• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صنعتی آلودگی

پاکستان ہوائی ،فضائی ،زمینی اور صنعتی آلودگی سے دوچار ہے۔آلودگی کی ان اقسام میںواحد صنعتی آلودگی ہے جو مادے کی تینوں حالتوں (ٹھوس ،مائع اور گیس ) کی شکل میں ہوتی ہے ۔فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں،پیداواری عمل کےنتیجے میں نکلنے والا آبی و ٹھوس فضلہ اور مشینوں سے نکلنے والا شور صنعتی آلودگی کہلاتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صنعتی ترقی نے انسان کو حیرت انگیز دور میں پہنچادیا ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں ان گنت کامیابیوں کاسفرطے کرکے آج انسان، جس جگہ کھڑا ہے،پہلے اس کاتصور بھی نہیں تھا۔ کامیابیوں کے اس سفرسے انسانی معاشرے کاہر فردکسی نہ کسی طرح مستفید ہورہاہے، مگرسائنسی اورصنعتی ترقی نے جہاں انسانی زندگی پرانتہائی خوش کن اثرات مرتب کیے، وہیں قدرتی ماحول اورحیاتِ انسانی کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی بجادی ہے۔گزشتہ125برسوں میں سائنسدانوں نے ہزاروں ایسے کیمیائی مادے ایجادکیے جوقدرتی طور پرموجودنہ تھے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیامیں 70 ہزار سے زائد کیمیائی مادے بنائے جا رہے ہیں،جو ہزار، دو ہزار نہیں، کروڑوں اور اربوں کلو گرام کی مقدار میں کارخانوں اور فیکٹریوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

ان کیمیائی مادوں کا غیر محتاط استعمال ماحولیاتی آلودگی کوجنم دیتا ہے، جس سے ایک طرف ہمارا ماحولیاتی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے تو دوسری طرف بے شمار انسان خطرناک قسم کی بیماریوں کا شکار ہو کر یاتو زندگی کی بازی ہار جاتےہیں یا معذور ہوجاتے ہیں۔مختلف صنعتیں اور فیکٹریاں ہمارے ماحول کو کس قدر آلودہ کر رہی ہیں۔اس کا اندازہ اس ایک رپورٹ سے بہ خوبی ہوجائے گا ،جس میں کہا گیا ہے کہ ایک سیمنٹ فیکٹری میں روزانہ تقریباً ایک ہزار پانچ سو ٹن سیمنٹ تیار ہوتا ہے۔ اس تیاری کے عمل میں گردو غبار کی صورت میں روزانہ منوں کے حساب سے مٹی، چونا اور دیگر زہریلی گیسیں فیکٹری کی چمنیوں سے نکل کر فضامیں تحلیل ہوتی ہیں، جس سے آس پاس کا ماحول آلودہ اور قریبی آبادی شدید متاثر ہوتی ہے۔

اب ذرا غور کریں ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر میں قائم فیکٹریاں،صنعتیں اورکارخانے ماحول کوکس قدر آلودہ کر رہے ہیں؟ مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بد قسمتی سے پاکستان ان چند ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکاہے،جہاں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے نہ جانے کتنی انسانی زندگیاں خطرات سے دوچار ہیں۔ نت نئی اور مہلک قسم کی بیماریاں سر اُ ٹھارہی ہیں۔صنعتی فضلات اور اخراج سے پانی آلودہ ہوتا ہے ،اس میں نامیاتی اور غیر نامیاتی مادے، نقصان دہ جر ثومے ،بدبو دار مواد اور بہت سی دوسری اشیاء ہوتی ہیں، جب کہ اخراج میں مائع ،ٹھوس اور سیال مادے شامل ہوتے ہیں ۔

صنعتی آلودگی

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق صنعتی ٹھوس فضلے کو ماحول دوست انداز سے ٹھکانے لگانے کا سائنسی طریقے کار موجود ہے ،جس پر عمل کرتے ہوئےاسے ٹھکانے لگا یا جاسکتا ہے ،مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم عمل کرنا ہی نہیں چاہتے،جب کہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ صنعتی آبی فضلے کو سیوریج کے پانی کی طرح بہانے سے قبل اسے ٹرٹیمنٹ پلانٹ سے گزارنا لازمی ہے ،علاوہ ازیں فیکٹریوں کی چمنی سے نکلنے والے دھوئیں میں موجود مختلف گیسوں کو ماحولیاتی معیار کی حدود میں رکھنے کے لیے فیکٹریوں کو اپنا پیداواری نظام بنانا چاہیے ،جس میں گیسوں کا اخراج کم سے کم ہو ،مشینوں سے نکلنے والے شور کو کم سے کم کرنے کے لیے مشینوں کو صحیح حالت میں رکھنا ضروری ہے ،نیز فیکٹریوں کو رہائشی علاقوںسے دور صنعتی علاقوں میں قائم کیا جائے ،کیوں کہ ان کے باعث مکینوں کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس مسئلے کو دیکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت ِحال میں حکومت کا کیاکردار ہے ؟اور اب تک کوئی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ہر سال شجر کاری کی مہم تو شروع کی جاتی ہے ،مگر ان پودوں کی حفاظت نہیں کی جاتی ،جس کی وجہ سے وہ خراب ہوجاتے ہیں ۔ جنگلات کی حفاظت کے لیے محکمے تو قائم ہیں ،مگر وہ ان کی حفاظت نہیں کرتے۔

