں میں نہیں پڑتے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حامد ناصر نے ادیبہ خان میں ضرور بہ ضرور خوبیاں اور فن کارانہ اچھائیاں دیکھی ہوں گی۔ میرٹ (Merit) بھی دیکھا ہوگا اور اپنے سایہ تلمّذ میں لے لیا ہوگا۔
ادیبہ خان کہتی ہیں : ’’کیلی گرافی کرتے وقت الگ ہی دنیا میں چلی جاتی ہوں اور خود کو اللہ تعالیٰ کے قریب پاتی ہوں۔ اس ذاتِ پاک کا شکریہ جس نے مجھے قرآنِ حکیم کے قریب تر کردیا…‘‘
ادیبہ کا سیدھے سادے انداز میں اتنا کہنا ان کے روشن مستقبل کا جواز پیش کررہا ہے۔ان کے استاد، حامد ناصر بھی یہی روشن مستقبل دیکھ رہے ہیں ۔
عقلاً اور قلباً الف کی یہ دنیا تکریم و تقدیس کی دنیاہے۔یہ الف کہانی یعنی جان فشاں خطّاطی اللہ تعالیٰ کی حضوری تک پہنچاتی ہے۔سراپا رُشد و ہد ا یت بن کر تقدیرِ انسانی کو بڑھاوا دیتی ہے۔کم ہمّتی اور قنوطیت کو رجائیت میں تبدیل کرتی ہے۔ قوّ تِ ایمانی کو فزوں سے فزوں تر کرتی ہے۔عقل و ا د راک کو تیز کرتی ہے۔
حامد ناصر،ادیبہ خان اور خود اپنے لیے دعاگو ہوں کہ بہ وساطتِ قرآنی خطّاطی ربّ ِلم یزل کی حضوری نصیب ہو،بلکہ آفاقی طورپر قرآنِ مبین کے خوش نویسان کو بھی یہ ’’حضوری‘‘ نصیب ہو۔ ایسی خوش نویسی ہمیں زمانے اور وقت سے سدا کے لیے ماوراء کردے۔
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جُز بہ قرآن زیستن
(اقبال)