ہمارے ملک میں ٹمبر مافیا تو بہت مضبوط ہےلیکن اسے نہ تو ماحول سے کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی پاکستان سے۔ محکمہ ماحولیات، سول ڈیفنس، ٹاؤن انتظامیہ ، ریسکیو 1122 اور محکمہ لیبر نے شہر کے رہائشی علاقوں میں موجود صنعتی یونٹوں کا سروے بھی کروایا، جس سے معلوم ہوا کہ شہروں میں سینکڑوں صنعتی یونٹ ہیں جو بغیر اجازت کام کر رہے ہیں اور کام کے دوران جوملازمین اور عام لوگ آلودگی سے متاثر ہو رہے ہیں ،ان کے متعلق سنجیدگی سے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔دن بہ دن صنعتی آلودگی میں اضافےکی وجہ سے صورت حال تشویش ناک ہورہی ہے ۔نہ جانے کیوں متعلقہ وزارت اور محکمے تاخیر کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔

ہر قسم کی آلودگی کے خاتمے کے لئے قومی سطح پر انسانی رویوں میں تبدیلی ضروری ہے۔ پاکستان کو جی ایس پی پلس سہولت کا فائدہ بھی تب ہی ہو سکتا ہے جب یہاں سےصنعتی شعبے میں آلودگی سے پاک مصنوعات برآمد ہوں گی۔ 

حکومت اور نجی شعبےکو مل کر آلودگی کے بڑھتے ہوئے مسائل پر قابو پانا ہو گا۔ پنجاب میں مختلف صنعتی اداروں کو جاری کردہ نوٹس کا مطلب ان اداروں کو بند کرنا نہیں ہے بلکہ انہیں ماحولیات کے ایکٹ کا پابند بنانا ہے ۔گلیوں میں جنریٹرز اور ٹریفک کے شور، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے بھی آلودگی بڑھ رہی ہے اور صحت مند قوم بیمار اور چڑچڑی ہو رہی ہے۔ کچن گارڈن کا تصور اپنایا جائے۔ قانون بنانے سے پہلےمتعلقہ محکمہ صنعتی اداروں اور عوام کو آگاہ کرے کہ ماحول کی بہتری کے لئے انہیں کیا کچھ کرنا چاہیے۔ اگر گندے پانی کے استعمال کو نہ روکا گیا تو آئندہ نسل میں کینسر کے خطرات مزید بڑھ جائیں گے۔ مختلف علاقوں میں ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کے لئےعملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔

دراصل آلودگی کا مسئلہ آبادی سے شروع ہوتا ہے۔ اس لئے آلودگی پر قابو پانے کے لئے آبادی پر کنٹرول کرنے پر توجہ دینی چاہیے ۔ اس کے حل کے لئے محکمہ ماحولیات کو کوشاں رہنا چاہیے، تاہم صفائی کے حوالے سے ہر ایک کو انفرادی سطح پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ آلودگی میں کمی کے لئے سب سے ضروری امر ،انفرادی سطح پرآگہی کا ہے۔ لوگوں کو آلودگی اور اس سے متعلق مسائل کے بارے میں تعلیم دینے کی ضرور ت ہے ۔ 

آلودگی کا مسئلہ ساری دنیا میں ہے لیکن ہمارےملک میں مختلف صنعتیں فضائی و آبی آلودگی کا سبب بن رہی ہے، جس کی روک تھام کے لئے ہنگامی طورپر اقدامات کی ضرورت ہے۔ صوبہ پنجاب میں صنعتی آلودگی اور ٹریفک کی وجہ سے صوتی و فضائی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ اسموگ کی شکایات بڑھ رہی ہیں۔ اس لئے صنعتوں کے قیام کے وقت ماحول کے تحفظ کے لئے اقدامات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

محکمہ ماحولیات کو حفاظتی اقدامات کے ساتھ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔دنیا بھر میں ماحول دوست اور ذمے دار صنعت کار یہ محسوس کرتے ہیں کہ صنعتی شعبے کو ہمیشہ محکمہ ماحولیات کے تعاون کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن ہمارےیہاں معاملے کو سیاسی بنادیا جاتا ہے۔بعض صنعت کاروں کا موقف ہے کہ اکیلا نجی شعبہ ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں لگا سکتا ،کیوں کہ اس کی لاگت بہت زیادہ ہے، لہٰذا اس سلسلے میں حکومت نجی شعبے کی مدد کرے اور حکومت کو ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے انفرااسٹرکچر کی بہتری کے لیے فنڈنگ میں نجی شعبے سے تعاون کرنا چاہیے۔اس بارے میں حکومت کو دیگر ممالک پر غور کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ کس صنعت سے مالکان کتنا منافع کمارہے ہیں اور کیا واقعی انہیں اس ضمن میں حکومت کی مدد کی ضرورت ہے۔ 

ہمیں درختوں کو ایندھن تصور کرنے کے بجائے ما حو لیاتی اثاثہ قرار دینا چاہیے،کیوں کہ ماحولیات کا ان سے گہرا تعلق ہے۔ماحولیاتی قوانین کے ضمن میں نجی شعبے کو بھی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں عوام میں شعور و آگہی پیدا کرے۔ ڈبلیو ٹی او کے نفاذ کے بعد ماحولیاتی معیارات سے ہم آہنگ ہونا ہمارے لیے ضروری ہوگیاہے۔اگر ایسا نہیں کریں گے تو اپنی مصنوعات برآمد نہیں کرسکیں گے۔ لہٰذا صنعتی شعبے کو اس کا احساس ہونا چاہیے۔

تازہ ترین